بارش اللہ تعالیٰ کےوجود کی نشانی ہے

خطاب جمعہ 15/7/22
الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين
اللم صل علي محمد وعلي
آلہ وصحابتہ اجمعین ،
اما بعد !
فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمان الرحيم
یقول اللہ عز وجل فی کتابہ
وَهُوَ ٱلَّذِیۤ ينزل الغيث من بعد ما قنطوا ،وينشر رحمته وهو الولي الحميد ،/ سورة الشورى /28
معزز سامعین کرام
بارش اللہ تعالیٰ کی عظیم ، رحمتوں ونعمتوں میں سے ایک ہے، جس رحمت ونعمت سے روۓ زمین پر بسنے والی ساری انسانی برادری اور تمام حیوانات ،ونباتات ،یکساں طور پر فیضیاب ہورہے ہیں، اگر کبھی اس کا سلسلہ تھم جاتاہے ،تو انسانوں سے لے کر تمام حیوانات اور نباتات سب کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے ،بارش اور پانی کے بغیر زندگی کی بقا کا تصور ممکن نہیں ہے، اسی کو اللہ نے بڑےطاقتور انداز میں یوں بیان کیا ہے ،وجعلنا من الماء كل شىء حى ،ہر جاندار کی زندگی کا سر چشمہ پانی ہے،
میرے بھائیو
اگرچہ اس روئے زمین پر ہر جگہ بارش ہوتی ہے ۔ لیکن اس کی مقدار اور موسم اور مزاج الگ الگ ہوتے ہیں۔ قدرت کا عظیم مظہر بار ش انسانوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے کہ وہ طے کریں کہ کس قدر ،اور کتنی ، اور کہاں کہاں بارش ہونی ہے۔ بھلا کون سائنس داں اور علم جدید کا ماہر ہے جو یہ طے کر سکے کہ بارش کہاں اور کتنی برسانی ہے ، ٹکنالوجی اور ایجادات کی دنیا میں ہزاروں ترقیات اور پروازوں کے باوجود اس مشت خاک کے بس میں نہیں ہے کہ وہ بادلوں کو نچوڑ کر ایک بوند بھی زمین پر ٹپکا سکے ،
اس کائنات کا مالک اللہ رب العزت ہے ۔ بارش کی مقدار وہی طے کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَأَنزَلۡنَا مِنَ ٱلسَّمَاۤءِ مَاۤءَۢ بِقَدَرࣲ فَأَسۡكَنَّـٰهُ فِی ٱلۡأَرۡضِۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابِۭ بِهِۦ لَقَـٰدِرُونَ ،
اور آسمان سے ہم نے ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور ہم نے اس کو زمین میں ٹھرِا دیا ، ہم اس کو مٹانے پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں ،
القرآن – سورۃ 23 – المؤمنون – آیت 18
یہاں اللہ رب اللعالمین نے بارش کے پس منظر میں جن پہلؤوں کا اظہار کیا ہے وہ قابل غور ہے ،پھلی بات تو یہ کہ میرے علاوہ کسی میں قدرت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ پانی برسا سکے ،دوسری بات یہ کہ اس کی مقدار کتنی ہوگی یہ میرے سوا کوئ نہیں جانتا ، تیسری بات یہ کہ آسمان سے پانی برسانے کے بعد زمین کی تہوں اور گہرائیوں میں اسٹور کرنے والے بھی ہم ہی ہیں ، زمین کی گہرائیوں میں موجود یہی پانی ذخیرہ ہماری روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ، اسی پانی کے ذخیرے کی بنیاد پر ہر گھر میں نل اور موٹر کے ذریعے پانی دستیاب ہوتا ہے ،اسی ذخیرے کے ذریعے کھیتیاں سیراب کی جاتی ہیں ،اور جب بارش نہ ہونے کی وجہ سے اس ذخیرے میں کمی آتی ہے تو پانی انتہائ گہرائی میں اتر جاتا ہے جس کو ہم روز مرہ کی زبان میں کہتے ہیں کہ واٹر لیول بہت نیچے پہنچ گیا ہے ، نل ،اور بورنگیں پانی دینا بند کردیتی ہیں ، ایسے وقت میں انسان کی بیچارگی قابل دید ہوتی ہے ،اسی بنیاد پر اللہ کا یہ دعویٰ کہ بارش کے پانی کو ہم ہی زمین میں محفوظ کرکے رکھنے والے ہیں تاکہ اے انسانوں وہ تمھارے کام آسکے بڑا بامعنی اور ھدایت کی راہ کو کھولنے والا ہے،اے کاش انسان اللہ کے اس احسان کو سمجھ جاۓ، ،چوتھی بات یہ کہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ آسمان سے زمین پر اترنے والے ایک ایک قطرے کو مٹادیں ، یہ تمام حقائق اللہ اپنے بندوں کے سامنے اس لۓ بیان کر رہا کہ تم اپنے اوپر میرے کروڑوں احسانات میں سے اس ایک بڑے احسان کو یاد کرکے میری عظمت ،میری ربوبیت، میری مالکیت ،میری خالقیت،کو تسلیم کر کے صرف میرے فرماں بردار بن کر رہو، میری حاکمیت ،اور مالکیت میں کسی کو شریک مت ٹھہراؤ ، بارش کے نزول میں کسی کی عدم شرکت اللہ کی وحدانیت کی عظیم ترین دلیل ہے،
بارش کیا ہے:
میرے بھائیو !
