سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوۓ برہم کو

ترتیب وپیشکش: مفتی محمد قمر عالم قاسمی

خادم التدریس والافتاء مدرسہ حسینہ کڈرو وقاضی شہر رانچی جھارکھنڈ

ہم جس ملک کے باشندہ ہیں اور جس کی آزادی کے لئے ہمارے اکابر علمائے کرام نے قربانیاں پیش کی ہیں وہ سال دو سال نہیں بلکہ وہ سینکڑوں سالوں پر محیط ہیں اٹھارویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال سے انگریزوں کو عروج ملا مگر انگریزوں کا پہلا جہاز 1601 عیسوی دور جہانگیری میں ہی آ چکا تھا اس حساب سے ہندوستان جنت نشاں سے انگریزوں کا انخلا 1947 میں تین سو چھیالیس سال بعد ہوا اس دوران ظلم و بربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی جس کا ہر صفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لت پت ہے جذبہ آزادی سے سرشار اور سر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب و ثقافت، مذہب و ملت کی بقا کے لیے بے خطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں صرف مسلمان ہی صف اول میں تھے جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانی اگر الگ کر دی جائے تو ہندوستان کبھی آزاد نہیں ہوتا جشن آزادی اور جشن جمہوریت کے بہار یوں ہی نہیں آئی ہندوستان میں جمہوری نظام لانے اور انگریزی تسلط ختم کرنے میں جمعیۃ علماء ہند کے اکابرین کی جدوجہد بڑی طویل ہے آزادی کا یہ سفر کوئی آسان نہیں تھا داستان حریت بڑی دلدوز ہے کوئی 1498 چودہ سو اٹھانوے کا سال ہے جب ایک عربی ملاح کی مدد سے دہلی سے تقریبا سات ہزار چھ سو چھپن کلومیٹر دور واسکوڈگاما کی اگوائی میں پرتگال کے ملاح پہلی مرتبہ سمندری راستے سے بھارت تک پہنچے اور مغربی بنگال کے دارالحکومت کلکتہ سے اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ایک عرصہ تک خوب منافع کمایا ان کے دیکھا دیکھی یورپ کے دوسرے ممالک مثلا ہالینڈ،انگلستان والوں نے بھی ہندوستان کی دولت لوٹنے کا لائحہ عمل تیار کیا چنانچہ انگلینڈ کے ایک سو ایک تاجروں نے تیس ہزار پاؤنڈ جمع کرکے "ایسٹ انڈیا کمپنی” کے نام سے ایک کمپنی بنائی اور 1601 میں ان کا ایک جہاز ہندوستان لنگر انداز ہوا اس وقت ہندوستان میں جہانگیر بادشاہ کی حکومت تھی رفتہ رفتہ اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کرنا شروع کر دیا مال کی جگہ ہتھیار ملازم کی جگہ فوج کی آمد لیکن مرکز میں مغلیہ سلطنت اس قدر مضبوط تھی کہ انگریزوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی 1707سترہ سو سات میں شاہجہاں کے دوسرے لڑکے اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ حکومت کمزور ہونے لگی جس کی وجہ سے عیار شاطر انگریزوں نے پورے ملک پر قبضہ کا پلان بنا لیا ان کے خطرناک عزائم اور منصوبے کو بھانپ کر سب سے پہلے میدان پلاسی( مغربی بنگال ندیا ضلع کے بھاگرتی ندی کے کنارے ایک میدان ہے) میں جس مرد مجاہد نے انگریزوں سے سترہ سو ستاون میں لڑتے ہوئے اپنے سپہ سالار میر جعفر کی غداری کی وجہ سے جام شہادت نوش کیا وہ شیر بنگال نواب سراج الدولہ تھا پھر1799 میں سرنگاپٹنم میسور کرناٹک کے قریب اپنے سپہ سالار میر صادق کی غداری کی وجہ سے انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شیر میسور سلطان ٹیپو نے ملک کی حفاظت کے لیے جان قربان کردی، جن کی شہادت پر انگریز فاتح لارڈ ہارس نے فخریہ یہ اعلان کیا تھا "آج ہندوستان ہمارا ہے“ یعنی اب ان کے مقابلے میں کوئی نہیں ہے دہلی تک راستہ صاف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میر جعفر اور میر صادق کی غدار پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:وننگ ملت ننگ دیں ننگ وطن جعفر از بنگال صادق از دکن سن اٹھارہ سو تین عیسوی میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئی اور بادشاہ وقت شاہ عالم ثانی سے جبرا ایک معاہدہ لکھوایا کہ "ملک بادشاہ سلامت