کہانی؛ نہرو کے نیشنل ہیرالڈ کی۔ تحریر: حمزہ شعیب

بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے 9 ستمبر 1938 کو لکھنؤ سے National Herald نامی اخبار کا آغاز کیا جس کی اشاعت کا ذمہ اے. جے. ایل (Associated journal Limited ) کمپنی کے سر تھا، پنڈت نہرو نے یہ کمپنی اپنے 5000 freedom fighter دوستوں کے ساتھ مل کر 20 نومبر 1937 کو indian company act _1913 کے تحت رجسٹرڈ کروایا تھا. آزادی کی تحریک کو مؤثر بنانے کے لیے کمپنی نے انگریزی کے علاوہ اُردو اور ہندی زبان میں بھی "قومی آواز” اور "नवजीवन ” نام سے اخبار جاری کیا، اِن تینوں میں National Herald نے جلد ہی کافی مقبولیت حاصل کر لی اور برطانوی حکومت کی ہر موڑ پر جم کر مخالفت کی، فرنگیوں کے خلاف اخبار کا تیور اتنا سخت ہو گیا کہ حکومت نے جھنجھلا کر 1942 میں اخبار پہ پابندی لگا دی جب تک یہ اخبار شمالی ہند میں تحریک آزادی کی سب سے مؤثر اور مضبوط آواز بن چکا تھا، 1945 میں پابندی ختم ہونے کے بعد اخبار نے دوبارہ تیز گامی سے اپنا سفر آگے بڑھایا لیکن جلد ہی 1946 میں اخبار کے اولین ایڈیٹر K. Rama Rao اپنی 8 سالہ خدمات انجام دے کر مستغفی ہو گئے اور معروف صحافی Manikonda Chalapathi Rao کو بطور ایڈیٹر مقرر کر لیا گیا جو 1978 تک اخبار کی ادارت سنبھالتے رہے۔

15 اگست 1947 میں دیس آزاد ہونے کے بعد پنڈت نہرو کو چیئرمین کے عہدے سے استعفا دینا پڑا؛ کیونکہ دیس ابھی ابھی انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا تھا اور اس کے اندرونی و خارجی مسائل بے شمار تھے؛ لہذا وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعد وہ اپنی پوری توانائی ملکی مسائل کے حل کرنے میں صرف کرنے لگے اور اخبار کی ذمہ داری فیروز گاندھی، مردلا (سارا بائی) اور رگھونندن جی کو سونپ دیے لیکن آزادی کے بعد کمپنی آئے دن گھاٹے کا شکار ہوتی گئی جس کا واضح اثر اخبار پہ بھی پڑا اس کی سب سے بڑی وجہ پنڈت نہرو کا ملکی معاملات میں مصروفیت کی وجہ سے اخبار کے لیے خاطر خواہ وقت نہ نکال پانا تھا جبکہ National Herald پنڈت جواہر لال نہرو کے سپنوں کا حصہ تھا، انھیں اس اخبار سے جذباتی لگاؤ (emotional attachment) تھا، وہ برسوں تک اسی اخبار میں لکھتے رہے، دوسرے اخبار یہیں سے ان کے آرٹیکلز چھاپتے تھے. چیلپتی راؤ بیان کرتے ہیں کہ "نہرو دھواں دھار لکھتے تھے، وہ کبھی کبھی اخبار کے لکھنؤ دفتر پہنچ کر ملازمین کے ساتھ کھانا بھی تناول فرمالیتے تھے حتی کہ اپنی تقریروں کی رپورٹ بھی خود ہی لکھ لیا کرتے تھے” راؤ نے آگے یہ بھی لکھا ہے کہ اخبار جب مالی بحران کا شکار تھا اور ملازمین کی تنخواہ نصف کرنی پڑی تھی ایسے وقت میں کسی نے ایک کروڑ روپے Donate کرنے کی پیشکش کی جس سے کچھ سالوں تک اخبار کی ضرورت پوری ہو سکتی تھی لیکن پنڈت نہرو نے یہ کہہ کر نکار دیا کہ:”پونجی پَتِیوں سے پیسے لے کر ہمیں پترکارِتا نہیں کرنی” وہیں نہرو کا عزم و ہمت یہ بھی کہتا تھا کہ نیشنل ہیرالڈ کبھی بند نہیں ہونے دوں گا اس کے