والدین: عظیم رشتہ، لازوال نعمت

 

تحریر: ابوشحمہ انصاری

سعادت گنج،بارہ بنکی

 

خالقِ کائنات نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، لیکن ان تمام نعمتوں میں سب سے انمول اور بے مثال نعمت والدین کا رشتہ ہے۔ یہ رشتہ انسان کی زندگی کی بنیاد ہے، جس پر اس کی شخصیت، تربیت، فہم و فراست، اور کردار کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ماں باپ صرف جنم دینے والے ہی نہیں ہوتے، بلکہ زندگی کے ہر نشیب و فراز میں راہ دکھانے والے چراغ، صبر کا پہاڑ، اور محبت کا سمندر ہوتے ہیں۔

ماں کا وجود الفت، قربانی اور دعا کا مرقع ہوتا ہے۔ اس کی گود وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں انسان بولنا سیکھتا ہے، محبت پاتا ہے اور زندگی کا پہلا سبق لیتا ہے۔ ایک ماں اپنی اولاد کے لیے دن رات ایک کر دیتی ہے۔ جاگتی آنکھوں سے خواب بناتی ہے اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے خود کو وقف کر دیتی ہے۔ وہ دکھ سہتی ہے، تکلیف جھیلتی ہے لیکن کبھی شکوہ نہیں کرتی۔

باپ، وہ عظیم ہستی ہے جو خاموشی سے اپنے خوابوں کو قربان کر کے اولاد کے مستقبل کو سنوارتا ہے۔ وہ پسینہ بہاتا ہے، تھکن سہتا ہے، لیکن اولاد کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر سب بھول جاتا ہے۔ باپ کی شفقت و قربانی اکثر لفظوں سے اوجھل رہتی ہے، مگر وہی انسان کی کامیابی کے پسِ پردہ سب سے بڑی قوت ہوتی ہے۔

دینِ اسلام میں والدین کی عظمت کا مقام انتہائی بلند ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت میں ارشاد ہے کہ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا بلکہ ان سے نرمی سے بات کرنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور سیرتِ طیبہ سے بھی والدین کی عظمت کا واضح پیغام ملتا ہے۔ ایک صحابی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تیری ماں”، پھر فرمایا: "تیری ماں”، تیسری مرتبہ بھی فرمایا: "تیری ماں”، اور چوتھی بار فرمایا: "تیرا باپ”۔ اس حدیثِ مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماں اور باپ دونوں کا مرتبہ کس قدر بلند ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ موجودہ دور میں والدین کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ تیزی سے بدلتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا، مصروف زندگی اور مادہ پرستی کی دوڑ نے نئی نسل کو اس بنیادی رشتے سے دور کر دیا ہے۔ ماں باپ جو کل تک بچوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے دن رات ایک کرتے تھے، آج ان کی بات سننے والا کوئی نہیں۔

تحقیقات بتاتی ہیں کہ معاشرتی تناؤ اور ذہنی دباؤ کی ایک بڑی وجہ والدین اور اولاد کے درمیان جذباتی فاصلہ ہے۔ اولاد کی مصروفیت اور بے اعتنائی سے والدین خود کو تنہا، بوجھ اور غیر ضروری محسوس کرنے لگتے ہیں، جو کہ ایک تہذیب یافتہ معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بچپن ہی سے والدین کی عزت، خدمت اور محبت کا درس دیں۔ اسکولوں، دینی مدارس اور تعلیمی اداروں میں ایسے موضوعات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے جو والدین کی قدر و منزلت سے روشناس کرائیں۔

ماہرینِ نفسیات کا ماننا ہے کہ والدین کی قربت نہ صرف جذباتی توازن برقرار رکھتی ہے بلکہ بچوں کی شخصیت کو متوازن اور کامیاب بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ والدین کی دعائیں اور تجربات زندگی کے نشیب و فراز میں رہنمائی کا کام دیتے ہیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ والدین کی رضا میں خدا کی رضا پوشیدہ ہے۔ ان کی خدمت، خوشنودی اور عزت دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی کنجی ہے۔ اگر والدین حیات ہیں تو ہمیں ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے، ان کی باتیں سننی چاہیے، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے، اور ان کی دعاؤں کا سہارا لینا چاہیے۔

اور اگر والدین اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں، تو ان کے لیے ایصالِ ثواب، دعائے مغفرت، اور صدقہ جاریہ جیسے اعمال کو اپنایا جائے تاکہ ان کے درجات بلند ہوں اور ہماری طرف سے محبت و عقیدت کا رشتہ کبھی منقطع نہ ہو۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ والدین زندگی کا وہ سرمایہ ہیں جس کی قدر وہی جانتا ہے جو اس سے محروم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں والدین کی خدمت و اطاعت کی توفیق عطا فرمائے، ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور ہمیں ان کی دعاؤں کا مستحق بنائے۔ آمین۔

Comments are closed.