سورج کی گرمی سے زمین کے آبی ذخائر فضا میں بخارات بن جاتے ہںں۔ بخارات باہم مل کر بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، اور اللہ نے اپنے علم کے مطابق ان کے لۓ جو مناسب اور سازگار حالات طے کۓ ہیں ان میں وہ زمین پر پانی کی شکل میں گرتے ہیں، یہ عمل بارش کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ عمل خود بخود انجام نہیں پاتا بلکہ اس کے پچھےَ ایک مالک ، ایک خالق اللہ کا ہاتھ ہے۔قرآن پاک نے متعدد مقامات پر بارش اور اس کے مزاج کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ کہتا ہے وهو الذى ينزل الغيث من بعدما قنطوا وينشر رحمته وهو الولى الحميد : جب بارش کے تعلق سے انسانوں پر مایوسی کے بادل چھاجاتے ہیں ،زندگی کی بقا کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں تو پھر آسمانوں کا جگر چیر کر اللہ کی حیات بخش رحمت کی برکھا برستی ہے ،اداس اور مایوس چہرے کھل اٹھتے ہیں ،بوند بوند کو ترسی ہوئ ،خشک پڑی زمین سبزہ زاروں سے جھوم اٹھتی ہے،
ایک دوسری آیت میں اللہ اپنی عظیم قدرت کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزۡجِىۡ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيۡنَهٗ ثُمَّ يَجۡعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الۡوَدۡقَ يَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِهٖۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِيۡهَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَيُـصِيۡبُ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ وَ يَصۡرِفُهٗ عَنۡ مَّنۡ يَّشَآءُ ؕ يَكَادُ سَنَا بَرۡقِهٖ يَذۡهَبُ بِالۡاَبۡصَارِؕ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے، اُن پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے، پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اُس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔القرآن – سورۃ 24 – النور – آیت 43
میرے ایمانی بھائیو !
نظام بارش کا یہ خدائ منصوبہ کتنا حیرت انگیز ہے کہ سمندر کا نمکین پانی جو زمین سے بخارات بن کر آسمان کی طرف جاتا ہے جب بارش بن کر زمین پر گرتا ہے تو تازے اورمیٹھے پانی میں بدل جاتا ہے، نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے والا کون ہے ، کیا وہی اللہ نہیں ہے جو ہمارا خالق اور مالک ہے پھر ہم اس کو چھوڑ کر کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں
بارش بہت سے دوسرے قدرتی مظاہر کی طرح کیا ایسی چیز نہیں ہے جو اس کائنات میں ایک غیر مادی قوت کی موجودگی کا احساس کراتی ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کی اس عظیم قدرت کو انسان کو پہچاننا نہیں چاہیے۔۔۔۔ساتھ ہی اس کے حقوق اداکرنے اور اس کی شکرگزاری کرنے کا انسان پابند ہے۔
بارش مختلف شکلوں میں :
بارش کے کئ پہلو ہیں یہ بارش اللہ کی رحمت بھی ہوسکتی ہے ،اور آزمائش اور عذاب بھی ۔ قرآن میں ہم تقریباً تیس سورتوں میں بارش کے حوالے دیکھ سکتے ہیں۔
1) رحمت والی بارش
وَهُوَ ٱلَّذِیۤ أَرۡسَلَ ٱلرِّیَـٰحَ بُشۡرَۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِهِۦۚ وَأَنزَلۡنَا مِنَ ٱلسَّمَاۤءِ مَاۤءࣰ طَهُورࣰا
اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے۔القرآن – سورۃ 25 – الفرقان – آیت 48
اگر یہ دونوں نعمتیں ہوا اور پانی نہ ہوں تو انسان اس دھرتی پر کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔دونوں کی عدم دستیابی سے زندگی جس بحران سے دوچار ہوتی ہے آے دن اس کے مناظر ہماری آنکھوں کےسامنے گذرتے ہیں ،ابھی
کرونا کے دوران ہم نے بخوبی اس کا اندازہ لگایا ..جب بارشیں نہیں ہوتیں تو ملک خشک سالی کا شکارہوجاتا ہے۔ انسان اور جانور پانی کی کمی سے مرنے لگتے ہیں۔
اسلام نے خشک سالی سے نجات کے لیے دعائیں اور نمازیں سکھائیں۔ رحمت والی بارش کے لیے اجتماعی طور پر دعائیں کرنا حضوراکرمﷺ کی سنت رہی ہے۔ جب بارش کی رحمت برسے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا کہ مومن کو یوں کہنا چاہیے۔
"مطرنا بفضل الله ورحمته”
اللہ کی عنایت اور اس کی رحمت کے طفیل ہم کو بارش کی یہ نعمت عطاکی گئ ہے
اسی سے متعلق ایک اور قول نبوی قابلِ غور ہے۔
فعن زيد بن خالد الجهني -رضي الله عنه- أنه قال: صلى لنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صلاة الصبح بالحديبية على إثر سماء كانت من الليلة، فلما انصرف أقبل على الناس فقال: "هل تدرون ماذا قال ربكم؟” قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: "قال: أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فأما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته، فذلك مؤمن بي وكافر بالكوكب، وأما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي ومؤمن بالكوكب”(متفق عليه).
