ماہ محرم الحرام اور یوم عاشورا

از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
(ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی)
محرم الحرام کا مہینہ نہایت عظمت و تقدس کا حامل ہے۔ اس ماہ میں حق تعالیٰ کی تجلیات رحمت اور اس کی خصوصی توجہات کا نزول ہوتا ہے۔ چار وجودہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے (۱) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تھا کہ ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت)کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔ (ترمذی 157، ج:1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔(ص:157، ج:1) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے تو اس کو ہر دن کے روزہ کے عوض تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ (الترغیب و الترہیب ص:114۔ ج:2) دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ماہ ’’شہر اللہ‘‘ کہلاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ ماہ اشہر حرم یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہے۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ’’ماہ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کی ابتدا ہوتی ہے، اس لئے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہئے اور اللہ جل شانہٗ سے یہ توقع رکھنی چاہئے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔ (احیاء العلوم ص:401۔ ج:1) اگلی امتوں میں بھی اس ماہ اور خصوصاً زمانۂ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بھی یہ دن بڑا محترم تھا۔ اسی دن خانۂ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا لیکن جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی۔ لیکن اس کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ رمضان کے فرض روزہ کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے بعد تمام روزوں سے افضل ماہ محرم کے روزے رکھنا ہے۔ (مسلم ص:361۔ ج:1) حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے امید ہے کہ ایک عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنا گزشتہ ایک سال کے تمام صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ ص:125، مسلم ص:367۔ ج:1) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے دن روزہ رکھتے تھے اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ (ابن ماجہ ص:125) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا یہ کون سا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو۔ انہوں نے کہا یہ بڑا دن ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی۔ فرعون اور اس کی قوم کو غرق آب کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکریہ اس دن روزہ رکھا۔ اس لئے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم تو زیادہ حقدار ہیں اور قریب ہیں موسیٰ علیہ السلام کے تم سے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا۔ (مسلم ص:359، ابن ماجہ ص:125) لیکن یہ یاد رہے کہ باطن ہمیشہ اپنے ظاہر سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے اسلام نے کفار کی ظاہری بود و باش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حکم کے تحت چونکہ عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کی مشابہت سے خالی نہ تھا۔ ادھر اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا باعث ہوتا، اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور علمائے اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ ایک دن کا روزہ اس کے ساتھ ملا لو۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء میں روزہ رکھنا اپنا معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض اصحاب نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور خاص دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک و تشابہ نہ ہوجائے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انشاء اللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ (مسلم شریف ص: 359۔ ج:1) شریعت اسلامیہ نے عاشوراء کے دن کے لئے یہ تعلیم دی ہے کہ اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے میں فراخی اور وسعت کرنا اچھا ہے۔ اس عمل کے ذریعہ تمام سال فراخی رزق کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ چونکہ اس روز رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ اس لئے مسلمان اس دن جس حالت میں اپنے آپ کو حق تعالیٰ کے سامنے پیش کریں گے۔ حق تعالیٰ بھی ان کے ساتھ تمام سال وہی معاملہ فرماتے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من اوسع علیٰ عیالہ و اہلہ یوم عاشوراء اوسع اللہ علیہ سائر سنۃ (رواہ البیہقی، الترغیب و الترہیب ص:115۔ ض:2) یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔
یوم عاشوراء بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل ہے۔ عاشوراء کی عظمت و بڑائی کا اندازہ ان تاریخی واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ (۱) عاشوراء کے دن ہی آسمان و زمین، قلم اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔ (۲) اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ (۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے۔ (۴)اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی تباہ کن اور ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئی۔ (۵)اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ کا لقب ملا اور ان پر آگ گل گلزار ہوئی۔ (۶)اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ (۷)اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔ (۸)اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ (۹)اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و استبداد سے نجات حاصل ہوئی۔ (۱۰) اسی دن موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔(۱۱)اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت ملی۔ (۱۲)اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی (۱۳)اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔ (۱۴)اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔ (۱۵)اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ (۱۶)اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلا کر آسمان پر اٹھایا گیا۔ (۱۷)اسی دن دنیا میں پہلی مرتبہ باران رحمت نازل ہوئی۔ (۱۸)اسی دن قریش خانۂ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔ (۱۹)اسی دن ۱ ۶ ھ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو سجدہ کی حالت میں کوفی فریب کاروں نے کربلا کے میدان میں شہید کیا۔ (۲۰) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی (نزہت المجالس ص:347۔ ج:1)
محرم الحرام کے رسوم و بدعات:
(۱)ماتم کی مجلس اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت کرنا۔ (۲)دسویں محرم کی چھٹی کرنا۔ (۳)ایصال ثواب کے لئے کھانا پکانا۔ (۴)خاص عاشوراء کے دن پانی یا شربت کی سبیل لگانا۔ لوگوں کے لئے پانی کا انتظام کرنے کے واسطے راستوں پر سبیل لگانا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن اس ثواب کے کام کو صرف محرم کے مہینے (وہ بھی فقط اول دس دنوں) کے ساتھ خاص کرنا اور اس مہینے کے اندر سبیل لگانے کو زیادہ اجر و ثواب کا موجب سمجھنا بدعت اور ناجائز ہے۔ (فتاویٰ عثمانی ص:139۔ ج:1)
(۵)مٹھائی تقسیم کرنا۔ (۶)اس ماہ کو منحوس سمجھتے ہوئے اس ماہ میں نکاح نہ کرنا۔ (۷)دسویں محرم کو کھچھڑا پکانا۔ بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا پکاتے ہیں، یہ بالکل ناجائز اور سخت گناہ ہے۔ کیوں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف اناج ملا کر پکاتے تھے۔ فکانو الیٰ یوم عاشوراء یطبخون الحبوب۔ (البدایہ والنہایہ ص:202، ج:5998 بیروتی) اس سے معلوم ہوا کہ اس دن کھچڑا بنانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے دشمنی رکھنے والوں کی ایجاد کردہ رسم ہے۔ اہل بیت سے الفت و محبت رکھنے والوں کو اس رسم بد سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ (خیر الفتاویٰ ص:558۔ ج:1)
ایام محرم میں ماتم کرنا:
ایام محرم میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسم ماتم سخت مکروہ اور ممنوع ہے۔ قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’یعنی اور اگر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن یوم مصیبت و ماتم کے طور پر منایا جائے، یوم دوشنبہ ( پیر کا دن) اس غم و اندوہ کے لیے زیادہ سزاوار ہے کیوں کہ اس دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی ہے اور اسی دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی وفات پائی ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص: 38، ج:2) علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خبر دار ہوشیار! عاشوراء کے دن روافض کی بدعتوں میں مبتلا نہ ہوجانا، مانند مرثیہ خوانی، آہ و بکاء اور الم کے، اس لئے کہ یہ خرافات مسلمانوں کے شایان شان نہیں۔ اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو اس کا زیادہ مستحق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہوسکتا تھا۔ (صواعق محرقہ: 109 و شرح سفر السعادہ : 543)
ماہ محرم کے پورے مہینے کو ہی خصوصی عظمت و فضیلت حاصل ہے، لیکن یوم عاشوراء کو خاص فضیلت و اہمیت حاصل ہے لہٰذا یوم عاشوراء کی فضیلت و اہمیت کو سمجھتے ہوئے اور اس کی بدعات و خرافات سے بچتے ہوئے ماہ محرم کے پورے دنوں کی اللہ قدردانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
E-mail:- [email protected].
Mob:- 9826268925
Comments are closed.