Baseerat Online News Portal

خود مکتفی امت بننے کی کوشش کریں!(۱)

 

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

جنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں اپنی معنویت کے اعتبار سے جواہر پاروں سے کم نہیں ہیں، جس دعاء کو سنئے اور اس کا مفہوم سمجھئے دل میں تقاضا پیدا ہوتا ہے کہ یہ دعاء ضرور کرنی چاہئے، ان ہی دعاؤں میں ایک یہ ہے:اللھم انی اسئلک الھدی والتقیٰ والعفاف والغنی (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۷۲۱)یعنی اے اللہ! مجھے ہدایت، تقویٰ، کردار کی پاکیزگی اور غنا عطا فرمائیے، غنا سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت میں دوسرے انسان کا محتاج نہ ہو، وہ اپنی محنت سے اپنی روزی روٹی کا انتظام کر لے، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہیں آئے، یہ چاروں باتیں یعنی ہدایت، تقوی، پاکدامنی اور غنا بہت اہم ہیں؛ لیکن اس وقت دعاء کے اس چوتھے ٹکڑے ’’ غنا‘‘ کے بارے میں بات کرنی ہے۔

جیسے انسان کی انفرادی زندگی میں غنا بہت اہم چیز ہے، اس سے انسان کو ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے، وہ عزت ووقار کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے، دوسرے کا محتاج نہیں ہوتا، کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑتا، اسی طرح قومی واجتماعی زندگی میں بھی غنا ایک بڑی نعمت ہے، جو قوم اپنی ضروریات اور اپنے مسائل کے بارے میں خود مکتفی ہوتی ہے، اس کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑتا ہے، وہ اپنی ضرورتیں خود پوری کرتی ہے اور اپنے مسائل خود حل کرتی ہے، وہ ایک باعزت قوم کی طرح دنیا میں زندگی گزارتی ہے، دوسرے لوگ اس کو عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کو موقع نہیں ملتا کہ وہ ان کی تحقیر کریں، ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں تقریبا ایک ہزار سال مسلمانوں کے اقتدار کا سورج چمکتا رہا اور پھر اس کی روشنی کو ایسا گہن لگا کہ اس خطے کی سب سے معزز قوم سب سے زیادہ فقیر اور کمتر سمجھی جانے لگی، کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو ہر میدان میں اتنا پیچھے دھکیل دیا جائے کہ وہ دوسرے برادران وطن کے ساتھ نہ آسکیں، تجارت وکاروبار میں ان کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے، تعلیم وصحت میں وہ دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں، اقتدار کے ایوانوں میں مسلم مُکت یعنی مسلمانوں سے خالی اسمبلی اور پارلیامنٹ کے نعرے لگائے جا رہے ہیں، غرض کہ ہر میدان میں ان کو ایک محتاج اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والی قوم کے درجہ میں لا کر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان حالات میں یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان اجتماعی کوششوں کے ذریعہ مختلف میدانوں میں اپنے آپ کو خود مکتفی بنانے کی کوشش کریں، آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور اپنے آپ کو اس لائق بنائیں کہ دوسروں کا محتاج ہوئے بغیر ایک باعزت قوم کی طرح زندگی گزار سکیں۔

