دارالعلوم دیوبند؛ شورا وموروثیت کی کشمکش

عبداللہ ممتاز
کوئی ربع صدی قبل دارالعلوم دیوبند میں ایک سیاسی انقلاب آیا تھا، جسے بعض لوگ "قصہ نامرضیہ” اور بعض "قبضہ ” کا نام دیتے ہیں۔ وہ جو بھی تھا، دارالعلوم کے روشن ماتھے پر ایک سیاہ کلنک تھا۔ جو لوگ انقلاب کا سپورٹ کر رہے تھے، ان کا مقصد دارالعلوم کو خاندانی جاگیرداری سے نکال کر شورا کی بالادستی میں لانا تھا۔ دوسری طرف حکیم الاسلام، ترجمان دارالعلوم قاری محمد طیب صاحبؒ کی ذات گرامی تھی جنھوں نے دارالعلوم دیوبند کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا تھا، تقریبا نصف صدی پر مشتمل ان کی خدمات تھی، وہ شورا کی بالادستی ماننے کو آمادہ نہ تھے۔ جو ہونا تھا سو ہوا، قاری صاحب دارالعلوم سے زبردستی نکال باہر کردیے گئے اور دارالعلوم میں شورا کی ہیئت حاکمہ قائم ہوگئی۔
شورا؛ ہیئت حاکمہ ہوتی ہےاور مہتمم اس کا ترجمان یا مہتمم حاکم مطلق ہوتا ہے اور شورا محض مشاور، سارےاختلاف کی بنیاد ہی اس پر تھی۔ میں اول الذکر کے سپورٹ میں ہوں، میری رائے میں شورا کی بالادستی والے نظریہ کی قوت ہی تھی جس نے اجڑے دارالعلوم کو تھوڑے ہی مدت میں سرسبز وشاداب کردیا۔ حضرت قاری صاحب کی شخصیت ایسی مقبول ترین شخصیت تھی کہ جس نے ان سے اختلاف کیا وہ محض نظریہ کی بنیاد پر ہی کیا، ورنہ سارے اساتذہ اور طلبہ قاری صاحب کے شیدائی وفدائی تھے۔ اس لیے چند اساتذہ (جو شورائی نظام کو سپورٹ کرنے والے لیڈروں میں سے تھے) کے علاوہ سارے اساتذہ قاری صاحب کے ساتھ ہو لیے اور اسی پس منظر میں وقف دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا۔
تالابندی کے بعد جب دوبارہ دارالعلوم کھلا تو دارالعلوم اساتذہ سے خالی ہوچکا تھا، ایک آدھ کے علاوہ وہی گنے چنے اساتذہ تھے جنھوں نے اس انقلاب کی قیادت کی۔ گو یہ انقلاب کسی پر ظلم ڈھاکر آیا؛ لیکن یہ ایک بہترین انقلاب تھا، جس نے خاندانی موروثیت کو ختم کرکے شورا کی بالادستی قائم کی۔
سیاسی بازی گروں نے بڑی ہوش مندی کے ساتھ سیاسی داوؤ پیچ سے ناواقف ایک سیدھے سادے عالم مولانا مرغوب الرحمن صاحب کو دارالعلوم کے مسند اہتمام پر فائز کردیا تاکہ انھیں اپنی کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کرسکیں؛ لیکن حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بڑے کھلاڑی نکلے، انھوں نے اپنی بھرپور دانشمندی سے دارالعلوم کو اس نظریہ اور سوچ پر لاکھڑا کیا، جس کی وجہ سے قاری صاحب کو اپنے آخری وقت میں دارالعلوم سے نکلنا پڑا تھا۔ انھوں نے ایسے ضابطے بنائے کہ دارالعلوم مستقبل میں مزید کوئی سیاسی اکھاڑا بننے سے محفوظ رہے۔ دارالعلوم کو خاندانی اجارہ داری سے محفوظ کرنے کے لیے ضابطہ بنایا کہ بیک وقت ایک فیملی کے دو لوگ دارالعلوم میں ملازم نہیں رہ سکتے۔ جمعیۃ العلماء اور دارالعلوم کو نہ صرف بالکلیہ ایک دوسرے سے علیحدہ کیا؛ بلکہ قانون سازی کی کہ ایک شخص بیک وقت جمعیۃ اور دارالعلوم کے عہدوں پر فائز نہیں رہ سکتا، اگرکوئی پہلے سے ہے تو اسے ان دو میں سے کوئی ایک عہدہ چھوڑنا ہوگا۔ (چناں چہ مولانا سید ارشد مدنی کو ناظم تعلیمات اور مولانا قاری محمد عثمان صاحب کو نائب ناظم کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا)اس طرح بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ مدنی خاندان کو دارالعلوم سے کنارے لگادیا۔
