Baseerat Online News Portal

مولانا يعقوب منشى کاوی قاسمى رحمة الله عليه

 

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

تو ہم بينى اگر آں روئے نيكو
شوى مانند من ديوانه او
آج (19 محرم سنه 1444ہجرى) عصر كے وقت برطانيه كے جليل القدر عالم وفقيه مولانا يعقوب منشى كاوى قاسمى رحمة الله عليه كے اندوہناك حادثةة وفات كى خبر ملى،دل كو صدمه پہنچا اور اس ملك ميں ايك ماتم پبا ہوا، إنا لله وإنا إليه راجعون۔
برطانيه ميں جن علمائے كرام نے مسلمانوں كى فقہى ودعوتى رہنمائى ميں حصه ليا ہے ان ميں آپ كا نام سر فہرست ہے، اور يہاں كى علمى وعملى زندگى ميں آپ كے اثرات نماياں ہيں۔
آپ كى پيدائش 14 محرم سنه 1350 ہجرى مطابق 1 جون سنه 1931م كو كاوى، راندير ميں ہوئى، گاؤں ميں ابتدائى تعليم حاصل كرنے كے بعد راندير كے ايك بڑے مدرسه دار العلوم الاشرفيه العربيه الاسلاميه ميں داخله ليا، جہاں عربى زبان اور شرعى علوم ميں دسترس پيدا كى، پهر دار العلوم ديوبند كا رخ كيا، وہاں سے سنه 1372ہجرى ميں فراغت حاصل كى، شيخ الاسلام حسين احمد مدنى رحمة الله عليه سے صحيح بخارى اور سنن ترمذى پڑهى، علامه ابراهيم بلياوى سے صحيح مسلم، مولانا اعزاز على امروہى سے سنن ابى داود، مولانا فخر الحسن صاحب سے سنن نسائى، اور مولانا ظہور احمد ديوبندى سے سنن ابن ماجه كى سماعت كى، رحمة الله عليہم۔
كچه دنوں تك گجرات ميں فقه اور اصول فقه وغيره كے مضامين پڑهائے، 15 رمضان سنه 1385 ہجرى مطابق سنه 1966م كو برطانيه ہجرت كى، اور شمال كے ايك قصبه ڈيوزبرى ميں سكونت اختيار كى، يہيں سنه 1409 ہجرى ميں مجلس تحقيقات شرعيه برطانيه قائم كى، آپ ہندوستان كى فقه اكيڈمي كے ممبر تهے اور فقيہانه نظر ميں قاضى مجاہد الاسلام صاحب رحمة الله عليه سے قريب تر۔
اوقات نماز اور رؤيت ہلال وغيره كے مسائل سے خاص دلچسپى تهى، ” اسلامى ماه اور رويت ہلال شريعت وعلم فلك كى روشنى ميں”، "برطانيه ميں صبح صادق كا وقت”، ” برطانيه ميں اوقات نماز كے مشاہده پر ايك نظر”، "اوقات صوم وصلاة”، جس ميں برطانيه كے 21 شہروں كے سال بهر كے صحيح اوقات نماز كمپيوٹر كى مدد سے مرتب كئے گئے ہيں، "اسلامى نكاح وطلاق”، "برطانيه واعلى عروض البلاد پر صبح صادق وشفق كى تحقيق”، ” ايصال ثواب كے لئے اجتماعى ختم قرآن ويس شريف كى شرعى حيثيت” وغيره آپ كى اہم تصنيفات ہيں۔