کا خلق خدا کی اور حکم کمپنی بہادر کا” یہ بات اس قدر عام ہو گئی کہ لوگ کہنے لگے حکومت شاہ عالم از دہلی تا پالم یہ معاہدہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ ہندوستان سے اب اسلامی اقتدار ختم ہو چکا ہے وحشت و بربریت ظلم و ستم کی گھنگھور گھٹائیں پوری فضا کو گھیر چکی ہیں وطنی آزادی اور مذہبی شناخت ان کے رحم و کرم پر ہوگی ایسے بھیانک حالات اور پرفتن ماحول میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پوری جرات و بےباکی کے ساتھ فتوی جاری کیا کہ:” اب ہندوستان دارالحرب ہے” یعنی اب ملک غلام ہو چکا لہذا بلاتفریق مذہب و ملت ہر ہندوستانیوں پر انگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے ان کے فتووں کی روشنی میں علماء کھڑے ہوئے حضرت سید احمد شہید حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ آگے بڑھے پورے ملک کا دورہ کر کے قوم کو جگایا اور ہر طرف آزادی کی آگ لگا دی 1831 کو بالا کوٹ کی پہاڑی پرلڑکر جام شہادت نوش کیا دھیرے دھیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف ماحول بننے لگا انگریزوں کے ملازم کوئی ڈھکے چھپے نہیں تھے چنانچہ "میلکم لوٹین” جج عدالت عالیہ مدراس و ممبر کونسل نے لندن سے اپنی ایک رسالے میں ظلم و بربریت پر لکھا تھا۔ ہم نے ہندوستانیوں کو ذلیل کیا ان کے قانون وراثت کو منسوخ کیا شادی بیاہ کے قاعدوں کو بدل دیا مذہبی رسم و رواج کی توہین کی عبادت خانوں کی جاگیریں ضبط کرلیں سرکاری کاغذات میں انہیں کافر لکھا اور امراء کی ریاستیں ضبط کرلیں لوٹ کھسوٹ سے ملک کو تباہ کیا انہیں تکلیف دے کر مالگزاری وصول کی سب سے اونچے خاندانوں کو برباد کر کے انھیں آوارہ گرد بنانے والے بندوبست کیے۔ اٹھارہ سو ستاون میں پھر دہلی کے چوتیس علمائے کرام نے جہاد کا فتویٰ دیا جس کی وجہ سے معرکہ کارزار پھر سرگرم ہو گیا دوسری طرف انگریزی فوجی پورے ملک میں پھیل چکی تھی اور ہندوستان سے مذہبی بیداری و سرگرمی ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے بے شمار عیسائی مبلغین پادری کو میدان میں اتار دیا تھا جسے انگریزی فوج کی پشت پناہی حاصل تھی جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کا پرچار کرتے تھے اسی دوران یہ خبر گشت کرنے لگی کہ انگریزی حکومت میں ہندو مسلم کا مذہب خراب کرنے کے لئے اور دونوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے لیے آٹے میں گائے سور کی ہڈی کا برادہ ملا دیا گیا ہے ان واقعات نے ہندوستانیوں کے دلوں میں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی ایک آگ لگادی ان کی ان مذہب مخالف پالیسیوں کی وجہ سے انگریزی فوج میں ملازم ہندو مسلم سب نے زبردست احتجاج کیا کلکتہ سے یہ چنگاری اٹھی اور دھیرے دھیرے پارک پور امبالا لکھنؤ میرٹھ مرادآباد اور سنبھل وغیرہ تک پہنچتے پہنچتے شعلہ بن گئی احتجاج کرنے والے سپاہیوں اور ان کے انقلابی ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی اٹھارہ سو ستاون کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے بدلہ کی کاروائی کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو خصوصیت کے ساتھ انتہائی طور پر کچل دیا گیا دہلی کے چاندنی چوک ہی نہیں بلکہ ہر چوک چوراہے پر سولیا نصب کر دی گئیں دہلی اور دہلی کے باہر درختوں کی شاخوں سے پھانسی کے پھندے لٹک رہے تھے جو بھی با وقار مسلمان انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا اسے ہاتھی پر بٹھایا درخت کے نیچے لے گئے ہیں اس کی گردن میں ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھا دیا لاشیں پھندے میں جھول گئیں آنکھیں ابل پڑیں زبان باہر نکل آئے ذبح کیے ہوئے مرغ کی طرح جان کنی کا ایک خطرناک دل دہلا دینے والا منظر ایک انگریز عورت نے اپنی نوشتہ میں یہ لکھا کہ بسا اوقات ان پھانسیوں پر لٹکائے جانے والوں کی لاشیں تڑپ تڑپ کر انگریزی