Baseerat Online News Portal

آہ! مولانا جلال الدین عمری نہ رہے

اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی

 

ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی

صدر شعبہ اسلامیات مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

 

یوں تو جو بھی آیا ہے اسے جانا ہے، لیکن کچھ لوگوں کا گذرنا بڑا سانحہ ہوتا ہے، اور ہر زبان پکار اٹھتی ہے کہ؂

ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں

تم کیا گئے کہ لٹ گئے دن بہار کے

 

عربی شاعر نے کہا تھا ؂

ما كان قيس هلكه هلك واحد

ولكنه بنيان قوم تهدما

 

مولانا کی وفات دنیائے علم کا ایک بڑا خسارہ ہے۔ ادھر کچھ عرصہ سے اہل علم شخصیات اس تیزی سے بزم عالم کو سونا کرتی جارہی ہیں کہ ایک غم کے آنسو خشک نہیں ہوتے کہ دوسرا غم سیل اشک رواں کردیتا ہے۔ لیکن مولانا عمری کی وفات نے علمی اور دینی حلقے میں غم کی لہر دوڑا دی ہے۔۔ ہر دل غمگین، ہر چشم اشک بار، ہر زبان گنگ اور کلمات تعزیت و دعا سے تر ہے۔۔

 

آج جمعہ کے دن مؤرخہ 26 اگست 2022 کو شب قریب ساڑھے آٹھ بجے مولانا جلال الدین عمری نے دہلی میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی، 1935 میں آپ کی ولادت ہوئی تھی۔ آپ نے ایک سنجیدہ، باوقار اور بھرپور علمی و دعوتی زندگی گزاری۔ اور اپنے پیچھے اپنے علمی کاموں اور کارناموں کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے۔۔

 

مولانا عمری یوں تو ملک کی معروف و متحرک تحریک جماعت اسلامی ہند سے وابستہ اور دو بار امیر رہے، لیکن آپ کی وابستگی متعدد اہم اداروں اور جماعتوں کے ساتھ بھی رہی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن رکیں اور سرگرم ممبر رہے۔

 

میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے مولانا عمری کی صحبت با فیض میں رہنے اور متعدد مواقع پر ان سے استفادہ کرتے رہنے کے مواقع فراہم ہوتے رہے۔ مولانائے مرحوم کی شفقت مجھ کمترین پر بے حد رہی ہے۔۔

 

مولانا کے ساتھ رفاقت اور صحبت کے متعدد واقعات ذہن کے پردہ پر اس وقت ابھر رہے ہیں۔ اور ان میں مولانا کی شخصیت کی گوناگوں خوبی اور علم و اخلاق کے عمدہ نقوش موجود ہیں۔

یادش بخیر کہ دہلی میں قیام کے دوران مولانا کے پاس بار بار حاضری ہوتی تھی، اس وقت بھی جب آپ امیر نہیں ہوئے تھے، اور تب بھی جب آپ امارت کے منصب پر فائز تھے، ہماری حاضری خالص علمی غرض سے ہوتی، اور مولانا ہر بار علم اور تحریر کے قیمتی نکات سے ہمارے دامن کو بھردیتے تھے۔ مولانا کے آفس کا کمرہ انتظامی کم اور علمی زیادہ نظر آتا تھا، مراجع کی اہم کتابیں گرد و پیش ہوتیں، اور سامنے میز پر کسی تحریر کی تیاری میں مصروف ہوتے۔ بڑے ملنسار، خوش مزاج، نرم لہجہ، شیریں زبان اور علمی موضوع پر ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنے والے تھے۔ تحریر بڑی سادہ اور رواں لکھتے اور اس کی ترغیب دیتے تھے۔ امارت سے قبل کی بات ہے۔ ایک بار میں حاضر ہوا، مولانا کے تصنیفی موضوعات پر گفتگو نکلی، اور آپ فرما نے لگے کہ خواتین کے موضوع پر اللہ نے اہم کام مجھ سے کرادیے ہیں۔۔ سچ ہے کہ خواتین کے حقوق اور اعتراضات کے جوابات پر آپ کی تصنیفات مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے اپنی ایک تصنیف پر آپ سے مقدمہ کی فرمائش کی، اور وہ تحریر آپ کی خدمت میں پیش کی۔ دوبارہ حاضری پر دیکھا کہ آپ نے پوری تحریر پڑھی اور چند جگہوں پر زبان کو اور سہل بنایا تھا۔ پھر کہنے لگے کہ میں اپنی تحریر کو سہل اور رواں رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ کا وہ مقدمہ میری کتاب پر مطبوعہ ہے۔ مجھے یہ بھی شرف حاصل رہا کہ آپ کی کتاب اسلام کا عائلی نظام جب طبع ہوئی تو اس پر میں نے تبصرہ لکھا۔۔