مولانا مرغوب الرحمن صاحب کی وفات کے بعد سے ہی شورا اپنی حاکمیت کھوتی جا رہی ہے، شورا کی اکثریت نے مولانا غلام محمد وستانوی کو مہتمم بنایا اور پھر کسی کے دباؤ میں انھیں نکال باہر کیا۔ شورا کے جس ضابطے کی وجہ سے مولانا سید ارشد مدنی اور قاری محمد عثمان کو دارالعلوم کے عہدے چھوڑنے پڑے تھے، وہ ضابطے ختم کرکے مولانا قاری محمد عثمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ معاون مہتمم بنائے گئے تھے اور اب نہ صرف مولانا سید ارشد مدنی دارالعلوم میں عہدیدار ہیں؛ بلکہ مولانا محمود اسعد مدنی دارالعلوم کے رکن شوری بھی ہیں۔ مولانا سلمان منصور پوری دارالعلوم تشریف لاچکے ہیں، جلد ہی مولانا عفان صاحب منصوری پوری بھی ہوں گے۔
مسئلہ قابلیت کا نہیں ہے، یقینا مولانا ارشد مدنی قابل ترین شخصیت ہیں۔ مولانا محمود اسعد مدنی کو بھی ان کی قابلیت ہی کی وجہ سے شوری میں شامل کیا گیا ہوگا۔ مسئلہ فکر اور نظریہ کا ہے۔ کیا قاری محمد طیب صاحب میں قابلیت کم تھی؟ کیا مولانا سالم قاسمی قابل نہیں تھے؟ ان کی تمام تر قابلیتوں کے باوجود ہم سقوط دارالعلوم میں مولانا اسعد مدنی کو حق پر مانتے ہیں؛ چوں کہ انھوں نے دارالعلوم کو قاسمی خاندان کی موروثیت سے نکال کر شورا کے ماتحت لاکھڑا کیا تھا. قابلیت کی بات کریں تو دارالعلوم کے نائب مہتمم کی حیثیت سے کیا قاری محمد عثمان صاحب سے زیادہ کوئی لائق شخص تھا؟ مولانا ارشد مدنی کا بحیثیت ناظم تعلیمات سکہ چلتا تھا، ان کے بعد دارالعلوم میں زبردست تعلیمی زوال آیا. مولانا مرغوب صاحب نے ان سب کو گوارا کیا؛ لیکن خاندانی تارو پود کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے قاری محمد عثمان اور مولانا ارشد مدنی کو تا حیات عہدے پر واپس نہیں آنے دیا، یہ دونوں شخصیتیں اپنی تمام ترصلاحیتوں کے باوجود دارالعلوم میں ایک عام استاذ کی طرح رہے.
جو لوگ مولانا ارشد مدنی اورمحمود مدنی کے گن گا رہے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ مستقبل میں دارالعلوم دیوبند؛ ملک کا نگریس اور مولویوں کا جمعیۃ العلماء ہوگا۔ یہاں شورا بھی ہوگا اور سال دو سال پر الیکشن بھی ہوں گے؛ لیکن اس الیکشن میں مدنی خاندان کے چشم وچراغ کے علاوہ ہندوستان بھر کا کوئی ایک فرد بھی اس لائق قرار نہ پائے گا جو دارالعلوم کے مسند اہتمام پر فائز ہوسکے۔ وہ "انقلاب” محض ایک تاریخی سانحہ ہوگا، جس میں دارالعلوم؛ ایک خانودے کے ہاتھوں سے نکل کر دوسرے خانوادے کے قبضے میں چلا گیا۔
جو لوگ شورا کی دہائی دے رہے ہیں، ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ "ایک شورا وقف دارالعلوم دیوبند کابھی ہے، دونوں جمعیتوں کے بھی اپنے اپنے شورے ہیں، ندوۃ العلماء میں بھی شورا ہے”۔ ان اداروں کے شورے؛ کسی فیصلے کے لیے مہتمم کے چشم وابرو کے محتاج ہوتے ہیں، ان کا کام چائے نوشی اور جی حضوری سے زائد نہیں ہوتا، دارالعلوم جس روش پر چلا ہے، مستقبل میں دارالعلوم کے شورا کی بھی وہی حیثیت ہوگی ۔
Comments are closed.