بیوہ عورت کا دکھ

آمنہ جبیں
قلم کو توڑ دوں گی یا کوشش کروں گی کہ حق بیاں ہو جائے۔
درد کی زبان نہیں ہوتی لیکن اس کے اثر ، چہرے ، آنکھوں اور جسموں سے واضح نظر آتے ہیں۔ بشرطیکہ کوئی چہروں کو پڑھنے کا ہنر رکھتا ہو۔
عورت جسے صنف نازک تصور کیا جاتا ہے۔ ہاں وہ نازک ہے۔ کیونکہ محبت کا پیکر بنا کر تخلیق کی گئی ہے۔ احساسوں میں گوندھی ہوئی ہے۔ چاہت کی تصویر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا میں دو چیزوں کو اپنی محبوب ترین چیزیں قرار دیا جس میں ایک عورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کے بارے میں اللّٰه سے ڈرنے کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ عورت کی تخلیق کتنے نازک point سے ہوئی ہے۔
یعنی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی کا اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہوتا ہے۔ اگر انسان اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا کہ یہ اپنی اصل میں آ جائے تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اور اگر ٹیڑھے پن کی وجہ سے ویسے ہی چھوڑ دے گا، کنارہ کر لے گا، تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا عورت جیسی ہے اس سے ویسے ہی فایدہ اٹھایا جائے۔ اس سے ویسے ہی حسنِ سلوک کیا جائے صحیح مسلم کی حدیث کی یہ کچھ تشریح ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ عورت کو بے یارو مددگار تو کبھی نہیں چھوڑا جا سکتا، ہاں البتہ اسے حسن سلوک، یعنی care,love, attention سے درست رکھا جا سکتا ہے۔ عورت عقل میں ناقص ہے۔ اس میں سمجھ بوجھ کی بھی کمی ہے۔ طاقت کی بھی کمی ہے۔ حافظہ بھی مرد سے کم ہے۔ یعنی عورت ایسی تخلیق ہے جسے محبت سے ہی handel کیا جا سکتا ہے۔ اسے سمجھ کر ہی اسے سمجھایا جا سکتا ہے۔ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس کی خوب مثال اپنی ازواج مطہرات سے حسن سلوک اختیار کر کے ہمارے لیے نمونہ چھوڑا ہے۔ بیٹی کو بھی عزت و محبت کے منصب پہ مان دے کر ہمیں سمجھایا کہ عورت کے ساتھ کسی بھی روپ میں ہو تو کیسا برتاو کرتے ہیں۔
آج میں کسی اور عورت کی بات نہیں کروں گی۔ معاشرے کی پسی ہوئی عورت، جی ہاں! معاشرے کی تنگ نظری میں پسی ہوئی بیوہ و طلاق یافتہ عورت کی بات کر رہی ہوں۔ زمانہ جاہلیت میں بیوہ عورت کی کوئی عزت کوئی حقوق نہ تھے۔ بلکہ عدت پوری ہونے کے بعد اسے کسی بھی انسان سے بیاہ دیا جاتا تھا، وہ سوتیلا بیٹا ہو، کوئی قریبی رشتہ دار یا محرم اقارب ہوں۔ اس کی بیوگی کو اس کے ماتھے کا داغ بنا کر عمر بھر ماتحت رکھ کر گھٹنے دبوائے جاتے۔ اس کی جائیداد و حقوق سلب کر لیے جاتے تھے۔ جینے کا حق چھین کر کسی کال کوٹھڑی میں بند کر دیا جاتا۔ بیوگی کے بعد عورت چاہے بھی تو نکاح نہیں کرنے دیا جاتا تھا۔ تا کہ جائیداد کوئی اور ہڑپ نہ کر لے۔ اور عزیز و اقارب کے کلیجے اس جائیداد سے تر و تازگی پکڑتے رہیں۔ یوں بیوگی یا طلاق عورت کے لیے ایک داغ ایک دھبہ تھا۔
آج کیا ہے !؟
آج میرے معاشرے میں پھر یہی روایت زور پکڑ رہی ہے۔ طلاق یافتہ کو تو پھر شادی کرنے دے دی جاتی ہے۔ لیکن بیوہ سے یہ حق اس کے گھر والے ، اردگرد والے سب چھین کر اسے مجرم بنا کر عمر بھر کٹہرے میں کھڑا رکھتے ہیں۔ جیسے یہ بیوگی اس کا جرم ہو۔ جیسے اس نے خود اپنے سہاگ کو زمین کی نظر کیا ہو، جیسے خود اس نے خود کو بیوہ کیا ہو۔ ہاں یہ بجا ہے۔ کہ اگر عورت بیوہ ہے، اور اس کے بچے بھی ہے۔ بچوں کی خاطر وہ شادی سے رک جاتی ہے۔ تو اس کے لیے بہت اجر ہے۔
