Baseerat Online News Portal

طاقت ور مؤمن (۲)

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

 

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد اور رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان میں آج ہمیں اپنی تصویر دیکھنی چاہئے ، ہندوستان میں ہم ایک ایسی اقلیت ہیں ، جو دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود سیاسی حصہ داری ، معاشی ترقی ، تہذیبی و ثقافتی تشخص ہر میدان میں محرومی کا شکار ہے ، اقلیتیں اگر سماج میں با عزت مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں تو اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اکثریت کے برابر یا اُس سے بڑھ کر محنت کریں ، پندرہ فیصد مسلمانوں میں پائے جانے والے نو جوان جب تک اتنی محنت نہ کریں کہ ان کی محنت بحیثیت مجموعی اکثریت کے برابر ہو جائے یا اُن سے بھی بڑھ جائے ، جب تک وہ دوسری قوموں کی برابری میں نہیں آ سکتے ، اُنھیں اپنے حصے سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا ، جب ہی وہ اُس قوم کی برابری کر سکتے ہیں ، جو تعداد و مقدار کے اعتبار سے اُن سے بڑھی ہوئی ہے ، ہندوستان میں جتنے سرکاری و غیر سرکاری کمیشن بنے ہیں اور اُنھوں نے مسلمانوں کے حالات کا تجزیہ پیش کیا ہے ، وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم سے محرومی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ مسلمان بچوں میں ذہانت نہیں ہوتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بچے تعلیم کا ایک مرحلہ پورا کر کے دوسرے مرحلے میں قدم رکھنے کا حوصلہ ہی نہیں پاتے ، وہ درمیان میں سلسلۂ تعلیم کو ختم کر دیتے ہیں اورجب وہ تعلیم میں پیچھے ہوتے ہیں تو آہستہ آہستہ زندگی کے تمام گوشوں میں پسماندہ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

تعلیم میں پسماندگی کا بنیادی سبب تعلیمی تسلسل کو برقرار نہ رکھ پانا ہے ، مسلمان بچوں کی بڑی تعداد ساتویں آٹھویں کلاس تک پہنچ کر تعلیم ترک کر دیتی ہے اور میٹرک تک بھی اُن کے پہنچنے کی نوبت نہیں آتی ، اُس کے بعد ایک بڑی تعداد جو میٹرک کرتی ہے ، وہ اُس سے آگے نہیں بڑھتی ، ہر مرحلہ پر یہی صورت حال پیش آتی ہے ، یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم میں اُن کا تناسب کم سے کم ترین ہو جاتا ہے ، تعلیمی تجزیہ کاروں نے لکھا ہے کہ آئی اے ایس ، آئی پی ایس وغیرہ میں مسلمانوں کی تعداد اِس لئے کم نہیں ہوتی کہ اُن کی کامیابی کا تناسب اکثریتی فرقہ کے طلبہ سے کم ہوتا ہے ؛ بلکہ یہ تعداد اِس لئے کم ہوتی ہے کہ اِن امتحانات میں شرکت کرنے والے مسلمان طلبہ کی ہی تعداد کم ہوتی ہے ، جب وہ کم تعداد میں شریک ہوں گے تو ظاہر ہے کہ کامیابی میں بھی اُن کا تناسب کم ہوگا ، اس تعلیمی انقطاع کو روکنا مسلمانوں کے لئے ایک قومی فریضہ ہے ، یہ اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں میں بھی حصول تعلیم کا جذبہ بڑھ رہا ہے ، سِلَم آبادیوں میں زندگی گزارنے والے غریب مسلمان بھی اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے لگے ہیں ؛ لیکن مشکل یہی ہے کہ چند ہی زینوں پر چڑھنے کے بعد طلب علم کا یہ مسافر حوصلہ کھو دیتاہے اور وہ اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری نہیں رکھ پاتا ، اِس کے بنیادی اسباب دو ہیں :

ایک : یہ کہ غریب ماں باپ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اُن کا بچہ پچیس پچاس روپئے کمانے لگے اور اپنے ماں باپ کے ہاتھ مضبوط کرے ، پنکچر کی دکان سے لے کر موٹر میکانک تک کی دکانوں کو دیکھ جائیے ، نیز ہوٹلوں اور ڈھابوں کا جائزہ لیجئے کہ وہاں میزیں صاف کرنے ، برتن دھونے اور موٹا جھوٹا کام کرنے والے کم عمر بچے کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں ؟ ہرجگہ نوے فیصد سے زیادہ مسلمان بچے ملیں گے ۔