لیے چاہے مجھے اپنا ‘آنند ہاؤس’ ہی کیوں نہ بیچنا پڑے. اس اخبار کو لے کر نہرو کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے صحافت کے وقار کو ہمیشہ بحال رکھنے کی کوشش کی، کبھی کسی کالم نگار یا مدیر کو مجبور نہ کیا، راؤ جی تو نہرو کے دوست بھی تھے اور کھل کر ان کی تنقید بھی کرتے تھے لیکن نہرو نے کبھی برا نہ مانا بلکہ اخبار کے رَجَت جینتی پروگرام میں آن ریکارڈ کہا تھا کہ:”لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ میرا اخبار ہے؛ یہ دراصل چلپتی راؤ کا اخبار ہے، آج یہ (اخبار) جو کچھ بھی ہے اسے انھوں نے ہی بنایا ہے” لیکن مجاہدینِ آزادی کی اس عظیم وراثت کو کانگریس پارٹی زیادہ دنوں تک صحیح سے نہیں سنبھال پائی، مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ اخبار کانگریس کا ترجمان بنتا چلا گیا اور AJL کمپنی بھی برابر خسارے میں جاتی رہی نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ 1955 میں چندر بھانو گپتا کے ہاتھوں کمپنی کے شیئرز فروخت کرنے کی بات ہونے لگی مگر کچھ لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہ ہو پایا البتہ ایک خوبصورت راہ یہ نکالی گئی کہ اخبار کی توسیع کے نام پر دہلی کے بہادر شاہ ظفر مارگ، ممبئی، لکھنؤ، اندور، بھوپال، پنچ کلا اور پٹنہ جیسی جگہوں پر leasehold اور freehold پر حکومت سے اچھی خاصی زمینیں حاصل کی گئیں جس کی موجودہ DLC قیمت لگ بھگ 200 کروڑ بنتی ہے اور back-door کی اصل قیمت کی بات کی جائے تو اس کی قیمت 500 کروڑ سے زائد ہوتی ہے. اتنی زبردست حکومتی عطیات کے باوجود نویں کی دہائی میں کمپنی پھر سے خستہ حالی کا شکار ہونے لگی اور حالت ایسی ہو گئی کہ 2008 میں AJL کو اخبار بند کرنا پڑا، کانگریسیوں کا یہ ایسا فیصلہ تھا جو صرف کانگریس کے لیے نہیں بلکہ مجاہدین کی وراثت ہونے کے ناطے پورے ہندوستان کے لیے ایک افسوس ناک سانحہ تھا لیکن کسی پہ اِس کا زیادہ اثر نہیں ہوا کیونکہ اخبار کا معیار بالکل گِر چکا تھا، لوگ اسے کانگریس کا ‘مکھیہ پَتْر’ کہنے لگے تھے جبکہ گاندھی جی، سردار پٹیل اور نہرو جیسے لوگوں نے کبھی اسی اخبار کے ذریعے دیس کی آواز بلند کی تھی اور برٹش گورنمنٹ کی قلعی کھولی تھی.
2008 میں اخبار بند ہو جانے کے بعد AJL پراپرٹی کے کام میں لگ گئی یعنی اپنی زمینوں اور عمارتوں کو کرایے پہ لگاکر منافع کمانا شروع کر دیا اور وہیں گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ کمپنی کے شیئر ہولڈرز کی تعداد 5000 سے گھٹ کر 1057 تک پہنچ گئی. یہاں تک تو معاملہ بالکل ٹھیک تھا لیکن نومبر 2010 میں سیکشن 25 کے تحت young india limited نام سے ایک non profit کمپنی رجسٹرڈ ہوتی ہے جس میں 38٪+38٪=76٪ کے حصے دار راہل گاندھی اور سونیا گاندھی اور بقیہ 24٪ کے حصے دار کانگریس لیڈر موتی لال ووہرا اور آسکر فرنانڈیز ہوتے ہیں، پھر دسمبر 2010 میں ہی اچانک یہ خبر آتی ہے کہ AJL کو کانگریس نے اخبار بند ہونے سے بچانے کے لیے 90 کروڑ روپیہ بطور قرضہ دیا ہوا ہے.