ارشاد نبوی ہے : میں اور سوکھے گالوں والی وہ عورت قیامت کے دن ان دو انگلیوں کی طرح ہونگے وہ حسن و جمال اور جاہ و عزت والی بیوی جو شوہر کے بعد بیوہ ہوجائے لیکن اپنے ننھے یتیم بچوں کی خدمت کے خاطر رکی رہے ۔ [ ابوداود ، مسند احمد : 6/29 ، بروایت عوف بن مالک]
یعنی بیوہ عورت اگر شادی نہیں کرتی عمر بھر صبر کرتی ہے۔ کسی کے کہنے پہ نہیں ، بلکہ اپنی مرضی سے تو اس صبر کا اس کے لیے بہت اجر ہے۔ یاد رہے ، اس حدیث میں صرف عورت کی مرضی کو dependency دی ہے۔ کہ وہ چاہے تو یہ کر سکتی ہے۔ اور چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔ زور زبردستی کہیں نہیں ہے۔ ولی تو کبھی بھی عورت کو اس چیز پہ مجبور نہیں کر سکتے۔ کہتے ہیں، ہماری عزت کا مسلئہ ہے۔ شادی کا نام نہ لینا، واللّٰہ!!!
اس میں کیسی عزت ہے۔؟ کیا وقار اس چیز میں ؟ عجیب حقیر سوچ پال رکھی ہے۔ عورت کا نکاح ولی کے بغیر نہیں ہو سکتا، لیکن اگر عورت نکاح چاہتی ہے۔ تو گھر والے اسے زبردستی روک نہیں سکتے۔ اس پہ نکاح نہ کرنے کا جبر عائد نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ حق تو اسے دین نے دیا ہے۔ اللّٰه نے دیا ہے۔ جب ایک چیز پہ روک اللّٰه نے نہ رکھی، اس میں سے آپ نے اپنی عزت کا element کیسے نکال لیا؟ اپنے گھر لٹیں تو خبر ہوتی ہے۔ کسی کا دکھ کون جانتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : وانکحوا الایامی منکم و الصالحین من عبادکم و اماتاکم ان یکونوا فقراء یغنھم اللہ من فضلہ [ سورۃ النور : ] تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں انکا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس بھی ہونگے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنادے گا ۔
یہ آیت ہر بے نکاح مرد اور عورت کے لیے ہے۔ صرف کنواروں کے لیے نہیں ہے۔
پتہ یہ سوچ کیوں ہے؟ اس لیے کہ لوگ سمجھتے ہیں۔ عورت کا کام صرف بچوں کی پیدائش ہے۔ اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ جب وہ پھر بچوں کے ساتھ بیوہ ہوتی ہے۔ تو مطلب بچے تو پیدا ہو گئے۔ وہ تو مل گئے، اب شادی کیوں کرنی ہے۔ شادی کی اب پیچھے ایک ہی وجہ بچتی ہے، وہ ہے نفسانی خواہش کی تکمیل کی خاطر نکاح کرنا اور مرد کے مضبوط سہارے کی خاطر نکاح کرنا، اور معاشرہ ان خواہشات کو عورت کے لیے عیب بنا دیتا ہے۔ یا یہ وجہ ہوتی ہے۔ کہ بچے رُل جائیں گے۔ ان کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ تو عورت کے والدین ، بچوں کے باپ کے والدین اور یہ معاشرہ سویا ہوا ہے؟ وہ مل کر ان کی کفالت نہیں کر سکتا، اس میں مدد نہیں کر سکتا، آج کے مردوں کو چار چار شادیوں کا بڑا شوق ہے۔ کیا ایک شادی معاشرے کی بیوہ سے نہیں کر سکتے ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو کئی بیواؤں سے شادی کی ہے۔ ان کی سنت پہ چلنے کی خواہش رکھتے ہو، تو انہیں کے طریقے کے مطابق چلو، اس معاشرے کی بیوہ کا بھی خوشیوں پہ حق ہے۔ اس کے بھی جذبات ہیں۔ اس کے بھی احساسات ہیں۔ اسے بھی محبت و الفت کی ضرورت ہے۔ خود ایک پہ اکتفا نہیں کر سکتے ہو، اور بیوہ کو ایک کا بھی بیک وقت حق نہیں دیتے ہو،
ارشاد نبوی ہے : بیواوں اور مسکین کی خبر گیری کرنے والا ،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ [ صحیح بخاری و صحیح مسلم ]
