عید الاضحی کی سنّتیں اور آداب

مفتی ندیم احمد انصاری
٭ عیدین کی رات میں عبادت کرنا:حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو دونوں عیدوں (عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں میں اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید پر قیام کرے، اُس کا دل اُس دن مُردہ نہیں ہوگا جس دن (لوگوں کے) دل مردہ ہوجائیں گے۔[ابن ماجہ]
٭مسواک کرنا:خاص عید کے دن مسواک کرنابھی سنت ہے۔حضرت سعید ابن مسیّبؒنے فرمایا: عید کے دن مسواک کرنا سنّت ہے۔[مصنف عبد الرزاق]
٭غسل کرنا:عیدین میں نمازِ عید کے لیے جانے سے قبل غسل کرنا بھی سنت ہے۔ ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: عید الاضحی اور عید الفطر کا غسل دین کا حصہ ہے۔[مصنف ابن ابی شیبۃ] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی عیدین کے دن غسل فرمایا کرتے تھے۔[ایضاً]
٭خوش بو لگانا:مَردوں کے لیے عیدین میں خوش بو لگانا بھی سنت ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :یہ عید کا دن ہے، جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمایا۔ جو جمعے کے لیے آنا چاہے، وہ غسل کرلے اور اگر خوش بو میسر ہو تو لگا لے اور تم پر مسواک (بھی) لازم ہے۔‏[ابن ماجہ][جمع الوسائل فی شرح الشمائل، باب: فی تعطر رسول اللہﷺ]
٭عمدہ لباس پہننا:عیدین میں پسندیدہ ہے کہ جتنے لباس موجود ہوں، اُن میںسب سے عمدہ زیبِ تن کرے۔ حضرت نافعؒ فرماتے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما عیدین میں اپنے اچھے کپڑے پہنا کرتے تھے۔[سنن کبریٰ بیہقی]
٭نمازِ عید سے قبل کھانا پینا:عیدالفطر کے دن نماز سے پہلے کچھ کھا لینا،اور کھجور کھانا مستحب ہے۔ عید الاضحی میں نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے۔[ترمذی]حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ عیدالفطر کے لیے اس وقت تک نہ جاتے تھے جب تک کچھ کھا نہ لیتے، اور عید الاضحی میں اُس وقت تک کچھ نہ کھاتے تھے،جب تک نماز ادا نہ کر لیتے۔[ایضاً]
٭عیدگاہ سویرے جانا:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضرت نبی کریمﷺ عید گاہ کی طرف صبح (سویرے)کو جاتے اور نیزہ ان کے آگے لے کر چلتے اور عید گاہ میں وہ ان کے سامنے نصب کیا جاتا، اس کے سامنے کھڑے ہو کر آپ ﷺ نماز پڑھتے تھے۔[بخاری]
٭عیدگاہ پیدل جانا:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ آدمی نمازِ عید کے لیے پیدل چل کر آئے۔[ابن ماجہ] حضرت ابورافع فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نمازِ عید کے لیے پیدل چل کر آتے تھے۔[ابن ماجہ]
٭ تکبیرِ تشریق پڑھنا:حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: عید الفطر کے روز آپ ﷺجس وقت گھر سے نکلتے عید گاہ پہنچنے تک تکبیر کہتے۔ [کنزالعمال] ایک روایت میں ہے کہ عیدین میں حضورﷺ تہلیل اور تکبیر بلند آواز میں پڑھتے ہوئے نکلتے تھے۔[کنزالعمال] ابوعبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: صحابۂ کرام کے زمانے میں لوگ عیدالفطر کے دن عیدالاضحی کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ تکبیر پڑھتے تھے۔[سنن دار قطنی]اس لیے عید الفطر میں آہستہ اور عید الاضحی میں قدرے زور سے تکبیر پڑھتے ہو ئے عید گاہ جانا چاہیے۔خیال رہے! عید گاہ پہنچنے سے پہلے پہلے راستے میں تکبیرِتشریق پڑھنے کا حکم ہےاورعیدگاہ پہنچنے کے بعد بھی تکبیرات، ذکر اللہ وغیرہ میں لگا رہے،لیکن (عیدگاہ میں) جہراً تکبیر پڑھنا منع ہے، سراً پڑھے یا خاموش رہے۔ امام صاحب یا کسی مقتدی کے تکبیرِ تشریق پڑھانے پر حاضرین کا پکار کر تکبیر پڑھنا، خلافِ سنت اور مکروہ ہے۔[فتاویٰ رحیمیہ جدید]