سعید بن خالد الجھنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا معلوم ہےکہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے۔ اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ میرے اوپر ایمان لانے والا ہے، اور ستاروں کا منکر ، اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلاں جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں کا مومن۔
یعنی بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سواء کسی کو قدرت نہیں کہ وہ بارش برسا سکے۔ اور ناہی بارش کے برسنے میں کسی طرح کا کسی اور کا کوئی رول اور شرکت ہے۔ مذکورہ حدیث رسول سے کتنی اہم بات معلوم ہوئی کہ اگر کوئ بارش میں ستاروں کا دخل مان لے تو وہ اس فہرست میں شامل ہوجاۓ گا جو اللہ کو نا ماننے والوں کی فہرست ہے ، اللہ ذرہ برابر اپنی ذات وصفات میں کسی غیر کی شرکت کو برداشت کرنے کے لۓ تیار نہیں ،مگر ہم سادگی اور بے علمی کی وجہ سے کبھی کبھی شرک جیسی گندی چیز کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ،اس سے ہم کو بچنا چاھۓ،
میرے بھائیو
بارش پر لعنت بھیجنے یا برابھلاکہنے کی ذلیل حرکت ہم ہرگز نہ کریں ،اس سلسلے میں ہم اپنے پیارے رسول کی یہ حدیث سامنے رکھیں۔
"، عن عائشة -رضي الله عنها أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان إذا رأى المطر قال: اللهم صيِّبا نافعًا (رواه البخاري).
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش کو دیکھتے تو یہ دعا کرتے ، اے اللہ اس کو نفع بخش بارش بنا دے۔ دوسری حدیث میں (صيبا هنيئا ) صحت وفرحت بخش بارش ،ہمارے نبی نے ہم کو یہ سکھایا ہے ،کیا ہم کو اپنے نبی کا سکھایا ہوا سبق یاد ہے ،اور ہم میں سے کتنے لوگوں کو دعا کے یہ الفاظ جو نبی نے اپنی پاکیزہ زبان سے ادا کیا ہے یاد ہے ،کیا یاد نہیں ہونا چاھۓ ؟
2) آزمائش والی بارش
اس طرح کی بارش سے اسلام نے پناہ مانگنے کی ترغیب دی ہے۔
إذا كثر المطر وخيف ضرره أن يقال: "اللهم حوالينا ولا علينا، اللهم على الآكام والظراب، وبطون الأودية، ومنابت الشجر”(متفق عليه)
جب بارش خطرناک شکل اختیار کرلے تو اس طرح سے دعا کریں:
اے اللہ تو اس بارش کو ہمارے اطراف میں پیڑ پودوں، ٹیلوں ، اور درختوں کی جڑوں ،اور پہاڑوں کی وادیوں میں نازل فرما ،ہم پر نا نازل فرما ،
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ تمام آفات، جیسا کہ لینڈ سلائیڈنگ (زمین پہاڑوں کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا) ، سیلاب اور ژالہ باری، بہت سے لوگوں کے مال اور جانوں کو تباہ کر دیتے ہیں ،جیسا کہ ابھی ہمارے ملک کے بعض صوبوں میں کثرت بارش اور سیلابی کیفیت کی وجہ سے کروڑوں لوگ متأثر ہیں ، ہر سال اللہ کی طرف سے یہ آزمائش ہوتی ہے ،یہ آزمائش کسی کے درمیان بھید بھاؤ نہیں کرتی ،سب زد میں آتے ہیں ،ہم کو اپنے نبی کے اسوہ کو اختیار کرکے ایسی آزمائشی بارش سے پناہ مانگنے چاہے ،
۔
ہمیں بیماری سے بچنے کے لیے بھی احتیاطی تدابیر اختیار اور کوششیں کرنے کی ضرورت بھی درپیش ہے۔
3) عذاب والی بارش
معزز سامعین کرام !
