اے ایم یو وائس چانسلر تقرری تنازعہ : الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اوّلین خاتون وائس چانسلر کی تقرری کو درست ٹھہرایا

 

علی گڑھ(ایجنسی) الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے طور پر پروفیسر نعیمہ خاتون کی تقرری کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں خارج کرتے ہوئے ان کی تقرری کو درست ٹھہرایا ہے۔

ایک ممتاز علمی شخصیت پروفیسر نعیمہ خاتون جو اے ایم یو کے ویمنس کالج کی سابق پرنسپل ہیں، نے یونیورسٹی کی سو سال سے زائد کی تاریخ میں پہلی خاتون وائس چانسلر بن کر تاریخ رقم کی۔ عدالت نے اس تقرری کی معنویت کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ قدم صنفی شمولیت اور اعلیٰ تعلیم میں خواتین کی قیادت کو فروغ دینے کے آئینی مقصد کی جانب ایک مؤثر پیش رفت ہے۔

جسٹس اشونی کمار مشرا اور جسٹس ڈی رمیش کی ڈویژن بینچ نے وائس چانسلر کے انتخاب کے پورے عمل کا گہرائی سے جائزہ لیا اور یہ فیصلہ صادر کیا کہ اس عمل میں اے ایم یو ایکٹ اور ضوابط و قواعد کے تحت مقرر کردہ تمام طریقۂ کار کی مکمل پاسداری کی گئی۔ عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اگرچہ پروفیسر خاتون کے شوہر پروفیسر محمد گلریز نے قائم مقام وائس چانسلر کی حیثیت سے ایگزیکیٹیو کونسل اور یونیورسٹی کورٹ کی میٹنگز کی صدارت کی، تاہم ان کا کردار محدود تھا اور انھوں نے انتخاب کے کثیر سطحی، جمہوری عمل کو متاثر نہیں کیا۔
یونیورسٹی وزیٹر صدر جمہوریہ ہند نے کی تقرری

عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وائس چانسلر کی تقرری کا حتمی اختیار یونیورسٹی وزیٹر یعنی صدر جمہوریہ ہند کو حاصل ہے اور اس سطح پر کسی بدنیتی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔ فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پروفیسر نعیمہ خاتون کی قابلیت اور اہلیت پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور ان کی تقرری، جو ملک کی اعلیٰ ترین آئینی اتھارٹی کی منظوری سے ہوئی ہے، احترام اور اعتراف کی مستحق ہے۔

وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:”میں ہمیشہ عدلیہ کی آزادی اور اس کی دیانت داری کا بہت احترام کرتی ہوں اور اس پر مکمل اعتماد رکھتی ہوں۔ یہ فیصلہ صرف میری ذاتی کامیابی نہیں بلکہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی نظام میں ادارہ جاتی عمل اور جمہوری اقدار کی توثیق ہے۔
یونیورسٹی کی خدمت کو علمی ترقی کے وژن کے ساتھ جاری رکھوں گی.

وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے کہا کہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی خدمت کو اخلاص، شفافیت، اور جامع علمی ترقی کے وژن کے ساتھ جاری رکھوں گی۔ میری یہی تمنا ہے کہ یہ فیصلہ سبھی متعلقین کے لیے اعتماد کا باعث بنے اور علم، انصاف اور ترقی کی ہماری مشترکہ میراث کو برقرار رکھنے کے مشن کی تجدید کرے“۔

Comments are closed.