اسلامی اقدار و روایات اور ایک تعلیم یافتہ برہمن۔ تحریر: محمد تعریف سلیم ندوی

آج ایک گریجویٹ برہمن نوجوان آیا کہ مجھے اسلام قبول کرنا ہے، انہیں میرے پاس لایا گیا، ناشتے کے بعد میں نے اسلام سے دلچسپی کی وجہ دریافت کی، تو انہوں نے بتایا کہ میرے ایک سے زائد مسلم دوست ہیں، ان میں کئی امور قدر مشترک ہیں کہ وہ کسی بھی آدمی کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، سب کو برابر سمجھتے ہیں اگرچہ وہ بھی ذات و برادری کو مانتے ہیں، دوسرے وہ ایک ہی پلیٹ میں کھا لیتے ہیں اور ہمیں بھی اپنے ساتھ بغیر ہچک و جھجک شامل کر لیتے ہیں، اور جن سے میرا گہرا تعلق ہے وہ اتنا خلیق و ظریف ساتھی ہے کہ وہ دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاتا، کسی کا برا نہیں چاہتا، کوئی اس کے ساتھ دغا و فریب کرتا ہے تو محبت سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے بدلا نہیں لیتا، میرے معلوم کرنے پر بتایا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں یہی سکھایا ہے، پھر میں نے ان سے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں اور جانا، جب میں نے اپنے معاشرے و تعلیمات کا موازنہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایات و تعلیمات سے کیا تو پھر بے چینی و بے سکونی نے مجھے آ گھیرا، اب دل کو سکون و قرار کا واحد راستہ اسلام کا سایا اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات میں مضمر نظر آیا، میں نے اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی، گھر والے سمجھانے لگے اور میرے ہاؤ بھاؤ میں بدلاؤ محسوس کرنے لگے، میں نے اپنے دوست سے بات کی تو اس نے ایک مفتی صاحب سے رابطہ کرایا؛ لیکن وہاں میں نہیں جا پایا، اب میں علی الصبح اپنی بائیک لیکر نکل آیا تو مسجد دیکھ آپ کے یہاں پہنچ گیا، ہاتھ میں کڑا تھا، ایک طالب علم نے استاد کو بتایا کہ ایک غیر مسلم آپ سے ملنے آیا ہے تو اس نے طالب علم سے معلوم کیا کہ تمہیں میرے غیر مسلم ہونے کا علم کیسے ہوا، تو اس نے ہاتھ میں پہنے کڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس سے۔ اس نے فوراً اسے نکال کر ردی کے ٹوکرے میں ڈال دیا۔
اس نے مجھ سے اسلام کی قبولیت کا اظہار کیا تو میں نے اس سے کلمہ طیبہ کا مطالبہ کیا، اس نے فوراً پڑھ سنایا، مجھے اس کی باتوں سے اندازہ تھا کہ اسے کلمہ ضرور یاد ہے، میں نے نام معلوم کیا تو اس نے اپنا نام بتایا، میں نے مزید اسلامی کسی نام کی تجویز پر غور کرنے کا سوال کیا تو اس نے بتایا کہ میرا دل چاہتا کہ میں مصطفٰی رکھوں، میں نے انہیں نام کے آگے محمد لگانے کا مشورہ دیا۔ میں نے سر پر نکلی چوٹی کے متعلق دریافت کیا تو بتایا کہ اسے ابھی نکلتے ہے کٹوا لوں گا، میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اولاً آپ روزگار سے جڑیں اور وہیں کسی سے اسلامی تعلیمات سیکھنے کا ذریعہ بنائیں، شروع میں مشکل مراحل ہوں گے؛ لیکن پھر اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور فتوحات کے دروازہ کھلیں گے۔
لیکن ایسا کوئی عمل نہ کریں جس سے مقامی مسلمانوں کو پریشانی کا سامنا ہو، آپ نے اپنے لئے اسلام قبول کیا ہے تو خود سے محنت اور جد و جہد کریں، چونکہ حالیہ دنوں میں پولس کا جبر اور حکومت کے جانبدارانہ شکنجے میں کوئی بھی شخص پھنسنا نہیں چاہتا ہے۔
بہر حال آج بھی پیارے نبی ﷺ کے اخلاق اور نیک اوصاف میں وہی طاقت ہے کہ کسی کی بھی زندگی تبدیل کر دے اور ابدی جہنم سے نجات دلا دے۔
یہ اخلاق عالیہ اور عادات حمیدہ ہمیں دینِ اسلام کی تعلیمات کے صلے میں ملے ہیں۔
Comments are closed.