قربانی کے مسائل اورچند غلط فہمیوں کی نشاندہی

از:محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
عبادات الہٰیہ میں غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عبادت قربانی چاہتی ہے، قربانی کے بغیر عبادت کا تصور نہیں کیا جا سکتا، قربانی کبھی وقت کی ہوگی کبھی جان و مال کی ہوگی۔کیا کوئی بھی عقل رکھنے والا یہ بات پسند کرے گا کہ وہ قربانی بھی دے اور اس کی یہ قربانی عبادت نہ شمار ہو؟ اگرایسا نہیں ہے تو قربانی سے پہلے صحیح مسائل سے آگاہی بہت ضروری ہے، تبھی ہم عبادات بطریق احسن ادا کر سکیں گے۔
قربانی جو کہ ہرعاقل بالغ مالک نصاب پر واجب ہوتی ہے عبادت بھی ہے اور حقیقی قربانی بھی، اس سلسلے میں بہت سے لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں،اور اپنی کم علمی کی وجہ سے اپنی قربانیوں کو برباد کردیتے ہیں اور صحیح مسائل جاننے کی زحمت نہیں کرتے یا ضروری نہیں سمجھتے اور اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم نے تو قربانی کر دی،لہٰذا ایسوں کو چاہیے کہ دین کے ضروری مسائل سیکھ کراپنی عبادات اور قربانیوں کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
قربانی ہر عاقل بالغ،مقیم ،مالک نصاب مسلمان پر واجب ہے جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا (۹۳ گرام اور۳۱۲ملی گرام)یا ساڑھے باون تولہ چاندی(۶۵۳گرام اور۱۸۴ملی گرام)کا مالک ہو یا حاجت اصلیہ کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔مثلاً چاندی کی مقدار کے برابرمال تجارت ہو،یا اس کے برابر رقم ہو۔حاجت اصلیہ سے مراد رہنے کا مکان،خانہ داری کے ضروری سامان ،سواری کا جانور،گاڑی ،خادم ،سردی اور گرمی کے کپڑے وغیرہ۔ان سب صورتوں کے پائے جانے سے قربانی واجب ہو جائے گی۔قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب پر سال گزرنا ضروری نہیں ہے ،قربانی کے دنوں میں نصاب پا لیا گیا تو قربانی واجب ہو جائے گی جب کہ زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے نصاب پر سال گزرنا ضروری ہے۔اب ان غلط فہمیوں کو ذکر کیا جاتا ہے جو عوام میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔
عوام میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ پچھلی بار ہم نے دادا کے نام سے قربانی کی تھی ،اس بار نانا کے نام کرنا ہے، یاپچھلی بار حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم کے نام کی تھی اس بار بڑے پیر صاحب کے نام کرنا ہے، ایسے ہی بزرگانِ دین یا دیگر رشتے داروں اورمرحومین کے نام گنانے لگتے ہیں، ایسے لوگ جب تک اپنے ذمہ کی واجب قربانی نہیں کریں گے تب تک کوئی نفلی قربانی قبول نہیں ہوگی۔بیشترافراد یہ تصور کرتے ہیںکہ گھر کے تمام لوگوں کے نام سے قربانی کرنی ہے۔اسی لیے ایک سال اپنے والد کے نام کرتے ہیں،پھردوسرے سال والدہ کے نام کرتے ہیںپھرتیسرے سال چچا،تایا اور دادا نانا کے نام کرتے ہیںجب کہ ایسانہیںہے۔گھر میں جو جو مالک نصاب ہے شریعت کی طرف سے اس پر قربانی واجب ہے۔اگراللہ نے وسعت دی ہے تو دوسروں کے نام سے بھی قربانی کر سکتے ہیں۔
بسا اوقات یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ گھر کے ذمہ دار یعنی باپ کا انتقال ہوجاتا ہے اور تمام بچوں کا مشترکہ کاروبار ہے اور سبھی مالک نصاب ہو جاتے ہیں تو تمام بھائیوں پر قربانی واجب ہوگی، ایسا نہیں ہے کہ صرف بڑے بھائی کے قربانی کرنے سے دوسروں کی قربانی ساقط ہوجائے گی،بلکہ سب کو قربانی کرنی ہوگی۔یوں ہی ایک شکل یہ ہے کہ تمام لڑکے کاروبار سے پیسے کما کرکے اپنے باپ کو دے دیتے ہوں جو سب کا ذمہ دار ہے اور خود اتنا پیسہ نہ رکھتے ہوں جو نصاب تک پہنچ جائے تو اب صرف اسی ذمہ دار باپ پر قربانی واجب ہوگی، جس کے پاس نصاب بھر مال ہے دوسرے بیٹوںکے پاس نصاب بھر مال نہ ہونے کی صورت میں ان پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔
قربانی کے دنوں میں بھی اگر کسی کے پاس اتنا مال آگیا جو نصاب تک پہنچتا ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہوجاتی ہے زکوٰۃ کی طرح سال گزرنا ضروری نہیں اور قربانی کے ایام ختم ہونے سے پہلے پہلے قربانی کرنا واجب ہے ورنہ گناہ گار ہوگا، اور بعد میں قربانی کے جانور کی رقم صدقہ کرنا بھی ضروری ہوگا۔یہ قربانی آنے والے سال کرنے سے ادا نہ ہوگی۔ہاں آئندہ سال قربانی کے دنوں میں مال نصاب رہا تو اس سال کی قربانی کرنی واجب ہوگی۔
ایک شکل یہ ہے کہ باپ کا انتقال ہوگیا اب اس کے دو یا چار یااس سے زیادہ بیٹے ہیں ،اب مال گرچہ مشترک ہے جب تقسیم کریں گے تو سب مالک نصاب بن جائیں گے(گرچہ ابھی تقسیم نہیں کیاہے)تو ہر ایک کو اپنی طرف سے قربانی کرنی ہوگی۔ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ مرحوم باپ کی طرف سے ایک قربانی کر دی یا مال جو موجود ہے اس کے نام سے ایک قربانی کر دی اور سمجھ لیا کہ سب بیٹے بری الذمہ ہو گئے ۔یوں ہی کسی ایک بھائی کی طرف سے قربانی کی تو سب کی نہیں ہوئی،صرف ایک ہی کی ہوئی جس کے نام سے قربانی کی گئی۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ مسائل معلوم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ عیب دار جانور کی قربانی کر دیتے ہیں یا ایسا عیب جس کے ہونے سے قربانی کی صحت میں کوئی فرق نہیں پڑتا،اس کے عیب ہونے کے شک میں قربانی نہیں کرتے، ہر کوئی اتنی استطاعت والا بھی نہیں ہوتا کہ فوراً وہ دوسرا جانور لا کر قربانی کرے، اس لیے ہر قربانی کرنے والے کو ضروری مسائل سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے، آج کل اینڈرائڈ موبائل کا دور ہے جس کے ذریعے مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے، اس کا بہتر استعمال کیا جائے۔
میرے ایک ملاقاتی نے بڑے جانور کے کسی عیب سے متعلق مسئلہ پوچھا تو میں نے کہا کہ فوٹو کھینچ کر بھیج دیجیے تاکہ آسانی سے مسئلہ سمجھ میں آجائے تو فوٹو دیکھنے پر معلوم ہوا کہ جس کو وہ عیب سمجھ رہے تھے وہ عیب نہیں ہے، اس کی قربانی درست ہے۔اس مثال سے یہ ثابت ہوا کہ کم ہی لوگ اس طرح باریک بینی سے غلط فہمیوں کو دور کرکے اپنی قربانیاں درست کرتے ہیں۔
یہ بات بھی عوام میں پائی جاتی ہے کہ جس کا عقیقہ نہیں ہوا ہے اس کی قربانی صحیح نہیں، حالانکہ قربانی کا عقیقے سے کوئی تعلق نہیں، بغیر عقیقے کے بھی قربانی درست ہوگی، عقیقہ کا مسئلہ الگ ہے، قربانی کا الگ، ہاں بڑے کے حصے میں قربانی کے ساتھ ساتھ عقیقہ بھی ہو سکتا ہے،اس کے لیے الگ سے جانور لینے کی ضرورت نہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ عقیقہ سنت ہے استطاعت ہونے پر زندگی میں ایک ہی بار کرنا ہے،اگر باپ نے کسی وجہ سے عقیقہ نہیں کیا تو خودآدمی اپنا عقیقہ بھی بڑے ہو کر کر سکتا ہے اور عمر بھر میں کبھی بھی کرسکتا ہے ہاں بہتر یہ ہے کہ بچے کا عقیقہ پیدا ہونے کے ساتویں روز کیا جائے۔
بسا اوقات گھر کے ذمہ دار نے اپنی طرف سے قربانی کر دی، لیکن عورتوں کے پاس اتنی مالیت کے زیورات ہیں جو نصاب کو پہنچتے ہیں اور ان کی مالک خود عورت ہوتی ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے، غفلت میں عورتیں قربانی نہیں کراتیں یا شوہر کی طرف سے قربانی ہوجانے کو کافی سمجھتی ہیں، ان کو چاہیے کہ ایسے مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لیں تاکہ جن جن پر قربانی واجب ہے وہ ادا کر سکیں۔
قربانی کے گوشت کا تین حصہ کرنا مستحب ہے ایک حصہ فقراومساکین کے لیے، ایک حصہ دوست احباب کے لیے، ایک حصہ گھر والوں کے لیے، تو جن کے دوست احباب کچھ غیر مسلم بھی ہیں تو وہ ان کو بھی شامل نہیں کر سکتے ،کیوںکہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز نہیں،قربانی کا گوشت پکا کر بھی غیر مسلم کو نہیں کھلا سکتے، ہاں الگ سے گوشت خریدکران کو کھلا سکتے ہیں اور دے بھی سکتے ہیں۔جن کو تعلقات نبھانا ہے ان کو ایسا ہی کرنا چاہیے تاکہ شرعی مسئلے پر بھی عمل ہوجائے اور تعلقات بھی بحال رہیں ۔