٭نمازِ عید سے قبل نفل نماز نہ پڑھنا:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے عیدالفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھی، نہ تو اُس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ بعد میں۔[بخاری]
٭نمازِ عید الاضحیٰ جلدی اور عید الفطر تاخیر سے:حضرت ابو حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا- جب کہ وہ نجران میں تھے- کہ نمازِعید الاضحی جلدی اور عید الفطر کو کچھ تاخیر کے ساتھ پڑھو اور لوگوں کو نصیحت کرو۔[سنن کبریٰ بیہقی]
٭نمازِ عید دوگانہ ادا کرنا:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ عیدین کے دن نکلتے اور دو رکعت نماز سے ابتدا فرماتے تھے۔[سنن کبریٰ بیہقی]
٭خطبہ نماز کے بعد ہونا:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عیدالاضحی اور عیدالفطر میں نماز پڑھتے، پھر نماز کے بعد خطبہ دیتے تھے۔[بخاری]
٭راستہ تبدیل کر کے واپس آنا: عید گاہ میں ایک راستے سے جانا اودوسرے راستے سے واپس آنا سنّت ہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ واپسی میں راستہ بدل دیا کرتے تھے۔[بخاری]
٭ایک دوسرے کو مبارک باد دینا:جبیر بن نفیرؒ (تابعی) سے روایت ہے کہ جب حضرت نبی کریم ﷺ کے صحابہ عید کے دن ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا و مِنکَ کہتے تھے۔[فتح الباری]
٭عید کی خوشی منانا:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں جنگِ بعاث کے دن کا شعر پڑھ رہی تھیں اور ان لڑکیوں کا پیشہ گانے کا نہیں تھا؛ تو حضرت ابوبکر نے فرمایا: یہ شیطانی باجہ اور رسول اللہ ﷺ کے گھر میں! وہ عید کا دن تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہم لوگوں کی عید ہے۔[بخاری]
٭قربانی نمازِ عید کے بعد کرنا:حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو (عید الاضحی میں) خطاب کرتے ہوئےسنا، آپ ﷺنے فرمایا: ہم سب سے پہلے نماز پڑھیںگے، پھر گھر واپس ہوں گے، پھر قربانی کریںگے۔جس نے اس طرح کیا، اُس نے میری سنت کو پا لیا۔[بخاری] حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے عید الاضحی کے دن نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا، پھر ذبح کیا، اور فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کیا تو اس کی جگہ پر دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا تو وہ اب اللہ کے نام سے ذبح کرے۔‏[بخاری]
٭قربانی کے گوشت سے ابتدا کرنا: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ واپس لوٹ کر اپنی قربانی کے گوشت سے کھاتے تھے۔[سنن کبریٰ بیہقی]اس لیے عید الاضحی میں مستحب ہے کہ اولاًہر شخص قربانی کے گوشت سے کھائے، حقہ، پان، چائے وغیرہ کچھ اس سے پہلے نہ کھائے پیے، یہی حضور اکرم ﷺ کا معمول تھا اور یہ حکم اصالۃً اس کے لیے ہے جو قربانی کرے۔ تاہم اگر ابتداء ً کوئی اور شے کھا لی، تب بھی گناہ نہیں ہوگا، صرف خلافِ اولیٰ ہوگا۔ بعض فقہا نے تبعاً اس حکم میں اس شخص کو بھی داخل کیا ہے، جو قربانی نہیں کرسکتا۔ [دیکھیے فتاویٰ محمودیہ جدید]
٭ممکن ہو تو قربانی عید گاہ میں کرے:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نحر یا ذبح عیدگاہ میں کرتے تھے۔ ‏‏[بخاری]
[مضمون نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر ہیں]

 

Comments are closed.