Baseerat Online News Portal

اے اہلِ ادب آؤ! یہ جاگیر سنبھالو(آبروئے لوح و قلم حضرت مولانا نسیم اختر شاہ صاحب) 

 

 

 

سید فضیل احمد ناصری قاسمی

 

دیوبند کے وہ خانوادے، جن کی شہرت اور دھاک صرف علمی بنیاد پر ہے، ان میں ممتاز ترین خانوادہ، خانوادۂ انوری ہے۔ امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے بارے میں کچھ لکھنا تحصیلِ حاصل ہے۔ ان پر اتنا لکھا گیا اور. اس قدر قلم چلایا گیا کہ ایک ریکارڈ ہے۔ ان کے ایک معاصر نے کہا اور کائناتِ علم کی ترجمانی کر دی: *لم تر العیون مثلہ، ولایری ہو مثلَ نفسہٖ*۔ ان کے دو فرزند ہوئے، اور دونوں ہی عبقری۔ ان کے چھوٹے فرزند علامہ سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ تھے، جن کے فضل و کمال کا ڈنکا بجتا رہا۔ تحریر ہو، تقریر ہو، تدریس ہو، سیاست ہو، ہر میدان میں ان کی شاہی مسلّم تھی۔ ان کی حیات و جہات پر ایک ضخیم سوانحِ حیات ان شاءاللہ جلد ہی آ رہی ہے۔ کشمیری الامامؒ کے بڑے فرزند مولانا سید ازہر شاہ قیصر تھے۔ جی ہاں! قیصرِ علم و ادب۔ دستِ قدرت سے انہوں نے کیا ذہانت و فطانت پائی تھی۔ رسالہ دارالعلوم دیوبند کے 31 / 32 سال مدیر رہے اور دنیائے لوح و قلم پر حکمرانی کی۔ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر مدظلہ انہیں کے فرزند ہیں اور آج انہیں کی شخصیت کو موضوعِ سخن بنا رہا ہوں۔

 

گورا چٹا رنگ۔ میانہ قد۔ بھاری بھرکم جسم۔ چوڑا چکلا سینہ۔ ٹھوس اور مضبوط ہاڑ۔ سیدھا سادا لباس۔ سفید کرتا اور ہم رنگ پاجامہ۔ سردیوں میں شیروانی لازم اور ہم رنگ کلاہ۔ 25 اگست 1960 میں پیدا ہوئے۔ 1980 میں فراغت پائی۔

 

مولانا موصوف کو پہلی بار میں نے 1996 میں دیکھا۔ اس وقت وہ جوانی کے سنہرے دور میں تھے۔ دارالعلوم وقف دیوبند میں مدرس۔ ادارے کے ترجمان پندرہ روزہ ندائے دارالعلوم کے معاون مدیر۔ دارالعلوم وقف میں زیرِ تعلیم میرے بعض احباب شاہ منزل میں رہتے تھے، اس مناسبت سے وہاں میری آمد و رفت برابر تھی۔ اسی موقع پر ان کی زیارت ہوتی رہی اور بار بار ہوتی رہی۔

 

مولانا کی شہرت اس زمانے میں بصیغۂ خطابت زیادہ تھی۔ دیوبند کا کوئی بھی اجلاس ہو، ان کا نام ضرور ہی شامل ہوا کرتا۔ وہ آتے اور دم زدن میں مجمع پر چھا جاتے۔ دھواں دار تقریر۔ سحر انگیز طرزِ بیان۔ الفاظ کی آمد ہی آمد۔ آواز کا زیر و بم۔ طلبہ کو معلوم ہوتا کہ ان کی تقریر شروع ہو چکی ہے تو آنے والوں کی لائنیں اس طرح لگ جاتیں، جیسے نوٹ بندی کے زمانے میں بینک کی قطاریں۔ خطابت جوش و خروش سے لبریز۔ افکارِ تازہ سے معمور۔ کوئی اٹک، نہ جھٹک۔ حاضرین گوش بر آواز۔ ٹک ٹک دیدم، دَم نہ کشیدم کی تصویر۔

 