کے ہندسے کا 8 بن جاتی تھیں یہ ایک دو نہیں سیکڑوں واقعات ہیں یہ قیامت مسلمانوں پر ایک دو دن نہیں ٹوٹی بلکہ اس کا سلسلہ مہینوں سے گزر کر ایک سال تک چلتا رہا ان ہولناک مناظر کو دیکھ کر پورا ہندوستان تھرا اٹھا انگریز کا نام سنتے ہی ایک خونخوار بھیڑیے کا تصور کیا جاتا تھا اور خوف و دہشت سے لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے یہ خونی ڈرامہ ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں کھیلا جاتا تھا عام ہندوستانیوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے رہے ہوں گے ہم اور آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے دردناک وہ عذاب ہے جو مجاہدین آزادی کو بھگتنا پڑا جو ان کی لاکھوں لاکھ کی جائیدادوں کو مفت کے دام حکومت نے نیلام کرکے ان کے معصوم بچوں پردہ نشین خواتین کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا یہ تصور ہی مجاہدین آزادی کے لئے بڑا روح فرسا تھا انہوں نے اپنے پھانسی کا حکم سن کر مسکرا دیا تھا لیکن ان کی اولاد کو درد بھیک مانگنے پر مجبور کر دینا خون کے آنسو رلا گیا جیسا کہ عظیم آباد کے امیر کبیر مولانا احمداللہ صاحب کے ساتھ ہوا کہ ان کی ساری جائیداد پر انگریزی حکومت نے قبضہ کرکے ان کے خاندان کے ایک ایک فرد کو ٹھیک عید کے دن گھر سے اس حال میں نکال باہر کیا ایک سوئی بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دی انگنت ہمارے علماء اکابرین بزرگوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف اپنی جان و مال کی قربانیاں دے کر جام شہادت نوش کیا پھانسی کے پھندے پر چڑھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے انتہائی کرب و الم کے ساتھ صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں جن کی ایک لمبی فہرست ہے خصوصاًنواب سراج الدولہ، شیر میسور ٹیپو سلطان شہید حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حضرت مولانا سید احمد شہید حضرت، مولانا ولایت علی صادق پوری حضرت مولانا اسماعیل شہید، سید ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر علامہ فضل حق خیرآبادی، مولوی محمد باقر شہید، بیگم حضرت محل مولانا احمد اللہ شاہ نواب بہادر خاں حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی پیر طریقت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی مناظر اسلام حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی حضرت مولانا عبیداللہ سندھی فقیہ العصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی حافظ حدیث ومحدث اعظم حضرت مولانا انور شاہ کشمیری حضرت مولانا برکت اللہ بھوپالی مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی حضرت مولانا حسرت موہانی حضرت مولانا ابوالکلام آزاد مسیح الملک حکیم اجمل خاں مولانا مظہرالحق مولانا ظفر علی خان ڈاکٹر مختار احمد انصاری حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری حضرت مولانا خلیل الرحمن لدھیانوی رحمھم اللہ رحمۃ واسعۃ۔ مجاہدین آزادی کی یہ فہرست سوواں حصہ بھی نہیں ہے۔وہم مسلمانوں کی اتنی بڑی قربانیوں کے بعد یہ ملک آزاد ہوا ہے آج کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان دہشتگرد ہے اور مسلمانوں کو بھارت سے پیار نہیں ہے میں جوابا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مسلمان اس ملک کی آزادی کے لیے قربانیاں پیش نہیں کرتا تو شاید یہ ملک کبھی آزاد نہ ہوتا۔اس ملک کو اس دیش کو آزاد کرانے کے لئے ہمارے ہی بزرگوں نے تحریک ریشمی رومال اور تحریک بالاکوٹ کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کو آزادی کی لڑائی لڑنے اور ساتھ دینے کا مطالبہ کیا ۔جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی آج یہ کہتے ہیں ہم سے اہل وطن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں۔

Comments are closed.