 

مسلم پرسنل لا بورڈ کی میٹنگوں میں مجھے بارہا مولانا کے ساتھ بیٹھنے اور انھیں سننے کا موقع ملا۔ ان دنوں مولانا سراج الحسن صاحب امیر جماعت ہوا کرتے تھے، مولانا عمری صاحب بڑے سلجھے انداز مین اور مدلل طور پر اسلام کے عائلی مسائل پر اسلامی موقف پیش کیا کرتے تھے۔ میں صدر بورڈ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب رح کے ساتھ رہنے اور بورڈ کی آفس کے کاموں کو اعزازی طور پر دیکھنے کی وجہ سے کثرت کے ساتھ ان بزرگوں سے رابطے میں رہا کرتا تھا۔ مولانا کی صحبت بڑی دلنشیں اور خوشگوار ہوا کرتی تھی؂

بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی

 

چہرہ پر خوشی، نظروں میں ذہانت آمیز جھکاؤ اور شیریں بیانی دل موہ لیا کرتی تھی۔

پڑوسی ملک میں امام ابو حنیفہ پر ہونے والے عالمی سیمینار میں مولانا اور دیگر اہل علم کے وفد کی شرکت تو خوشگوار یادوں کا حسین مرقع ہے، اس سیمینار میں مولانا اپنے باوقار علمی انداز کے ساتھ جلوہ فگن رہے تھے۔ اسی سفر میں میاں طفیل صاحب سے بھی ہماری ملاقات رہی تھی۔

 

حیدر آباد آمد کے بعد مولانا سے میری ملاقاتیں کم ہوگئی تھیں۔ لیکن یہاں قیام کی کئی ملاقاتیں اور صحبتیں بھی یادگار ہیں۔ ورنگل میں جامعہ الصفہ کے سالانہ اجلاس میں مولانا کے ساتھ میری بھی شرکت رہی تھی۔ اور مولانا کی طویل و جامع گفتگو سے قبل میری مختصر گفتگو اس حوالے کے ساتھ ختم ہوئی تھی کہ اصل خطاب تو مولانا موصوف کا ہونے والا ہے۔

 

میرے لئے یہ عزت افزائی کی بات ہے کہ دہلی سفر کے دوران میں خصوصیت کے ساتھ مرکز کی مسجد میں نماز جمعہ کےلئے جاتا اور مولانا کے قرآنی خطاب سے مستفید ہوتا اور پھر ان کی شفقت آمیز ملاقات سے جیب و دامن کو بھر کر واپس لوٹتا تھا۔۔ خطاب ہی سے یاد آیا کہ مولانا عمری صاحب کے خطاب کو سننے کےلئے عیدین کی نماز میں بڑا مجمع اکٹھا ہوا کرتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب ابو الفضل انکلیو کی آبادی بہت زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ ان مواقع پر مولانا کی تقریر بڑی ہمت افزا اور چشم کشا ہونے کے علاوہ راہ عمل دکھانے والا ہوا کرتی تھی۔۔

 

آج مولانا رخصت ہوگئے ہیں تو یہ سب یادیں ہیں جو ذہن کے پردہ پر ابھرتی جارہی ہیں۔

مولانا عمری معتدل رجحان، معتدل رائے اور علمی و تحقیقی ذہن رکھنے والے شخص تھے۔ آپ کی تحریریں مدلل، سلیس، مؤثر اور متوازن ہوا کرتی تھیں۔ آپ نے نئے نئے موضوعات اور اچھوتے گوشوں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے، آپ کی تحریروں میں قرآن سے براہ راست استفادہ کے ساتھ مستند مفسرین سے استفادہ کا عمدہ اور قابل تقلید نمونہ ملتا ہے۔ مستند احادیث اور فقہا کی آراء سے استناد بھی آپ کی تحریروں کی شان اور پہچان ہے۔ مولانا بڑے بلند اخلاق اور بے ضرر شخصیت رکھتے تھے۔ تواضع ان کی چال اور گفتار سے عیاں تھا۔

 

اپنی ان جیسی خوبیوں کی وجہ سے وہ ہر حلقہ میں محبوب اور ہر جگہ قابل احترام تھے۔۔

اب وہ گذر گئے تو دل فگار اور خامہ اشکبار ہے، غموں اور یادوں کا ہجوم ہے۔۔ زبان پر یہ نالہ ہے کہ؂

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے۔۔

سچ ہے کہ انا بفراقک لمحزونون۔

 

انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔

 

ہم دور بیٹھے غمگسار بارگاہ ایزدی میں مغفرت کے ہاتھ پھیلائے مولانا مرحوم کو سپرد خاک کرتے ہیں۔

Comments are closed.