یہ وہ مسعود دور تھا جب فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ آسمانِ خطابت کے خورشیدِ عالَم تاب کا سکہ رائج تھا۔ اپنے ہوں یا بیگانے، حریف ہوں یا حلیف، سب ان کی گھن گرج اور علمی ابر و باراں پر ٹوٹے پڑتے۔ جو جلسہ انہیں حاصل نہ کر پاتا، مولانا نسیم شاہ صاحب کو بے تکلف بلا لیتا، وہ آتے اور شاہ صاحب کے رنگ میں شروع۔ تقریباً وہی لب و لہجہ، وہی شوکتِ اظہار، وہی روانی اور برق سامانی۔

 

ان کی خطابت انہیں ریڈیو اسٹیشن بھی لے گئی، جہاں سے ان کی تقریریں خوب نشر ہوئیں۔ ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ *حرفِ تابندہ* کے نام سے کتابی شکل میں چھپ چکا ہے۔ ایک کتاب *خطباتِ شاہی* کے عنوان سے بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

 

میں ان کی تقریروں کا دیوانہ رہا۔ تقریر ہی کیا، ان کی تحریریں بھی میرے مطالعے میں آنے لگی تھیں، رسیلا اسلوب۔ چنیدہ اور پرکشش الفاظ۔ شستہ اور شگفتہ جملے۔ برجستگی اور بے ساختگی لیے ہوئے۔ تاہم اس دور میں ان سے کوئی ملاقات نہ رہی، کوئی تعارف نہ رہا۔

 

2008 میں جب میں دیوبند پہونچا، تو ان سے ملاقاتیں بھی رہنے لگیں اور طول طویل باتیں بھی۔ ان کی شخصیت کو پرکھنے اور سمجھنے کا اب زریں موقع ملا۔ میرے لیے اب وہ حضرت مولانا نسیم اختر شاہ صاحب نہیں، بلکہ فقط بھائی نسیم ہیں۔ عطوف و کریم۔ شفقتِ مجسم۔ کوئی تام جھام نہیں۔ ہٹو بچو سے انہیں آشنائی نہیں۔ سب کے لیے سہل الحصول۔ ان سے رسم و راہ کو تیرہواں سال چل رہا ہے۔ اس دوران میں نے جو کچھ محسوس کیا، وہی قلم بند کر رہا ہوں۔

 

*مولانا کی مضمون نگاری*

 

ان کی خطابت پر تبصرہ تو آپ اوپر پڑھ آئے ہیں۔ اللہ جانے کیوں اب وہ سرگرم نہیں رہے، دیوبند کے ہر جلسے کا آج بھی وہ جزء لا ینفک ہیں، لیکن تقریروں سے اطناب غائب اور ایجاز غالب ہے۔ ہاں! کبھی خطابت طویل ہو تو اپنے شبابی دور کی جھلکیاں آج بھی دکھلا جاتے ہیں۔ ان کی مضمون نگاری ہر دور میں مانی گئی۔ وہ لکھتے نہیں ہیں، جادو بکھیرتے ہیں۔ ان کا قلم چلتا نہیں، سرپٹ دوڑتا ہے۔ خامہ بکف ہوئے اور ممبئی کی لوکل ٹرین کی طرح یہ جا، وہ جا۔ استعارات و تشبیہات کی برسات۔ محاورات و ضرب الامثال کا ایک غیر منقطع تسلسل۔ دل کش تعبیرات کا نیل و فرات۔ شوکت و ندرت کا مجسمہ۔ قدیم اساتذہ کی یاد دلاتا لہجہ۔ اردوئے معلیٰ کا نمونہ۔ خوب صورت الفاظ سے مرصع و مزین۔ قاری ان کی ساحرانہ گفتاری اور معجز بیانی میں گم۔ اس وقت بلا شبہہ ملک میں اپنے آہنگ کے اکلوتے ادیب ہیں۔

 

*صحافتی سرگرمیاں*

 

