طلاق حسن پر دہلی ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو سپریم کورٹ بھیجا

 

نئی دہلی۔۱۸؍ اگست: دہلی ہائی کورٹ نے طلاق حسن کو چیلنج کرنے والے درخواست گزار سے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اسی طرح کی دوسری عرضی پر سماعت میں شرکت کرے۔ جسٹس یشونت ورما کی بنچ نے یہ حکم دیا۔سماعت کے دوران، درخواست گزار رضیہ ناز کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل موہن ایس اور شبھم جھا نے کہا کہ ان کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر درخواست سے مختلف ہے۔ تب عدالت نے کہا کہ پٹیشن مختلف ہو سکتی ہے لیکن مسئلہ ایک ہی ہے۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنے والے فریق کے وکیل اشونی اپادھیائے نے کہا کہ یہ درخواست ان کی درخواست کی ہی ایک نقل کاپی کی مانند ہے جسکی سماعت عدالت کے وقت کا زیاں ہے۔ اشونی اپادھیائے نے کہا کہ اس عرضی میں مرکزی حکومت کو فریق بھی نہیں بنایا گیا ہے۔اس معاملے پر 16 اگست کو سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے طلاق متاثرہ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ باہمی رضامندی سے طلاق لینا چاہیں گی جس میں آپ کو مہر سے زیادہ معاوضہ ملے۔ عدالت نے کہا تھا کہ پہلی نظر میں طلاق حسن میں کچھ غلط نہیں ہے، کیونکہ عورت کوخلع کا اختیارحاصل ہے۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سینئر وکیل پنکی آنند نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا تھا، لیکن طلاق حسن کا معاملہ بے نتیجہ رہا۔ تب عدالت نے پوچھا تھا کہ کیا درخواست گزار باہمی رضامندی سے اس طرح طلاق لینا چاہے گی کہ آپ کو مہر سے زیادہ معاوضہ ملے؟ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس معاملہ پر کسی اور قسم کا ایجنڈا کھڑا کیا جائے۔طلاق حسن کا سامنا کر رہی ممبئی کی ناظرین نسا اور غازی آباد کی بے نظیر حنا نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ انکی درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلم لڑکیوں کو بھی دوسرے مذاہب کی لڑکیوں کی طرح حقوق ملنے چاہئیں۔ ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے کے ذریعے دائر درخواست میں بے نظیر نے بتایا ہے کہ ان کی شادی 2020 میں دہلی کے یوسف نقوی سے ہوئی تھی۔ ان کا سات ماہ کا بچہ بھی ہے۔ دسمبر 2021 میں اس کے شوہر نے گھریلو جھگڑے کے بعد اسے گھر سے نکال دیا تھا۔ پچھلے پانچ ماہ سے اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اب اچانک نقوی کے وکیل کے ذریعے ڈاک کے ذریعے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ طلاق حسن کے تحت پہلی طلاق دے رہے ہیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کے نام پر مسلم خواتین کو قانون کی نظر میں برابری کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ طلاق حسن اور طلاق کی دیگر تمام اقسام جو قانونی طور پر قابل عمل نہیں ہیں ان کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔ درخواست میں شریعت ایکٹ کی دفعہ 2 کو منسوخ کرنے کا حکم دینے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔ درخواست میں مسلم نکاح ایکٹ کی قرارداد کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

Comments are closed.