دوسرے : فقر و محتاجی اور مفلسی ، کتابوں کی قیمت ، تعلیم کی فیس ، یونیفارم کی خریداری ، سال دو سال تو غریب مزدور کسی طرح برداشت کر لیتے ہیں ؛ لیکن پھر اُن کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور اُن کو یقین ہو جاتا ہے کہ ہمارے باغ میں جو غنچہ آیا ہے ، کھِلنا اور پھول بننا اُس کے لئے مقدر نہیں ہے ، جس طرح ہم نے اپنی زندگی گزاری ہے ، اِن کو بھی کانٹوں کے اِسی بستر پر اپنی زندگی گزارنی ہے ، یہ دو بنیادی اسباب ہیں جو مسلمان بچوں کو تعلیم میں پست سے پست تر کرتے جا رہے ہیں ۔

اس بیماری کا علاج کیا ہو ؟ بنیادی طور پر اس سلسلہ میں تین نکات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے :

اول : مسلمانوں کے غریب اور مزدور طبقے کی تربیت اور اُن کو سمجھانا کہ فاقوں کو گوارا کر لو ، پھٹے پرانے کپڑوں پر عید و بقر عید گزار لو ، ذاتی مکان کے بجائے کرائے کی جھونپڑی میں اپنا سر چھپا لو ، سادگی سے شادی کی تقریب انجام دو ؛ لیکن کسی قیمت پر اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم نہ رہنے دو ؛ تاکہ بالآخر تم غربت سے مرفّہ الحالی کی طرف اور پستی سے بلندی کی طرف سفر کر سکو ، مدینہ میں فاقوں کی نوبت تھی ، بدر میں جو جنگی قیدی آئے آپ ﷺ اُن کو مالی فدیہ دینے پر مجبور کر سکتے تھے ؛ لیکن آپ نے بچوں کی تعلیم کو فوقیت دی اور جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اُن کے لئے دس دس مسلمان بچوں کی تعلیم کو فدیہ قرار دیا ، اس میں سبق ہے کہ مسلمان فاقہ مستی کو تو گوارا کر لے ؛ لیکن علم سے محرومی کو گوارا نہیں کرے ۔

دوسری ضروری بات یہ کہ مسلمانوں میں تعلیمی کفالت کا مزاج پیدا ہو ، جو لوگ اصحابِ ثروت اور ارباب ِگنجائش ہوں ، وہ اپنے خاندان ، اپنے سماج اور اپنے پڑوس کے ایسے ایک دو بچوں کی کفالت اپنے ذمہ لے لیں ، جن کا سلسلۂ تعلیم غربت کی وجہ سے منقطع ہو رہا ہو ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے حضرت علیؓ کی پرورش اپنے ذمہ لے لی تھی ، اسی طرح حضرت عباسؓ نے حضرت ابوطالب کے ایک اور صاحبزادے حضرت جعفرؓ کی پرورش اپنے ذمہ لے لی ، یہ تعلیم و تربیت کے لئے کفالت کی ایک مثال ہے اور اس مثال کو مسلمانوں میں عام کر نے کی ضرورت ہے ، اس طرح بہت سے بچے علم کے زیور سے آراستہ ہو سکتے ہیں اور اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں ۔

تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ اِس وقت بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں حکومت کی طرف سے جو سہولتیں دی گئی ہیں اور اقلیتوں کے لئے جو خصوصی رعایتیں کی گئی ہیں ، غریب اورناواقف مسلمانوں کے لئے اُن سے فائدہ اُٹھانے کا انتظام کیا جائے اور معلومات فراہم کی جائیں ، بد قسمتی یہ ہے کہ ایسی اسکیموں تک مسلمانوں کی رسائی نہیں ہو پاتی اور وہ اپنے جائز حق سے فائدہ نہیں اُٹھا پاتے ؛ حالاںکہ آج کل بہت سی ایسی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں کہ غریب سے غریب انسان بھی اپنے بچوں کو ضروری حد تک تعلیم دلا سکتا ہے اور غربت اُس کے عزم و ارادہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کو طاقتور مؤمن بنائیں ، اُس کو ضعف و کمزوری اور پستی سے باہر لائیں ، اُس کے لئے باعزت اور آبرو مندانہ زندگی فراہم کریں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ جہالت اور علم سے محرومی کی اس بیماری کو دُور کرنے کے لئے اُمت کا ایک ایک فرد اس طرح اُٹھ کھڑا ہو جیسے کسی جاں بلب انسان کو بچانے کے لئے ہر سلیم الفطرت انسان دوڑ پڑتا ہے ، کاش ! یہ دعوت کانوں اور آنکھوں سے گذر کر دلوں تک پہنچ سکے اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر سکے ۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.