بیوہ کی خبر گیری اس کی ضروریات کو خیال رکھنا ، اس کے بچوں کی کفالت کرنے پہ جو اجر عام بندے کے لیے ہو گا۔ چاہے وہ کوئی گھر والا ہو، یا کوئی غیر احساس مند انسان اجر پائے گا۔ تو اگر تم اس بیوہ سے شادی کر کے اس کی کفالت کر لو گے۔ تو تمھیں بھی میرا رب یونہی بے اجر نہ چھوڑے گا۔ تمھارے لیے بھی کثیر اجر ہو گا ان شاءاللہ،
آج کی بیوہ کی جب شادی نہیں ہو رہی، تو وہ اپنا آپ گناہوں میں جھونکتا ہوا محسوس کر رہی ہے۔ خدا کے بندوں!!!! ہر طرف فتنے ہیں۔ نفسانی خواہش کی تکمیل کے بغیر سیدھے راہ گناہوں کی طرف کھلتے ہیں۔ ہر طرف بے حیائی ہے۔ نفس کو ابھارنے والی چیزیں گردش کر رہی ہیں۔ ایسے میں تم سمجھتے ہو بیوہ عورت کو مرد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ چپ کر کے زندگی گزار لے۔ یعنی خواہشوں کا گلا گھونٹ دے۔ یعنی گناہ میں پڑ جائے ، خود کو برباد کر بیٹھے۔ اور جنسی خواہش تو فطری ضرورت و عمل ہے۔ اس کو اللّٰه نے انسان میں رکھ دیا ہے۔ تو بھلا اس پہ وہ صبر انڈیلنا کیوں چاہتے ہوں۔ جسے باہر کی اس معاشرے کی بری ہوا چیر کر اندر سے گزر جائے۔ وہ بیوہ عورت کتنے خواب کو قبر کی دسترس میں دے۔ یعنی شوہر تو سپرد خاک ہوا ہی ہوا، اپنی خواہشوں کو بھی کر دیا
تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ (سورة البقرة : 232 )
ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو
طلاق یافتہ ہو یا بیوہ عدت گزرنے کے بعد جہاں چاہے شادی کر سکتی ہے۔ اگر اللّٰه نے ولی کو کچھ اختیارات دیے ہیں۔ تو ان کا ناجائز فایدہ اٹھا کر خود کو مسند ِ انصاف پہ نہ بٹھا چھوڑیں۔ جہاں ان کی اپنی انا کی تسکین کے علاؤہ کچھ بھی نہیں ملتا، ہم سب معاشرے والے اسی بیواؤں اور طلاق یافتہ عورت کے مجرم ہیں۔ جو آنکھوں میں آنسوؤں چھپائے عزت کی آڑ میں سسکیاں بھرتی ہے۔ جس کی راتیں جاگ کر کسی جکڑی زنجیر میں گزرتی ہیں۔ جس کے آگے ایک طویل زندگی پڑی ہے اور وہ صبر کی منازل طے کرنے سے قاصر ہے۔ جو اپنوں کی وجہ سے شادی نہ کر پائی، مگر گناہ میں پڑ گئی۔ جس کے نفس نے حلال سے نہیں حرام راہ سے تسکین پائی۔ ہم سب اسے کے مجرم ہیں۔ نہ مانیں پھر بھی ہم ہی مجرم ہیں۔ کیونکہ ہمیں اس کا درد نظر نہ آیا، ہماری آنکھیں بند رہیں۔ ہم نے اس کی چپ کو صبر سمجھ لیا، تڑپ نہ سمجھا، ہم نے اس کی آہوں کو پرانی بھولی بسری یاد سمجھ لیا، لیکن موجودہ اذیت کی طرف دھیان نہ دیا،
ارشاد نبوی ہے : کنواری لڑکی کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے اور بیوہ کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے ۔ [ صحیح بخاری و صحیح مسلم ، بروایت ابو ہریرہ ] عورت کو نہ نکاح سے روکا جا سکتا ہے۔ نہ اپنی مرضی سے کسی کے پلے باندھا جا سکتا ہے۔ یوں تو بیوہ عورت جذبات کو دبائے یا ذہنی مریضہ بن جائے گی۔ یا جسمانی بیماریوں کا شکار خود کو کھو دے گی۔ چپ کی چادر اوڑھ لے گی۔ درد کی شدت سے برباد ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ بھی انسان ہے۔ اسے بھی محبت ، پیار، بھرم، مان، سہارے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنے والے جو ہوتے ہیں۔ کہ شادی نہ کرو، خود تو اپنی اپنی زندگیوں میں مگن رہتے ہیں۔ اس کا غم گسار کوئی نہیں بنتا، اس کی آنکھوں کی نمی کوئی بھی نہیں دیکھتا، وہ سب اکیلے سہتی ہے۔ جیتی ہے، مرتی کڑتی رہتی ہے۔
خدارا!!!
