علامہ یوسف القرضاوی کا انتقال

عالم اسلام کے عظیم مذہبی اسکالر کی رحلت پر دینی وعلمی حلقے سوگوار
آن لائن نیوز ڈیسک
عالم اسلام کے ممتاز عالم،مفکر،فقیہ،داعی ،ادیب و شاعر شیخ یوسف القرضاوی کا آج تقریباً چھیانوے سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ اطلاع ان کے ذاتی ٹوئٹر ہینڈل سے دی گئی ہے۔قطر میں مقیم عریب احمد صدیقی کے مطابق شیخ کی نماز جنازہ کل بعد نماز ظہر جامع الامام محمد بن عبد الوھاب المعروف جامع الدولة میں ادا کی جائیگی اور مسیمیر کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئے گی۔ انہوں نے بتایا کہ جو حضرات شریک ہونا چاہتے ہیں وہ قطری وقت کے مطابق دس بجے سے قبل مسجد پہنچ جائیں کیوںکہ ٹریفک کی وجہ سے بعد میں پہنچنا دشوار ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ انہیں گزشتہ برس کورونا بھی ہوگیا تھا تاہم وہ صحت یاب ہوگئے تھے لیکن چند ماہ سے کافی علیل تھے۔شیخ یوسف القرضاوی ۱۹۲۶ کو مصر میں پیدا ہوئے اور انھوں نےتعلیم جامع ازہر سے حاصل کی ، انہیں اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا اور سید ابوالاعلی مودودی سے خاص نظریاتی عقیدت تھی، آپ طویل عرصہ تک اخوان کے سرگرم رکن رہے، اخوان المسلمین کے ساتھ تعلق کی پاداش میں۱۹۵۰ کو جمال عبدالناصر کے دور میں گرفتار بھی کیے گئے تھے۔اخوان سے تعلق کے جرم میں آج بھی ان کی بیٹی اور داماد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی ۱۹۶۰کی دہائی کے اوائل میں مصر سے قطر کے لیے روانہ ہوئے اور قطر یونیورسٹی میں فیکلٹی آف شریعہ کے ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں جس کی بنیاد پر انھیں ۱۹۶۸میں قطری شہریت دی گئی۔انہیں عرب دنیا ہی نہیں تمام عالمِ اسلام میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔ حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں سے کماحقہ آگاہ ایک روشن ضمیر فقیہ و عالم و مفکر کے طورپر ان کی شناخت تھی اور ان کی تحریروں سے بے شمار لوگوں نے استفادہ کیا۔شیخ قرضاوی نے کم و بیش پونے دو سو کتابیں تالیف کیں جن میں سے زیادہ تر عصری مسائل اور فقہی قوانین سے متعلق ہیں اور عصر حاضر میں مسائل شرعیہ کی عمدہ تشریح پیش کرتی ہیں۔شیخ قرضاوی عربی زبان کے ایک شگفتہ نگار ادیب اور عمدہ شاعر بھی تھے۔انھوں نے بے شمار عالمی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کی،اعتدال و وسطیت کے قرآنی تصور کو عام کیا اور ہر قسم کے فکری چیلنج کو ایڈریس کرتے رہے۔شیخ قرضاوی کوان کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں مختلف اداروں کی طرف سے اعزازات پیش کیے گئے جبکہ وہ بہت سے علمی،فقہی و فکری اداروں کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔فروری ۲۰۱۱کو قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی نے یہ سنہری ہدایات جاری کہ اس انقلاب کو ان منافقوں کے ہاتھوں چوری نہ ہونے دیں جنھوں نے اپنا مکروہ چہرہ چھپایا ہوا ہے۔ ابھی انقلاب کا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی مصر کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے اس لیے اپنے انقلاب کی حفاظت کرو۔ علامہ القرضاوی کے معتقدین ومحبین کا ایک بڑا حلقہ ہے جو عرب ممالک سے لے کر یورپ، امریکہ اور برصغیر تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کو دنیا بھر میں مجتہد، مجدد اور مفکر کی حیثیت سے جاناجاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت عالم اسلام میں سب سے بڑے اسلامی اسکالر، فقیہ اور عالم دین کی حیثیت آپ کو حاصل ہے۔آپ کے انتقال پر دنیا بھر میں سوگ کی لہر دوڑ گئی ہے، دینی و علمی حلقے سوگوار ہوگئے ہیں۔ بتادیں کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصرکی جانب سے قطر کا سفارتی بائیکاٹ کیے جانے کے بعد مذکورہ ممالک نے شدت پسند رہنماؤں کی ایک فہرست جاری کی تھی جس میں ۵۹ نمایاں شخصیات اور بارہ خیراتی اداروں کے نام بھی شامل تھے ان میں علامہ یوسف القرضاوی ؒکا نام سرفہرست تھا۔
Comments are closed.