مولانا موصوف بچپن سے ہی دنیائے صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ رسائل اور اخبارات میں ان کی تخلیقات چھپتی رہیں۔ خود بھی کئی رسالے اپنی ادارت میں نکالے، جن میں پندرہ روزہ اشاعتِ حق اور ماہ نامہ طیب بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اول الذکر 1979 سے 1993 تک جاری رہا، جب کہ آخر الذکر 1983 سے 1987 تک۔ مولانا موصوف پندرہ روزہ ندائے دارالعلوم اور دیوبند ٹائمز کے شریکِ ادارت بھی رہے ہیں۔ اخبارات نے بھی ان تحریروں سے اپنے جیب و داماں بھرے۔

 

*خاکہ نگاری و پیکر تراشی*

 

مولانا کا قلم خاکہ نگاری اور پیکر تراشی میں بڑی جولانیاں دکھا رہا ہے۔ وہ کسی شخصیت یا ادیب پر مائل بہ سخن ہوتے ہیں تو اس کی ایسی تصویر پیش کر دیتے ہیں کہ گویا ان کا ممدوح سامنے ہی کھڑا ہے۔ اس کی رفتار و گفتار، اس کی نشست و برخاست، اس کے اوصاف و اخلاق اور اس کی حیات و جہات پر ایسا بھرپور تبصرہ کہ پڑھتے جائیے اور شربتِ روح افزا کے مزے لیتے جائیے۔ اس فن میں انہیں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ شخصیت نگاری پر ان کی کئی کتابیں آ چکی ہیں، جن میں *دو گوہرِ آب دار*، *جانشینِ امام العصر*، *میرے عہد کے لوگ*، *جانے پہچانے لوگ*، *اپنے لوگ*، *خوشبو جیسے لوگ*، *کیا ہوئے یہ لوگ* خاصی مقبول ہیں۔ ان میں سے کسی بھی کتاب کو اٹھائیے اپنا اسیر کر چھوڑے گی۔ نمکینی اور چاشنی ان میں بلا کی ہے۔ ان میں وہ گھلاوٹ اور شیرینی ہے کہ ایک بار پڑھنے سے سیری نہیں ہوتی۔

 

*میرے عہد کا دارالعلوم*

 

مولانا کا قلم صرف خاکہ نگاری پر ہی اپنا شباب نہیں دکھاتا، تاریخ نویسی پر بھی ایسی ہی بہاریں دکھاتا ہے۔ مکتب سے لے کر فراغت تک ان کی تعلیم دارالعلوم میں ہوئی، اس لیے وہ اس کی محبت میں کھوئے رہتے ہیں۔ یہاں ان کے یگانۂ روزگار دادا علامہ کشمیریؒ اپنی شانِ عبقریت کے حسین نظارے دکھا چکے ہیں۔ عمِ مکرم فخرالمحمدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ کی جلالتِ علمی کی طوطی بھی بول چکی ہے۔ خود والدِ گرامی کی سرگرمیوں کے اس کے در و دیوار شاہد ہیں، پھر بچپن کی یادوں کا اپنا ہی مزا ہے۔ مولانا نے ان یادوں کو سینے سے نکالا اور سفینے میں ڈال دیا۔ میرے عہد کا دارالعلوم انہیں دورانیوں پر مشتمل ہے۔ کتاب میں دارالعلوم اور اس عہد کے اساتذہ کو جس طرح یاد کیا ہے کہ پڑھنے والا اس کی بھول بھلیوں میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ کس مدرس کی کیا شان تھی؟ اس کی زندگی کے لازمی عناصر کیا تھے؟ اس کی صفاتِ ممیزہ کیا تھیں؟ دارالعلوم کا علمی ماحول کیا تھا؟ اس کا فضائی پارہ کیسا تھا؟ طلبہ کی سرگرمیاں کیسی تھیں؟ علمی و ادبی مذاکرات کا سماں کس آہنگ کا تھا؟ اس کتاب میں وہ سب موجود ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ۔ اپنا طالب علمانہ ماضی اس طرح دکھایا ہے کہ حال معلوم ہونے لگتا ہے۔ ورق گردانی کی ابتدا کیجیے تو یہ تصنیف خود ہی کہے گی:

 

صد جلوہ رو برو ہے، جو مژگاں اٹھائیے

 

*مولانا کی کچھ اور تصنیفات*

 

