یوم اساتذہ کی مناسبت سے

ساجد حسین سہر ساوی

5 ستمبر کو ہندوستان سمیت چند ممالک (یہ التزام اتفاقی ہے جبکہ وجوہات الگ الگ ہیں یعنی اسے عالمی یوم اساتذہ کہنا غلط ہے) میں "یوم اساتذہ” (ٹیچر ڈے) بڑے کروفر اور اہتمام و انتظام سے منایا جاتا ہے؛ چند دنوں قبل سوال آیا کہ "منانا کیسا ہے؟” ہم نے گول مول جواب دیتے ہوئے کہا "حدود کی پاسداری ضروری ہے” آج جبکہ مناتے دیکھا تو یقین ہوگیا کہ "ناجائز نہیں بلکہ حرام ہے (بلکہ حرام کاری اور حرام خوری ہے)” ؛ بہرحال یہ تو کار جہاں اور رسم دنیا ہے ہم جیسوں کا کہنا محض زیب داستان ہے دامن تو داغدار داغدار اور قلب و نظر تو چھلنی چھلنی ہے؛ اسلیے ہم بھی اسی بہاؤ میں تنکے کی مانند ہچکولے کھاتے ہوئے یاد ماضی سے نگار خانہء دل کو آراستہ کرتے ہیں ؛ یاران شاطر کا پتہ ہے وہ ہمیں گستاخی و شوخی سے اتہام کریں گے اور حد ادب ملحوظ خاطر رکھنے کی صلاح دیں گے جبکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ بیان حقیقت سے کنارہ کشی دل ناتواں کے بس کا نہیں.
"حفظ قرآن” کا زمانہ لاشعوری کا رہا، بہت کچھ بھولا جا چکا کچھ کچھ خانہء خیال میں نہاں ہے؛ تحریض کے واسطے کہا جاتا تھا: "ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں” لیکن نیکیاں سے زیادہ "چھڑیاں” ملتی تھی ، اسی بیچ انتقال مکان ہوتا رہا اور بعضوں کو دیکھا کہ اس نے صرف ہمیں نیکیوں سے مالا مال کرنا چاہا جبکہ ان کے خود کی جھولیاں خالی خالی رہتی؛ کمزوری اپنی کہیے یا نیکیوں سے زیادہ چھڑیاں دان دینے والوں کی کہ آج تلک "تلفظات” باعث سبکی ہیں؛ ” عربی درجات” کا آغاز "اعدادیہ” سے کیا، گرچہ یہ ایام بھی طفلانہ تھے؛ لیکن ہمیں "شعور” سے آشنائی وہیں سے حاصل ہوئی اور اسی جا سے یہ "عقدہ” کھلا کہ ہم جیسوں کے حصے میں بھی "ذہانت و فطانت” کا کچھ حصہ آیا ہے، وہاں کے "اساتذہ” اس لائق تھے کہ اسے یاد رکھا جائے اور ان کی منزلت حرز جاں ہو؛ لیکن مقدر نے یہاں بھی یاری نہ کی اور بلاوجہ ایک ایسے "استاذ” کے دست ستم کے حوالہ کر دیا کہ جس کے بعد اب تک اس جانب مڑ کر نہ دیکھا لیکن وہاں سے ہمیں بہت کچھ ملا بشمول شعور کی پختگی، اس سبب سے اس علاقے کی اہمیت ہمیشہ پیوستۂ جاں رہے گی؛ پھر جہاں جانا ہوا تین برس وہاں رہنا بھی ہوا ، وقت گزاری کے ساتھ ساتھ محض ورق گردانی ہوئی، پایا کم کھویا بہت کچھ، دینے والے کے پاس دینے کے واسطے کچھ تھا نہیں، یا تھا تو دینا چاہتے تھے نہیں، خوب یاد ہےکہ ماہرین فنون کی نیا "نحو و صرف” میں بھی ڈگمگانے لگتی تھی، ایک بار "القراءۃ الواضحۃ ثالث” کے منجھدار میں ہم سب پھنس گئے، امید حیات تازہ میں متعلقہ استاذ کے پاس جانا ہوا، کیا بتایا جائے کہ کس قدر طغیانی آئی ، اس تلاطم خیز طوفان کے بعد دوبارہ کبھی اس کتاب سے ہم کلامی نہ ہوئی؛ منطق کی پہلی کتاب سامنے آئی ، پڑھانے والے آتے جاتے رہے لیکن طلبہ کیا کہ خود مطلوب و مقری بھی درسگاہ تک آتے آتے اور آتے ہی رہے؛ پھر بفضل اللہ تعالیٰ و بلطفہ "مادر علمی” کا سفر درکار ہوا اور وہاں مدت مدید تک قیام پذیر رہا ؛ اس احاطے نے ہمیں بہت کچھ دیا اور وہ کچھ بھی دیا جس کی طلب و سعی نہ کی، یہ آخری پڑاؤ تھا جس نے جہاں بانی کا سبق پڑھایا اور عقل و شعور کے انتما کا درس دیا ؛ گر کوئی استاذ یا کہیں کے اساتذہ اس قابل ہیں کے اس کو مبارکباد دی جائے اور ان کے احترام و اکرام کا دن متعین کیا جائے تو بلا تردد و بلا دریغ یہاں کے اساتذہ کا مقام و مرتبہ سرفہرست رکھا جائے گا۔
اوپر مذکور جملہ معترضہ میں "حکم حرام کاری” ہر ایک کا مشاہدہ ہے بتانا اور درشانا تحصیل حاصل ہوگا، ہم نے آج دیکھا سبھی دیکھتے آرہے ہیں کہ "یوم اساتذہ” میں اساتذہ کو مبارک بادی اور اکرام و احترام کے سوا "سب کچھ” ملتا ، لذت کام و دہن کے علاہ جسمانی و روحانی سروس بھی خوب تر رہتی ہے، آج ایک ماسٹر صاحب سے _فراغت کے بعد_ ازراہ تفنن کہنا پڑا کہ: "ماسٹر جی! کیک کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے بعد جو گند رہ گئی تھی بہتر ہوتا کہ اسے بھی صاف کر ہی لیتے” ، شاید وہ میرے الفاظ و اشارات سمجھ نہ سکے البتہ توجہ دلانے پر دیکھا کہ صفائی کروا رہے تھے؛ اور "قضیۂ حرام خوری” بھی وضاحت طلب نہیں اسلیے کہ وہ بچے جسے کتاب کاپی قلم کیلیے والدین سے اصرار کرتے نظر آنا چاہیے تھا وہ گھر والوں کو مجبور کر رہے ہوتے ہیں کہ "استاد محترم” کو "گفٹ” دینا ہے "لین دین” کا یہ مسئلہ سنگین ہے یا باریک یہ تو اہل نظر ہی بہتر جانتے ہوں گے؛ بندہ بس اتنا عرض کرتا ہے: ” خدارا! اپنے بچوں کو اس وبا سے بچا لیجیے!!!”.

Comments are closed.