Baseerat Online News Portal

ایک سندیافتہ عالم دین کی خودکشی امت مسلمہ کیلئے لمحۂ فکریہ

مکرمی!
اس وقت پوری دنیاافراط وتفریط کاشکارہے،ایسالگ رہاہے کہ دنیا ہرچہارجانب اپنی بےسکونی کی چادرپھیلاچکی ہے،اطمینان قلب کاجولفظ لغات وڈکشنری میں تھا وہ بےمعنی ہوچکاہے، پڑوسی کاحق شفعہ توچھوڑیئےبیماری میں عیادت بھی اب فضول لگنےلگاہے ،نیز جب سے وبائی مرض کورونانے اپنی دہشت اورقیامت صغری کامنظر پیش کیاہے اس وقت سے ایسالگتاہے کہ اب کوئی کسی کاپرسان حال نہیں ہے،تمہیں مرضی ہے جب تک جیناہے جیوورنہ اپنی موت بھی مروگےتو کوئی افسوس کی بات نہیں ہے ،ہمارےدرمیان سے ایک سندیافتہ عالم دین حضرت مولانامحمدصادق صاحب ندوی سنبھلی جوایک دردناک طریقے سے ٹرین کی زدمیں آکر اپنی زندگی کاخاتمہ کربیٹھے،سوشل میڈیاکازمانہ ہے ،آج ہرایک کےہاتھ میں موبائل ہے چاہے وہ دودھ پیتابچہ ہو یا اپنی زندگی کی طویل عمریں گذارکر آرام کی خواہش کرنیوالاضعیف العمرشخص سب نےدیکھاہوگا اوراس کوکارثواب سمجھ کر ایک دوسرےکوارسال بھی کیاہوگا سوچنےکامقام یہ ہےکہ آخر یہ حادثہ فاجعہ کیسےہوا ،کیاوجہ تھی کہ ایک عالم دین جو وارثین انبیاءہےاپنی زندگی سے مایوس ہوکر ایسادردناک قدم اٹھانےپرمجبورہوا،تلاش وجہ توضروری ہےکہ جو شخص اللہ کی رحمت سےمایوس نہ ہونےکادرس دیتاہومگروہ خود پوری قوم کوحیرت زدہ کرکے ناامیدہوگیاسوشل میڈیاپرمختلف وجوہات پیش کی جارہی ہے کہ وہ ذہنی توازن کے شکارہوگئے تھے،ان کی اہلیہ محترمہ ان کی آمدنی سے زیادہ اپنی خواہشات پیش کیا کرتی تھی،سب سے بڑی وجہ یہ بھی آرہی ہےکہ وہ کسی مدرسےمیں مدرس تھے مگروہاں سےنکل گئے یانکال دئیےگئے،امامت کےمنصب پرفائزہوئےاوروہاں سے بھی سبکدوش کردئیےگئے ،بعدہ اپناکچھ کاروبارشروع کیا جس میں وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے ،باکمال اساتذہ میں سے تھے اورذہین بھی یہی وجہ ہےکہ وہ علوم عربیہ کیساتھ انگریزی میں بھی مہارت تامہ رکھتےتھے ،غوروفکرکامقام تویہی ہے کہ جو ان کےگھریلواخراجات کےذرائع تھے جس کیلئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کی تھی مدارس ومساجد وہاں سےہی سبکدوش ہوں گے تو یہ ذہنی دباؤ، زندگی کی الجھنیں توشروع ہوں گی، اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ فی الوقت حالات ہرجگہ دگرگوہےمگرایسے حالات پیش آنےکےباوجود اس وقت مساجد ومدارس کاجومنظرنامہ ہے وہ قابل افسوس بھی ہے اوردردناک بھی ،آج امام کی کیاحیثیت ہے، اورانہیں کیامقام دیاجارہاہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ،اس کو صرف ایک حادثہ اور خودکشی پر ہی محمول نہ کریں بلکہ پوری امت مسلمہ خصوصااہل علم جن کے تعلقات وسیع ہے اوراہل ثروت اس پر غوروفکرکریں ،کیوں کہ یہ کوئی چھوٹاواقعہ نہیں ہے جسے نظراندازکردیاجائے،اگرآج ہم نے اپنےعلمائےکرام وائمہ عظام سے دلی محبت اوران کااحترام نہیں کیا ان سے ہم لاابالی کی طرح پیش آتےرہیں،اورانہیںمعاشرے کاسب سے غریب وکمزورطبقہ سمجھتےرہے تو یادرکھنا بغدادواندلس اورسمرقندوبخاراکےکس طرح پڑخچےاڑادئیےگئےجواپنےوقت میں علم کےڈنکےبجارہےتھےاوریکےبعددیگر علم کےجیالے اپنی علمی روشنیاں بکھیررہےتھے،مگر قدرنہیں کی توایک وقت ایسابھی آیاکہ حصول علم کیلئے ترستےرہ گئے ، ابھی بھی وقت ہےہم اپنےعلماوحفاظ اورائمہ کرام کی قدرکریں ،انہیں اپنی نگاہوں میں نگینہ بناکےرکھیں،اسی میں ہماری عافیت ہیں۔
محمدطفیل ندوی

Comments are closed.