جب خدا نے خوب صورت قلم اور کوثر و سلسبیل زبان دی ہو تو اس کا صحیح استعمال ہونا چاہیے، ورنہ روزِ قیامت سخت احتساب ہوگا۔ مولانا نسیم شاہ صاحب اس نکتے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چناں چہ ان کا قلم ہمیشہ صحیح رخ پر چلا۔ شخصیات کے ساتھ دعوتی تحریریں بھی ان سے تخلیق پا چکی ہیں، جن کے مجموعے *اسلام اور ہمارے اعمال* اور *اعمالِ صالحہ* کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ ایک ادبی کتاب *اوراق شناسی* بھی منظرِ عام پر آ چکی ہے۔

 

*تخلیقی استعداد کی تلامذہ میں منتقلی*

 

ابلاغِ فن اور ترسیلِ استعداد کی صلاحیت مولانا میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہ کاہ کو کوہ اور خاک کو کیمیا بنانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ انہوں نے فنِ مضمون نگاری کو خود تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اگلی نسل تک اسے منتقل کرنے کا اہتمام بھی کیا۔ *مرکزِ نوائے قلم* اسی لیے وجود میں آیا ہے۔ ملک کے کئی نامور اہلِ قلم اسی نوائے قلم سے تیار ہوئے اور سلسلہ ہنوز جاری۔ دارالعلوم وقف دیوبند نے صحافت کا شعبہ قائم کیا تو انہیں ہی اس کا ذمے دار بنایا گیا۔

 

*مولانا کی مجلسیں*

 

مولانا صرف لکھنے پڑھنے کے آدمی نہیں، سماجی مزاج بھی رکھتے ہیں۔ اپنے دوستوں، عزیزوں، تعلق داروں سے ان کے مراسم ہمیشہ یکساں رہتے ہیں۔ ان سے ملنا جلنا، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، ان کی خوشی سے خوش ہونا ان کی خاص پہچان ہے۔ اہلِ علم میں یہ چیز اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ بذلہ سنجی ان کا خاص وصف ہے۔ آپ کتنے ہی غمگین ہوں، مایوسی کیسی بھی ہو، اگر آپ ان کی مجلس میں ہیں تو سب ایک جھٹکے میں کافور۔ بالکل نہیں لگے گا کہ رنج و غم کے پہاڑ سے آپ کا کوئی سابقہ بھی رہا ہے۔ مزاحیہ جملے اور پرلطف چٹکلے اس کثرت سے نکلیں گے کہ ہنستے ہنستے پیٹ پر بل پڑ جائیں۔ ان کی مجلسیں صرف قہقہہ بر دوش ہی نہیں، علمی، ادبی اور تاریخی رنگ بھی خوب لیے ہوتی ہیں۔ ان کا ایک ایک جملہ ہیرے جواہرات کی طرح گراں قیمت ہوتا ہے۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ان کی مجلسوں میں باریابی کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔

 

*روشن دماغ*

 

مولانا کوئی پیر تو نہیں، مگر روشن ضمیر ضرور ہیں۔ ضمیر کی طرح ان کا دماغ بھی خوب روشن ہے۔ طبیعت بڑی درّاک و بَرّاق پائی ہے۔ حالات کو فوراً تاڑ لیتے اور وقت کی نبض کو چشم زدن میں سمجھ جاتے ہیں۔ سیاست پر ان کے تبصرے بڑے عمیق اور جچے تلے ہوتے ہیں۔ ایک زمانے تک ملکی و بین الاقوامی مسائل پر بھی خوب لکھا اور داد و تحسین سمیٹی۔ اب اسلامیات، شخصیات و ادبیات ہی ان کے محور رہ گئے ہیں۔ اللہ انہیں صحت کے ساتھ عمرِ نوح عطا فرمائے۔ مولانا ملت کا بیش بہا سرمایہ ہیں:

 

اب جس کے جی میں آئے وہ پا جائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا

 

نوٹ: یہ تحریر ایک سال قبل لکھی گئی تھی

افادہ عام کے لئے من و عن شائع کی جا رہی ہے۔

Comments are closed.