جاگ جاؤ، اور عورت کو جینے کا جائز حق دو، اس پہ ظلم نہ کرو ، یہ سخت ظلم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کہ عورتوں کے بارے میں اللّٰه سے ڈرو، اسے اپنی نس نس میں دوڑا لو، اور بعض آ جاؤ،
عورت کی جائیداد کو اس کے مال کو ہڑپ کرنے کی نیت سے نہ والدین نہ سسرالی اسے اپنے گھر ہی رکھ چھوڑنے پہ مجبور نہ کریں۔ کیونکہ میرا رب اس کی اجازت نہیں دیتا،
ارشاد باری تعالی : ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما آتیتموھن ۔ [ النساء ] ، انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو
معذرت کے ساتھ تف ہے پھر اس مردانگی پہ، جس نے اپنی تسکین کی خاطر کسی بیوہ کو سہارا نہ دیا، مگر چار کنواریوں سے شادی رچا لی،
آہ کہ عورت تو تمھارے سپرد کی گئی تھی۔ تمھیں سونپی گئی تھی۔ تم نے اسے محفوظ پناہ دینی تھی۔ تم نے تو سر عام ہی اسے انگاروں پہ دہکتے چھوڑ دیا، اپنی زمہ داری سے دستبردار ہو گئے۔ عورت جیسے تحفے کی جو صرف تمھاری خاطر تخلیق ہوئی، تمھیں اس کی قدر نہ کرنی آئی، اس کے حقوق میں تم نے اپنا سینہ فراخ نہ کیا، بلکہ تنگ نظری میں انہیں حقوق کو چبا چبا کر ہڑپ کر بیٹھے۔ خود کو عورت پہ حاکم مت سمجھو، تم تو صرف عورت کے محافظ اور اس سے درجے میں اونچے ہو۔ عورت اس درجے کو رد نہیں کرتی، ہاں لیکن !!!! تم اسے اس کا مان، بھرم، اس کا وقار، اس کی خواہشیں جو صرف تم سے وابستہ ہیں۔ وہ لوٹا دو،
اپنے ارگرد کوئی بیوہ ہے ناں، تو اس کا حال پوچھیں، یہ ہم سب کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اس کی خواہشیں سنیں، وہ کیا چاہتی ہے۔ اسے کیا مشکل ہے۔ وہ کیا درد سہ رہی ہے۔ اسے اس معاشرے سے کیا گلے ہیں۔ کیونکہ خود وہ کبھی نہیں بتائے گی۔ ہاں لیکن !!!! جب اس کے سر پہ ایک شفقت والا ہاتھ اس سے محبت کی پناہ میں لے کر اس سے سنے گا، کہ اے صنف نازک کیا چاہتی ہے!؟ تو وہ بتا سکے گی۔ وہ سنا سکے گی۔ اور پھر سننے کے بعد اس کی قسم پرسی کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ کہ جو اسے گلے ہیں۔ وہ دور کیے جائیں۔ وہ شادی چاہتی ہے تو کی جائے۔ وہ جو چاہتی ہے اسے وہ دیا جائے۔ کسی زور زبردستی سے اس گھر کے کونے میں قید نہ کیا جائے۔ جب انسان کی خواہشیں مر جاتی ہیں۔ تو انسان خود بھی مر جاتا ہے۔ اور بیواؤں کی خواہشات یہ معاشرہ قتل کرتا ہے۔ جس مقام پہ کوئی درد سہ رہا ہے۔ وہاں خود کو رکھ کر دیکھو، آنکھیں پھٹ نہ جائیں تو کہنا،
کسی کو دلاسہ دینا آسان ہے۔ مگر خود گزرنا اور سہنا بہت مشکل ہے بہت،اس لیے بیواؤں پہ رحم کرو، ان کے خوابوں کو کچلنے سے بچا لو، ان کو گناہ میں پڑنے سے بچا لو، کیونکہ آج کل کے وقت میں انسان کا گناہ سے بچنا بہت مشکل ہے۔ ہر طرف بے حیائی کے اڈے ہیں۔ ایسے میں حلال رشتے میں بندھنا بہت ضروری ہے۔ چاہے وہ بیوہ ہو طلاق یافتہ یا پھر کنواری لڑکی،
Comments are closed.