آسمان سے نازل ہونے والا پانی کبھی زندگی عطا کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے ،اور کبھی یہی پانی زندگی چھین لیتا ہے ،بڑے بڑے شہروں کو تخت وتاراج کر کے نام ونشاں مٹا دیتا ہے ،انسانی تاریخ میں اس طرح کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ قرآن نے کچھ گذشتہ قوموں کے واقعات بیان کۓ ہیں جن کو ان کی سرکشی اور اللہ کے نظام وقانون کو توڑنے کی وجہ سے تہس نہس کردیا جیسا کہ قرآن میں قوم نوح کا تفصیلی ذکر موجود ،اسی طرح کبھی اللہ نے آسمان سے پتھروں کی بارش کے ذریعے تباہ کیا جیسا کہ قوم لوط کے بارے میں اللہ کہ رہا ہے
فَلَمَّا جَاۤءَ أَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَـٰلِیَهَا سَافِلَهَا وَأَمۡطَرۡنَا عَلَیۡهَا حِجَارَةࣰ مِّن سِجِّیلࣲ مَّنضُودࣲ)
پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اس شہر (سدوم) کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے-القرآن – سورۃ 11 – هود – آیت 82
اسی طرح قوم فرعون کے تعلق سے اللہ نے قرآن میں یہ بیان کیا
آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، جوییں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خو ن برسایا یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سر کشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔القرآن – سورۃ 7 – الأعراف –
قرآن میں جو واقعات مذکور ہیں ،وہ اپنی صداقت کے اعتبار سے سرمایہ عبرت ہیں ،ہزاروں ،لاکھوں تاریخی واقعات بھی موجود ہیں جو اس بات کو بتانے کے لۓ کافی ہیں کہ کس طرح اللہ پانی کے لشکر کو اپنے نافرمانوں کے خلاف استعمال کرتا ہے ،ماضی قریب میں سونامی کی لہروں نے کتنی انسانی جانوں کو نگل لیا اور آبادیوں کو ویرانوں میں تبدیل کر دیا،
..
زندگی کو با مقصد بنائیں:
سامعین کرام !
قرآن بارش کو زندگی، موت، تخلیق نو، دنیاوی لذتوں، ہدایت، خیر وغیرہ کی معنی خیز تمثیلوں کے طور پر پیش کرتا ہے۔
انسان کا سب سے مقدس اور برتر مقصد اخروی کامیابی حاصل کرنے اور یقین وایمان کو مستحکم بنائے رکھنے کے لیے قرآن پاک نے بارش کا تذکرہ کیا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ مردوں کا جی اٹھنا مردہ زمین پر بارش برسانے اور اسے ثمر آور بنانے کے مثل عمل ہے۔
وَٱللَّهُ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَاۤءِ مَاۤءࣰ فَأَحۡیَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَاۤۚ إِنَّ فِی ذَ ٰلِكَ لَـَٔایَةࣰ لِّقَوۡمࣲ یَسۡمَعُونَ
(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو کہ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکا یک مردہ پڑی ہوئی زمین میں اُس کی بدولت جان ڈال دی یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے-القرآن – سورۃ 16 – النحل – آیت 65
اللہ تعالیٰ ہمیں جو بارش عطا کرتا ہے اس کے معجزاتی مظہروں پر تدبر و تفکر کریں اورآخرت کی فکر کرتے ہوئے ایک کامباب زندگی کی طرف قدم بڑھائیں۔
جس طرح بارش زمین میں نباتات کی مختلف شکلوں میں نئی زندگی کی لہر دوڑاتی ہے، اور مردہ زمین کو زندہ کرتی ہے، خدا کرے کہ ہر بارش کا موسم ہمارے جسم اور روح میں نئی زندگی لائے اور ہمارے مردہ و بے حس وحرکت عمل میں جان ڈال دے
ملک کے موجودہ حالات ہم سے چیخ چیخ کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم نۓ عزم ،نئ زندگی ،نئ سوچ، سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مکمل رہنما مان کر پوری ہمت کے ساتھ کھڑے ہوں ، بارش آزمائش ہے ،اس آزمائش سے نکلنے کی دعا سید انسانیت نے سکھائ ہے ،موجودہ آزمائش سے بھی ہم نکل سکتے ہیں بشرطیکہ ہم نبوی نسخۂ استعمال کرنے کی طرف قدم بڑھائیں ،
اللہ ہمارا ناصر وحامی ہو
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
وآخردعوانا ان الحمد للہ رب اللعالمین
Comments are closed.