۱۔ دنیوی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ کسی قوم کو متأثر کرتی ہے، وہ اس کی معاشی قوت ہے، کسب معاش کے لئے انسان اتنا بے چین ہو جائے کہ وہ حلال وحرام اور جائز وناجائز کی تمیز بھی اٹھادے، یہ طریقۂ زندگی غیر اسلامی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی؛ لیکن اخلاقی حدود کی رعایت کے ساتھ کسب معاش کی کوششیں اور اس میں مسابقت بری بات نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ضروری عمل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مسلمانوں کو اس پر متوجہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تجارت کی، ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے کے پاس سرمایہ کاری کی، مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد مسلمانوں کی ایک مارکیٹ قائم کی، مہاجرین عام طور پر تجارت کرتے تھے اور انصار زراعت کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی معاشی جدوجہد کی اصلاح فرمائی، تجارت کی فضیلت بیان فرمائی ، زراعت کی حوصلہ افزائی کی، اس زمانہ میں چھوٹی موٹی صنعتیں تھیں، جو زیادہ تر دستکاری کے قبیل سے تھیں، ان کی بھی فضیلت بیان کی، یہاں تک کہ خواتین بھی مارکیٹ میں تجارت کرتی تھیں، بعض عورتیں گھوم گھوم کر عطر وغیرہ فروخت کرتی تھیں، بعض کی آمدنی دستی مصنوعات سے ہوتی تھی؛ لیکن ان کے شوہر کا کوئی خاص کاروبار نہیں تھا، اس وجہ سے ان کی آمدنی خانہ داری میں خرچ ہو جاتی تھی، ان کو زیادہ صدقہ کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا، انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ ہم جو اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کرتے ہیں، کیا اس میں ہمارے لئے ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک! اس میں بھی اجر ہے، مویشی پالن، باغبانی وغیرہ کے کام مرد بھی کرتے تھے، عورتیں بھی کرتی تھیں، غرض کہ اس زمانہ میں معاش کے جو جائز ذرائع تھے، ان تمام کی آپ نے حوصلہ افزائی فرمائی اور مردوں کو ہی نہیں، خواتین کو بھی ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔

اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مدینہ منورہ میں انصار عمومی طور پر کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ تھے اور زیادہ تر یہودی ساہوکاروں کے مقروض رہتے تھے، مگر بہت جلد ان کی معاشی حالت یہودیوں کے برابر ہو گئی، اور بعض تو وہ تھے، جن کا شمار مدینہ کے مالدار ترین لوگوں میں ہونے لگا، اہم بات یہ ہے کہ مکہ سے جو مہاجرین آئے تھے، ان کے پاس کچھ نہیں تھا، ایک طرح سے انصار کی مدد پر ان کی زندگی کا انحصار تھا؛ لیکن بہت جلد محنت کر کے وہ مدینہ کے صاحب ثروت گروہ بن گئے، ان کی معاشی حالت انصار سے بھی بہتر ہوگئی، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر بعض مہاجر صحابہ مدینہ کے مالدار ترین لوگ تھے، وہ مال کے پرستار نہیں تھے؛ لیکن مالدار تھے، وہ دولت کے حریص نہیں تھے؛ لیکن دولت مند تھے۔

اس وقت وطن عزیز کی صورت حال یہ ہے کہ یہاں روزگار کے مواقع گھٹتے جا رہے ہیں، نوجوان تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں؛ لیکن یہ تعلیم ان کے روزگار کا مسئلہ حل کرنے سے قاصر ہے، یہ حال تو عام شہریوں کا ہے، مسلمانوں کے ساتھ چوں کہ تعصب، جانبداری اور نفرت کا بھی برتاؤ کیا جاتا ہے؛ اس لئے مسلمانوں کا تناسب سرکاری ملازمتوں میں بہت گِرا ہوا ہے اور گِرتا ہی جا رہا ہے، ان حالات میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود مکتفی بنانے کی کوشش کریں، چھوٹی بڑی تجارتوں کی طرف توجہ دیں، جو کم تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان ہیں، وہ ہنر کی تعلیم حاصل کریں، فنی کورسوں کی طرف خصوصی توجہ کریں،آج کل خواتین کے لئے بھی بہت سے ووکیشنل کورسیز چلائے جاتے ہیں، ان کو بھی ان کی صلاحیت کے لحاظ سے کام کا موقع دیں، بڑی صنعتوں میں مقابلہ بھی سخت ہے، رکاوٹیں بھی ڈھیر ساری ہیں اور نفرت وتعصب تو اس کے علاوہ ہے ہی؛ اس لئے چھوٹی صنعتوں کی طرف توجہ کریں، جہاں جہاں مسلمانوں نے چھوٹی صنعتوں کی طرف توجہ کیا ہے، وہاں ان کی حالت نسبتاََ بہتر ہے اور اس مال کی کھپت زیادہ ہے؛ اس لئے اس پر پوری توجہ ہونی چاہئے، اس کے ذریعہ ہم اپنے ااپ کو معاشی اعتبار سے خود مکتفی بنا سکتے ہیں، اور اس کی برکت سے زندگی کے مختلف میدانوں میں ترقی کا سفر طے کر سکتے ہیں، یہ بھی ضروری ہے کہ کسی پیشہ کو حقیر نہ سمجھا جائے، بھیک مانگنا حقارت کی بات ہے، ناجائز طریقہ پر مال ہڑپ لینا شرم کی بات ہے، محنت مزدوری کر کے اپنی ضروریات پوری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ یہ عزت وخودداری ہے؛ مگر افسوس کہ گداگروں میں سب سے بڑی تعداد مسلمانوں کی ہوتی ہے۔

