بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کے فیصلے کو رد کیاجائے!

 

۶؍ہزار سے زائد سماجی کارکنان، خواتین اور حقوقی انسانی کے اراکین کی سپریم کورٹ سے درخواست، قتل و عصمت دری کے مجرمین کی رہائی کے فیصلے کو متاثرہ کےلیے حوصلہ شکنی قرار دیا،’’ مجرموں کا اس طرح پھول مالائوں سے استقبال کیاجارہا ہے کہ جیسے وہ بارڈر پر جنگ لڑکر واپس آئے ہوں‘‘۔

نربھیا کی والدہ

 

ممبئی۔۱۹؍ اگست: تاریخ نویسوں،سماجی کارکنوں، خواتین اور حقوق انسانی کے اراکین سمیت ۶ ہزار سے زائد لوگوں نے سپریم کورٹ سے فریاد کی ہے کہ بلقیس بانو معاملے میں عصمت دری اور قتل کے لیے ۱۱ مجرموں کی سزا معاف کرنے کے فیصلےلے کو رد کیاجائے۔ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ عصمت دری اور قتل کے ۱۱ مجرمین کی سزا معاف کرنے سےحوصلہ شکنی ہوگی ان متاثرین کا انصاف اور موجودہ نظام سے بھروسہ اُٹھ جائے گا۔ جنہیں انصاف کے مطالبے اور موجودہ نظام پر اعتماد کرنے کو کہاگیا ہے۔ بیان جاری کرنے والوں میں سیدہ حمید، ظفرالاسلام خان، روپ ریکھا، دیوکا جین، اوما چکرورتی، سبھاشنی علی، کویتا کرشنن، میمونہ ملا، حسینہ خان، رچنا مدرابائنا، شبنم ہاشمی، سہیلی وومینس ریسورس سینٹر، گمن مہیلا سموہ، بیباک کلکٹیو، آل انڈیا پروگریسو وومین ایسوسی ایشن، اتراکھنڈ مہیلا منچ اور دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ بیان میں کہاگیا ہے کہ ۱۵؍اگست ۲۰۲۲ کی صبح آزادی کی ۷۵ ویں سالگرہ پر ملک کو خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے خواتین کے حقوق ، گورو اور ناری شکتی کے بارے میں بات کی، اسی دن دوپہر میں بلقیس بانو ایک خاتون جو اسی ’ناری شکتی‘ کی مثال کے طو رپر گزشتہ ۱۷ برسوں سے انصاف کی طویل لڑائی لڑرہی ہے کو پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ جنہو ںنے اس کے اہل خانہ کو مارڈالا، اس کی تین سالہ معصوم بچی کو قتل کردیا، اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور پھر اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا، وہ سبھی جیل سے باہر آگئے ہیں، اور آزاد ہوگئے ہیں۔ کسی نے اس سے بات نہیں کی یا اس کے تحفظات کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی، کسی نے اسے نوٹس نہیں بھیجا، کسی نے انہیں پوچھا کہ ایک اجتماعی عصمت دری کے درد سے نکلی خاتون کو اس کے مجرمین کی رہائی کے بارے میں سن کر کیسا محسوس ہوگا۔ بلقیس نے ہمیشہ کہا کہ انصاف کےلیے اس کی لڑائی صرف اس کی اکیلے کی لڑائی نہیں ہے، بلکہ سبھی خواتین کی لڑائی ہے، جو انصاف کے لیے لڑرہی ہیں اور اس لیے ۱۵ اگست کو ہندوستان میں ہر ایک جدوجہد میں مصروف عصمت دری متاثرہ کو ایک بڑا جھٹکا لگا ہے، یہ ہمارے لیے بہت ہی شرم کی بات ہے کہ جس دن ہم ہندوستانی اپنی آزادی کی خوش منانی چاہئے اور اپنی آزادی پر ناز کرناچاہئے اسی دن ہندوستان کی خاتون اپنے ساتھ ہوئے اجتماعی زیادتی اور قتل کرنے والے مجرمین کو ملک کے قانون کے ذریعے آزاد کردئے جانے کی گواہ بنی۔ قانون کے ذریعہ ان سبھی ۱۱ مجرموں کو چھوڑ دئیے جانے کا حکم ان سبھی عصمت دری متاثرہ کو حیرت واستعجاب میں ڈال دینے والا ہوگا جنہیں یہ کہاجاتا ہے کہ ملک کے انصاف اور موجودہ نظام پر بھروسہ رکھو۔ انصاف کا مطالبہ کرو اور اعتماد رکھو۔ ان قاتلوں، عصمت دری کے مجرموں کو سزا پوری کیے بنا جلدی چھوٹ جانا اس بات کو پختہ کرتا ہے کہ وہ سبھی آدمی جو عورت کے ساتھ عصمت دری یا دیگر کسی طرح کا تشدد کرتے ہیں وہ آسانی سے چھوٹ سکتے ہیں اس ضمن میں یہ او ربھی ضروری ہے کہ اس رہائی کو رد کیاجائے۔ بیان میں کہاگیا ہے کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ نظام عدل میں خواتین کے اعتماد کو بحال کیاجائے ہم ان ۱۱ مجرموں کی سزا معاف کرنے کے فیصلے کو فوری واپس لینے اور انہیں سنائی گئی عمر قید کی سزا پوری کرنے کےلیے جیل بھیجنے کی درخواست کرتے ہیں۔ بیان میں کہاگیا ہے کہ ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرکے ۱۱ قاتلوں اور اجتماعی عصمت کرنے والوں کی رہائی میں مدد کرنے والوں سے ہم یہ کہتے ہیں کہ اپنے ملک کی ہر خاتون کو کم تر محسوس کرایا ہے، اس سے تشدد کے خطرے جس سے ہم اور زیادہ غیر محفوظ اور ڈرے ہوئے ہیں، آپ نے ہندوستان کی خواتین کا نظام عدل میں اعتماد کمزور کیا ہے۔ دریں اثناء ۱۱؍ مجرموں کی رہائی کا پروانہ جاری کرنے والے جج یوڈی سالوی نے جیل سے باہر نکلنے پر مجرموں کے استقبال اور مٹھائی کھلانے ، مالا پہنانےکو غلط قرار دیا ہے۔ انہو ںنے کہاکہ ایک بار جب انہیں مجرم ٹھہرایاگیا اور سپریم کورٹ نے بھی جرم برقرار رکھا تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے جرم کیا ہے، یوڈی سالوی نے کہاکہ مجرموموں کو مالا پہنانا درست نہیں، میں کہوں گا کہ یہ بیڈ ٹیسٹ ہے لیکن کیا کیاجاسکتا ہے، عدالت میں سماعت کے دوران بلقیس بانو نے کتنی بہادری کے ساتھ اپنا موقف رکھا، اسے یاد کرتے ہوئے انہو ںنے کہاکہ مجرمین اسی گائوں کے تھے وہ مجرموں کو جانتی تھی، بلقیس بانو نے بھیڑ میں سے مجرموم کو پہچان لیا تھا اور ان کے نام بھی لیے تھے۔ وہیں مجرموں کی رہائی پر عصمت دری کی شکار نربھیاکی والدہ نے کہا ہے کہ مجرموں کا اس طرح پھول مالائوں سے استقبال کیاجارہا ہے کہ جیسے وہ بارڈر پر جنگ لڑکر واپس آئے ہوں۔

Comments are closed.