عصمت دری کا الزام، شاہنواز حسین کو جھٹکا

دہلی ہائی کورٹ کامقدمہ درج کرنے کا حکم، بی جے پی لیڈر سپریم کورٹ سے رجوع، چیف جسٹس کا جلد سماعت سے انکار
نئی دہلی۔۱۸؍اگست: بی جے پی لیڈر شاہنواز حسین کو اس وقت جھٹکا لگا جب دہلی ہائی کورٹ نے ان کے خلاف عصمت دری کا مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے عصمت دری سمیت دیگر دفعات میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دینے کے ساتھ پولیس کو ہدایت کی کہ معاملہ کی جانچ تین مہینے میں مکمل کی جائے۔ شاہنواز حسین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ عرضی دائر کرتے ہوئے شاہنواز نے درخواست کی تھی کہ معاملہ کی جلد سماعت کی جائے، داہم سپریم کورٹ نے اس سے انکار کر دیا۔دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو شاہنواز حسین کے خلاف عصمت دری سمیت دیگر دفعات میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ معاملہ کی تفتیش تین مہینے میں مکمل کی جائے۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ حقائق پر نظر ڈالنے کے بعد یہ واضح ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے میں دہلی پولیس کو دلچسپی نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ پولیس کی جانب سے ذیلی عدالت میں جو رپورٹ پیش کی گئی تھی وہ حتمی (ایف آر) نہیں تھی۔خیال رہے کہ دہلی پولیس نے ذیلی عدالت میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خاتون کی شکایت پر قابل سماعت مقدمہ کا جرم عائد نہیں ہوتا۔ خاتون نے 2018 میں ذیلی عدالت میں درخواست پیش کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ عصمت دری کے سلسلہ میں ایف آئی آر درج کی جائے۔ خاتون کا الزام ہے کہ شاہنواز حسین نے چھترپور کے فارم ہاؤس میں اس کی عصمت دری کی تھی اور اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔اس معاملہ میں بی جے پی لیڈر شاہنواز حسین نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے جلد سماعت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کی سماعت آئندہ ہفتہ کی جائے گی۔ شاہنواز حسین کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل منیش پال نے چیف جسٹس این وی رمنا سے گزارش کی کہ معاملہ کی جلد سماعت ناگزیر ہے کیونکہ اگر ایف آئی آرج ہو گئی تو یہ عرضی غیر موثر ہو جائے گی۔ نیز ان کے موکل کی 30 سال کی عوامی زندگی ہے۔ تاہم سی جے آئی نے کہا کہ معاملہ کی سماعت اگلے ہفتہ کی جائے گی۔خیال رہے کہ شاہنواز حسین بی جے پی کے اہم لیڈر ہیں۔ وہ بہار سے ایم ایل سی ہیں اور بہار کی سابقہ جے ڈی یو-بی جے پی کی مخلوط حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تین مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور اٹل بہاری حکومت میں مرکزی وزیربھی رہ چکے ہیں۔شاہنواز حسین سے وابستہ معاملہ میں ہائی کورٹ نے جو تبصرے کئے اس سے پولیس کے کردار پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ دہلی ہائی کورت کی جسٹس آشا مینن کی بنچ نے متاثری کی جانب سے کچھ سالوں قبل دی گئی شکایت پر کہا کہ تمام حقائق پر نظر ڈالنے کے بعد یہ بات صاف ہو رہی ہے کہ پولیس کی دلچسپی ایف آئی آر درج کرنے میں نہیں ہے۔دہلی کی رہائشی خاتون نے جنوری 2018 میں ٹرائل کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے شاہواز حسین کے خلاف ریپ کا مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی۔ خاتون کا الزام ہے کہ شاہنواز حسین نے چھتر پور میں واقع فارم ہاؤس میں زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اتنا ہی نہیں اسے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔پولیس نے نچلی عدالت میں رپورٹ جمع کرائی تھی اور کہا تھا کہ شاہنواز حسین کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا۔ ٹرائل کورٹ نے اپنے فیصلے میں پولیس کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خاتون کی شکایت پر قابل سماعت جرم کا مقدمہ بنتا ہے۔ اس کے بعد پولیس خود بھی سوالات کے گھیرے میں ہے۔
Comments are closed.