۲۔ موجودہ دور میں زندگی کے مسائل ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں، معاشی اعتبار سے بھی ہر شخص کی ضرورت ایک دوسرے سے وابستہ ہے، مزدوروں کو سرمایہ دار کی ضرورت ہے؛ تاکہ ان کو کام ملے، سرمایہ داروں کو مزدوروں کی ضرورت ہے، ہر شعبۂ زندگی میں پیسوں کی فراہمی کے لئے اجتماعی ادارہ کی یا بینک کی حاجت ہے؛ تاکہ لوگوں کا زائد سرمایہ یہاں جمع ہو جائے، اور کاروبار کی ترقی کے لئے جہاں سرمایہ کی ضرورت ہے، وہاں سرمایہ پہنچایا جائے، ہمارے ملک کا بینکنگ نظام سود پر مبنی ہے، وہ لوگوں کو سودی قرض دیتا ہے اور اپنے کھاتہ داروں کو سود ادا کرتا ہے، یعنی ایک طرف سے سود لیتا ہے اور دوسری طرف سود دیتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ صورت شرعاََ جائز نہیں ہے؛ لیکن تجارت کو ترقی دینے اور صنعت کو آگے بڑھانے کے لئے ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے، جو لوگوں کو سرمایہ فراہم کر سکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ قرض کے لین دین کے لئے غیر سودی ادارے قائم کئے جائیں، جو لوگوں کو معاشی مقاصد کے لئے چھوٹا قرض دے، جیسے دس ہزار سے پچیس ہزار تک، اور پھر اس کے استعمال کی نگرانی کرے کہ جس مقصد کے لئے قرض لیا گیا، یہ رقم اسی مصرف میں استعمال ہو رہی ہے یا نہیں؟ اس طرح چھوٹے چھوٹے تاجروں کو اور ہنر مندوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے، جو سرمایہ دار مسلمان ہیں، ان کی بہت بڑی رقم بینکوں میں محفوظ ہے، لوگ اپنی رقم کسی کو قرض دینے سے بجا طور پر ڈرتے ہیں؛ کیوں کہ بددیانتی کا غلبہ ہے؛ لیکن اگر ایسے لوگ اپنے سرمایہ کا دس فیصد قرض دینے والے اداروں کے پاس جمع کریں اور وہ رقم ضرورت مندوں کو قرض کے طور پر دی جائے تو بالفرض اگر ان کی نصف رقم بھی ڈوب گئی تو ان کے جمع سرمایہ کی پانچ فیصد کی رقم سے ہی وہ محروم ہوئے اور یہ نقصان ان کے لئے ان شاء اللہ قابل برداشت ہوگا اور وہ ثواب کے مستحق بھی ہوں گے ، کہ قرض دینے کا ثواب صدقہ کرنے سے بڑھ کر ہے (السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۰۹۵۴)

اس طرح ہم سب باہمی تعاون سے قوم کے پریشان حال گرے پڑے لوگوں کو اٹھا سکتے ہیں، اور جب پوری قوم کا سر بلند ہوگا، تبھی ہم ایک معززا قوم کی حیثیت سے معاشرہ میں اپنی جگہ بنا سکیں گے، اور اس وقت گداگر گروہ کی حیثیت سے قوم کی جو پہچان بنتی جا رہی ہے اور ہر جگہ مسلمان گداگر نظر آتے ہیں، ریلوے اسٹیشن ہو یا ائیرپورٹ ، بس اسٹینڈ ہو یا ہسپتال، مارکیٹ ہو یا رہ گزر، شاید اس رسوا کن صورت حال سے قوم باہر نکل سکے گی، غرض کہ جو لوگ اپنی تعلیمی لیاقت کی وجہ سے روزگار حاصل کرنے کے موقف میں نہیں ہیں، ان کے لئے چھوٹے تجارتی قرضوں کا انتظام کیا جانا چاہئے۔

(جاری)

Comments are closed.