تدريس اور تصنيف كے علاوه دعوت وتبليغ كے كام ميں بهى پيش پيش تهے، انگلينڈ ميں تبليغى جماعت كے كام كو مستحكم كرنے ميں آپ كى كوششيں لائق ستائش ہيں، تبليغى كام كرنے والوں كے غلو اور كج فہمى پر وقتا فوقتا تنبيه بهى فرماتے، ميرے دوست اور كرم فرما جيپور كے قابل احترام عالم مولانا مفتى ذاكر صاحب مد ظله كى روايت ہے: "مجهكو حضرت مرحوم نے بموقع سيمينار فقه اكيڈمى بمقام جيپور بتايا تها كه ان كو مفتى محمود حسن گنگوہى رحمة الله عليه سے سلوك وتصوف ميں اجازت بيعت تهى، حالانكه مفتى صاحب گنگوہى كے خلفاء كى فہرست ميں نام نہيں ہے، ليكن بسا اوقات اكابر نے صرف زبانى اجازت دى، لكهى نہيں”۔
مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليه سے خصوصى تعلق تها، ميرى كتاب "ارمغان فرنگ” ميں آپ كے نام حضرت مولانا كے پانچ خطوط شامل ہيں، پہلا خط 27 اگست 1969م كا ہے، يه خط حضرت مولانا كے سفر برطانيه سے واپسى كے بعد كا ہے، اس سے اندازه ہوتا ہے كه يه تعلق كس قدر قديم ہے، اس گرامى نامه كا شروع كا حصه يہاں نقل كيا جاتا ہے:
لكهنؤ، 13 جمادى الآخرة 1389ہجرى محب حبيب حفظه اللّه تعالى، السلام عليكم ورحمة اللّه وبركاته محبت نامه مورخه 8 اگست ميرے نام، اور دوسرا خط عزيزى مولوى معين اللّه صاحب كے نام 19 اگست كا لكها ہوا، دونوں پڑهے، آپ كى ياد جو فراموش نہيں ہوئى تهى، تازه اور شاداب ہوگئى، سارے مناظر آنكهوں كے سامنے تصوير كى طرح پهر گئے، آپ كى مخلصانه رفاقت، عاقلانه مشوره، اور كريمانه انتظامات، اور راحت كا بليغ اہتمام سب تازه ہوگيا، آپ كى شب وروز رفاقت ميں جو دس دن بسر ہوئے، وه زندگى كے بہت اچهے دنوں ميں تهے، الله تعالى آپ كو اور آپ كے رفقاء ومعاونين كو بہترين جزا عطا فرمائے اور پهر وه يكجائى، اور دينى كاموں ميں رفاقت ومحبت نصيب فرمائے، وما ذلك على اللّه بعزيز۔ فاران كے اگست كے شماره ميں شيفيلڈ كى تقرير پڑه لى، ڈيوزبرى كى تقرير يہاں ندائے ملت اور تعمير حيات ميں نقل ہوئى، اور اچهے اچهے اہل علم نے پڑها، حضرت شيخ نے بهى اس كو بہت اہتمام سے سنا، اميدہے كه ليڈس كى تقرير بهى آپ ہى مرتب كركے اگر ستمبر نہيں تو اكتوبر كے شماره ميں ضرور شائع كراديں گے، اور يه سلسله كچه عرصه تك جارى رہے گا، بمبئى سے ابهى اس ملفوف كے مضمون كے پہنچنے كى اطلاع نهيں ملى، امروز وفردا ميں اميد ہے كه مل جائے گى، آپ فكر نه كريں، اس سے خوشى ہوئى كه "الأركان الأربعة ” آپ كو مل گئى، آپ كو ترجمه كے لئے چند كتابوں كے نام اور لكهتا ہوں، آپ جس كو انتخاب كرليں: ” الوابل الصيّب في شرح الكلم الطيب علامه ابن قيم”، "الجواب الكافي لمن سأل عن الدواء الشافي علامه ابن قيم”۔
آپ نے ملك ميں تبليغى نقل وحركت كى جو تفصيلات لكهيں ان سے بڑى مسرت ہوئى، اللّه تعالى مزيد ترقيات سے نوازے، اس ملك ہى كے لحاظ سے نہيں، بہت سے ملكوں كے لحاظ سے بہت غنيمت ہے، اللّه تعالى قبول فرمائے، خدا كا شكر ہے كه آپ كى نزاكتوں پر نظر ہے، اور آپ كى موجودگى بہت كچه موجب طمانينت ہے”۔
مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليه جب بهى آكسفورڈ تشريف لاتے تو مولانا مرحوم آپ سے ملاقات كے لئے حاضر ہوتے، آپ سے مستفيد ہوتے اور اپنے كاموں ميں رہنمائى طلب كرتے، حضرت مولانا آپ كا احترام كرتے اور آپ كى طرف خصوصى توجه فرماتے۔
آپ نے حضرت مولانا كى كتابوں كا اچهى طرح مطالعه كيا تها، اور مولانا سے آپ كو فكرى مناسبت تهى، اس قديم تعلق اور توافق كا اثر آپ كے منہج اور طريقةة كار پر نماياں تها، صفت اعتدال سے متصف تهے اور زمانه كے تقاضوں سے با خبر، ذہن ميں وسعت تهى، تنگ نظرى سے دور تهے، مسائل كے حل ميں آسانى اور نرمى كو ترجيح ديتے، نفاق وافتراق سے متجنب تهے، عام مسلمانوں سے ہمدردى ركهتے، ان كے ساته نرمى سے پيش آتے، اور بلا تفريق لوگوں كى حاجت روائى كرتے:
نه چينى وعربى نه رومى وشامى
سما سكا نه دو عالم ميں مرد آفاقى
مولانا مرحوم سے ميرا تعلق سنه 1991م سے ہے، آكسفورڈ اور لندن وغيره ميں ملاقات رہتى، بار بار آپ كے گهر ڈيوزبرى جانا ہوا، كبهى كبهى اہل واولاد كے ساته حاضرى دى، اور زياده تر علماء اور طلبه كى معيت ميں ملاقات كى، آپ سے حديث كى مختلف كتابوں كا سماع كيا، فون پر بات ہوتى رہتى تهى، ميرا بہت خيال فرماتے تهے، مجهے اور ميرى بچيوں كو كئى دفعه اجازت عامه دى۔
اہل علم وفقه كى ايك بڑى تعداد فضل وكمال كے باوجود ايسى خاميوں پر نازاں ہے، جو مسلمانوں كى اجتماعيت اور امت كى وحدت كے لئے نقصان ده ہيں، خاص طور سے نخوت، تنگ نظرى، فرقه پرستى، اور كم ظرفى وه عيوب ہيں جنہوں نے علماء كى افاديت محدود كردى ہے، بلكه ان كى نا عاقبت انديشانه حركتوں سے ملت كو نا قابل تلافى نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے، كچه لوگ ايسے بهى ہيں جن ميں كسى قدر گنوار پن ہے، اور بعض حد درجه روكهے پهيكے ہيں، يہى وه لوگ ہيں جن سے فقه وفتوى كا لفظ بدنام ہوگيا ہے، اور جن كى وجه سے عام پڑهے لكهے انسانوں كو علماء سے ايك قسم كى وحشت اور بيزارى ہے:
بلند ہو تو كهلے تجه په راز ہستى كا
بڑے بڑوں كے قدم ڈگمگائے ہيں كيا كيا
مگر مولانا مرحوم ان سب سے مختلف تهے، فقيہوں اور مفتيوں پر جتنے اعتراضات ہوتے ہيں ان ميں سے كوئى مثال آپ پر صادق نہيں آتى، آپ علم وفقه كے ساته متواضع تهے، سب سے نرمى اور محبت كے ساته ملتے، اپنے چهوٹوں كا بهى احترام كرتے، اور قلب ونظر كے سارے دريچے كهلا ركهتے:
حسد سے دل اگر افسرده ہے گرم تماشا ہو
كه چشم تنگ شايد كثرت نظاره سے وا ہو
آپ كى وفات سے برطانيه كى فقہى زندگى ميں عظيم خلا واقع ہو گيا ہے، الله تعالى آپ كے درجات بلند كرے، اور جنت الفردوس ميں جگه عطا فرمائے، آمين۔

Comments are closed.