قربانی کے گوشت کو بہت دنوں تک فریز کرنے سے بچیں اور پاس پڑوس میں اگر ایسے لوگ پائے جاتے ہوں جو عام دنوں میں کم گوشت کھا پاتے ہیں تو ان تک گوشت پہنچائیں۔تاکہ وہ لوگ بھی اس موقع سے گوشت کھا سکیں۔
کہیں کہیں قصائی قربانی کا گوشت اجرت کے طور پر مانگ کر لے جاتے ہیں یا گھر والے اجرت میں گوشت دے دیتے ہیں، قصائی کو قربانی کا گوشت یا چمڑا اجرت میں دیناجائز نہیںہے، ہاں اجرت کے بعد تبرعاً(بطور نفل) دے سکتے ہیں۔
جانور ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ اللہ اکبر ‘‘پڑھ کر تینوں رگ کاٹنا ضروری ہے، اگر ذبح کرنے والا تینوں رگ نہیں کاٹ سکا اور قصائی کو چھری دے دی تو اس سے بھی کہے کہ ’’بسم اللہ اللہ اکبر ‘‘پڑھ کر بقیہ رگ کاٹے اگر بغیر بسم اللہ پڑھے بقیہ رگ کاٹ دی تو قربانی نہیں ہوئی، بسم اللہ پڑھ کر شہ رگ کاٹنا ضروری ہے، اس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، خاص طور سے اس وقت جب ذبح کرنے والا کوئی کمزور ہو، اس پر توجہ دینا ضروری ہے۔
سات حصے والی قربانی میں گوشت تول کر سب کو برابر برابر تقسیم کیا جائے، پائے اور کلیجی سب کو گوشت میں ملا دیا جائے تاکہ تقسیم میں پریشانی نہ ہو، یا ساتوں افراد کسی آٹھویں کو بالاتفاق پورے گوشت کا مالک بنا دیں تو اب اسے اختیار ہے جس کو جتنا چاہے دے، ایسی صورت میں تولنے کی ذمہ داری سے بچا جا سکتا ہے۔
مسئلہ: قربانی اگر منت کی ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھاسکتا ہے نہ اغنیا کو کھلا سکتا ہے بلکہ اس کو صدقہ کر دینا واجب ہے وہ منت ماننے والا فقیر ہو یا غنی دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ نہ خودکھا سکتا ہے نہ غنی کو کھلا سکتا ہے۔(بہار شریعت،حصہ ۱۵،صفحہ ۳۴۵)
مسئلہ: ذبح کرنے سے پہلے چھری کو تیز کر لیا جائے(بارہا کا تجربہ ہے کہ قصائی حضرات کے گھر میں جتنی چھریاں رکھی رہتی ہیں بقرعید پر سب کو نکال دیتے ہیں اور قربانی کے لیے دے دیتے ہیں، جب چھری چلائی جاتی ہے تو چلنے کا نام نہیںلیتی، ایسی صورت میںجانورمزید تکلیف سے گزرتا ہے، خودکو بھی بہت تکلیف ہوتی ہے، لہٰذا چھریوں پر دھیان دینا بہت ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ جانور ڈبل قربانی سے گزرے) اور ذبح کے بعد جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے ،اس کے تمام اعضا سے روح نکل نہ جائے ،اس وقت تک ہاتھ پاؤں نہ کاٹیں اور نہ چمڑا اتاریں ۔
بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے جب کہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو حکم دے وہ ذبح کرے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت ِقربانی حاضر ہو، حدیث میںہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:’’کھڑی ہوجاؤ اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو جاؤ کہ اس کے خون کے پہلے ہی قطرہ میںسب کی مغفرت ہوجائے گی ۔اس پر ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا نبی اللہ(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم) یہ آپ کی آل کے لیے خاص ہے یاآپ کی آل کے علاوہ عامہ مسلمین کے لیے بھی ،فرمایا کہ میری آل کے لیے خاص بھی ہے اور تمام مسلمین کے لیے عام بھی ہے۔ (بہار شریعت،حصہ ۱۵، صفحہ ۳۴۴)
مسئلہ: اونٹ اور بھینس کے شرکا میں سے ایک کافر ہے یا ان میں ایک شخص کا مقصود قربانی نہیں ہے بلکہ(صرف) گوشت حاصل کرنا ہے تو کسی کی قربانی نہ ہوئی۔(درمختار،بحوالہ بہارشریعت، حصہ ۱۵ صفحہ۳۴۳)
کافر ہونے میں اہل سنت و جماعت کے علاوہ سارے فرقہ باطلہ ہیں جن کے عقائد گستاخانہ ہیں، لہٰذا حصے میں قربانی کرتے وقت حصے داروں کو خوب چھان پھٹک کر شامل کریں، حصہ داروں میں سارے اہل سنت ہی ہونے ضروری ہیں ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔
قربانی کے چندمسائل اورعوامی غلط فہمیاں جو سامنے آئیں نقل کر دی گئیں، قربانی کے مزیدمسائل سیکھنے کے لیے بہارشریعت کا پندرہواں حصہ، قانون شریعت وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر:پیام برکات،علی گڑھ
رابطہ:7860561136
Comments are closed.