قاعدہ تو یہ کہتا ہے کہ AJL اپنے منافع یا اپنے Assets بیچ کر کانگریس کو 90 کروڑ واپس کرتی لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا یعنی 2011 میں راہل-سونیا کی YIL کمپنی کانگریس کے 90 کروڑ روپے کے وصولی کا حق حاصل کرنے کے لیے AJL کو صرف 50 لاکھ روپے ادا کرتی ہے، بدلے میں کانگریس 90 کروڑ کا قرض معاف کر دیتی ہے، نتیجے میں AJL پوری کمپنی YIL کو سونپ دیتی ہے یعنی 5000 ہزار مجاہدینِ آزادی کی AJL نامی کمپنی کے 99٪ شیئرز کی مالک اب اکیلے YIL کمپنی ہو جاتی ہے.
اب تک اِس پورے معاملے پہ گرد جما رہتا ہے کہ اچانک نومبر 2012 میں BJP کے fire brand leader سبرامنیم سوامی پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں اس پورے معاملے کے خلاف PIL داخل کر دیتے ہیں، پھر 26 جون 2014 کو کورٹ ملزمین کے خلاف سَمَن جاری کرتی ہے، 1 اگست 2014 کو ED اس معاملے میں پہلی بار دخل اندازی کرتے ہوئے money laundering کا کیس درج کرتی ہے، 19 دسمبر 2015 کو دہلی پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے ذریعے ملزمین کو ضمانت مل جاتی ہے، 2016 میں کانگریس سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے لیکن انھیں وہاں کوئی راحت نہیں ملتی،1 اکتوبر 2016 کو نیلابھ مشرا AJL digital کے ایڈیٹر منتخب ہوتے ہیں، 14 نومبر 2016 کو National Herald کا انگریزی website لانچ کیا جاتا ہے، اکتوبر 2018 کو دہلی ہائی کورٹ AJL کو Herald house خالی کرنے کا حکم دے دیتی ہے، 4 دسمبر 2018 کو HC کی جانب سے انکم ٹیکس کو جانچ جاری رکھنے کا حکم ملتا ہے پھر 2018 کو ہی مرکزی حکومت National herald کو AJL سے الگ کر دیتی ہے اور 2 جون 2022 کو ED کی طرف سے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو پوچھ تاچھ کے لیے سمن جاری کیا جاتا ہے جس کے بعد (ابھی تک) مسلسل پوچھ تاچھ کا دور جاری ہے۔
اس معاملے کی پوری حقیقت سپریم کورٹ کے آخری فیصلے کے بعد ہی سامنے آئے گی؛ لیکن اس controversy کا ملک کی سیاست پہ بڑا گہرا اثر پڑ رہا ہے بالخصوص کانگریس کے لیے آگے کنواں پیچھے کھائی جیسا معاملہ ہو گیا ہے، راہل گاندھی اسے بھلے حکومت کی اپوزیشن اور گاندھی فیملی کے خلاف سازش کا نام دے (ممکن ہے اس کے اس الزام میں دَم ہو) لیکن وہ إن بنیادی سوالوں سے بھاگ نہیں سکتے کہ نہرو کی وراثت کی بربادی کے اصل مجرم کون ہیں؟ سرکاری پراپرٹی کو سستے داموں میں بیچنے کا اختیار کانگریس کو کس نے دیا؟ کانگریس پارٹی اپنی ہی کمپنی کو لون کیسے دے سکتی ہے؟ یہ تو قانون کی رو سے اور ٹیکنیکلی بالکل غلط ہے اور پھر اپنی ہی کمپنی کا قرضہ چکانے کے لیے راہل گاندھی کو ایک نئی کمپنی کھڑی کرنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ کیا راہل گاندھی پورا ٹھیکرا موتی لال ووہرا (فوت شدہ) کے سر پھوڑ کر بچنا چاہتے ہیں؟ اس کے علاوہ اور بھی کئی سوال ہے جو گاندھی فیملی سے بار بار پوچھے جائیں گے وہیں جذبہ انتقام سے سرشار مرکزی حکومت بھی سوالوں کے گھیرے میں آتی ہے کہ جمہوریت میں سرکاری اداروں کا بیجا استعمال وہ کیسے کر سکتی ہے؟ سرکاری ایجنسیاں ملزمین اور اپوزیشن لیڈروں کے خلاف بے رحیمانہ رویہ اپنا کر اداروں کا وقار کب تک پامال کرتی رہیں گی؟ اصل میں انتقامی سیاست کی ایسی مسموم فضا تیار کر دی گئی ہے کہ سانس لینا بھی محال ہوتا جا رہا ہے۔

[email protected]

Comments are closed.