Baseerat Online News Portal

جذباتی اورخوف پر مبنی فیصلے۔۔۔!

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
ایساہمیشہ دیکھاگیاہے کہ قومی، ملی، سیاسی اورتعلیمی میدان میں جذبات، ردعمل اورعجلت میں بغیرغوروفکر کے لیٸے گیٸے فیصلوں نے ہمیشہ قوم کو اجتماعی نقصان پہونچایاہے۔
یہی کچھ اس وقت دیوبند کے حالیہ اعلامیہ میں نظر آرہاہے ۔بات اس وقت مدرسہ کے سروے کی چل رہی ہے اوراس کی حکمت عملی پر غور کی ضرورت تھی نہ کہ عصری تعلیم اورمدرسوں میں ہاٸی اسکول تک عصری تعلیمی مواد پڑھاٸے جانے کی۔یہ ایک الگ موضوع تھا جس پر سنجیدگی سے غورکیاجاتا اورپھر ملت کی ضرورت، مدارس کی مشکلات اورعصری تقاضے کو ملحوظ رکھ کرکوٸی بات کہی جاتی ۔۔۔

باطل نظریات کے حامل لوگ بڑی چالاکی سے مسلمانوں کو ذہنی، فکری اور سیاسی اعتبار سے کمزورپاکر اپنے مشرکانہ اورتوھم پرستانہ نظریات مسلمانوں کی نٸی نسل تک پہونچانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں ۔آپ سکھوں کوہی دیکھ لیجٸے جو آج تک ہندوؤں میں جاکر اپنی بات کہنے کی ہمت نہیں کرپاٸے وہ ہمارے پروگراموں میں گھس کر گروگرنتھ کی باتیں کررہے ہیں ۔ہندوجوکل تک اپنے دیوی دیوتاؤں کی کہانیاں صرف اپنوں کے درمیان اورجاگرن میں کرتے تھے اب بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ ہمارے درمیان کررہے ہیں اورہمارے بچے اورہماری نٸی نسل کے کانوں میں ٹھونسنے کی جرأت کررہے ہیں ۔اورہم بھی اپنے پروگراموں میں پیام انسانیت اورمذھبی رواداری اورخیرسگالی کے نام پر بجاٸے اپنی حق بات کہنے اورسنانے کے ان کی توھم پرستانہ باتیں لے کر گھر لوٹ رہے ہیں ۔آخر ہم باطل سے اتنے خوف زدہ اورمرعوب کیوں ہوتے جارہے ہیں، میں یہ نہیں کہ رہاہوں کہ مذھبی روادای اورخیرسگالی کے پروگرام نہ کٸے جاٸیں، ضرور کئے جاٸیں، مگر اسلام کی عادلانہ، حق اورانصاف پرمبنی باتیں بتانے اورسنانے کے لٸے کیٸے جاچاہیں اورایسابھی نہیں ہوناچاہیے کہ مارے خوف اورمرعوبیت کے انکی ہاں میں ہاں اسطرح کی جاٸے کہ باطل کی تاٸید کی بوباس آنے لگے ۔حالات کیسے بھی ہوں ہمیں نہیں بھولناچاہیٸے کہ ہم بہرحال حق کے داعی ہیں مدعو نہیں ہیں اورنہ ہی ہوسکتے ہیں ۔امت مسلمہ اپنے نبی کے توسط سے بشیر اورنذیر کے منصب پرفاٸز ہے اور یہ شرف اس سے کوٸی نہیں چھین سکتا مگرہمارے اندراس کااحساس تو باقی رہے ؟ اپنے منصب کوتونہ فراموش کریں کہ یہی ہماری عظمت کا سرمایہ ہے ۔باطل خواہ کتناہی طاقت ور کیوں نہ ہوجاٸے وہ حق کے مدمقابل نہیں کھڑاہوسکتا۔نظریاتی اورفکری طورپر اپنے آپ کو ہرمقام پر مضبوط ومستحکم رکھیں اوراپنی نٸی نسل کو پائیدار بنائیں، موجودہ عہد میں اس پرقاٸم رہنا ہی افضل جہاد ہے ۔آج لوگ مصلحت اورمحض چھوٹے اورجھوٹے دنیوی مفادات کی چاہ میں اپنارخ بدلنے لگتے ہیں، محض معمولی منفعت کی وجہ سے بیان اورلہجہ تبدیل کرلیتے ہیں ۔بڑے اعلی درجے کے لیبرل بن جاتے ہیں ۔یہ ہمارے اسلاف کی روایت کے بالکل خلاف ہے ۔
دوسری طرف ملک کے حالات جس رخ پہ جارہے ہیں اس کاتقاضایہ ہےکہ کسی بھی اجتماعی اور ملی مسٸلہ پر کسی ایک جماعت یاتنظیم کو تنہا سوچنے کی بجاٸے تمام مسالک کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی چاہیٸے اورمشترکہ ومتحدہ موقف ملک کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہونی چاہیٸے ورنہ اس کی کوٸی اہمیت نہیں ہوگی اورہماری بات اورتجاویز صدابصحرا ثابت ہوگی ۔
مستقبل کا آٸینہ:
کل کیاہوگا اس کی خبر تو صرف رب علیم وخبیر کو ہے مگر:
صورت حال یہ ہےکہ ہمارے اوپر چوطرفہ حملہ ہے، سیاسی، سماجی، قانونی ہرطرح سے ہمیں دبانے اورہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہم مسجد کے معاملات دیکھتے ہیں تو مدرسوں کا مسٸلہ کھڑاکر دیاجاتاہے۔مدرسوں کادیکھتے ہیں تو مسلم پرسنل لإ کا ایشو چھیڑ دیاجاتاہے ۔سیاسی معاملات سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو سماج میں نفرت کا ماحول پیداکردیاجاتاہے۔اورارتدادی اورمیڈیاکی ریشہ دوانیوں کا فتنہ تو ہے ہی اپنی جگہ۔۔آثار بتارہے ہیں کہ ابھی تک تو مدرسے نشانے پر تھے، اب عمومی مساجد اورتنظیمیں زد میں آنے والی ہیں۔بلکہ آغاز ہوچکاہے۔اورہم اپنے داٸرے میں مگن ہیں ۔اگرہمارا یہی حال رہاتو پھر وہی ہوگااس جھونکے میں
”چراغ سب کے بجھیں گے۔ہواکسی کی نہیں “۔
بات جمہوری طریقے کی ہے تو جمہوری طریقے پرہی صحیح ۔مگر متحد ہوکر حالات کامقابلہ کیاجاناچاہیٸے ۔ہم تنہا کچھ نہیں کرسکتے۔ہماری تنہا کاوشیں صرف ہمارے دل کو بہلانے کا سامان ثابت ہوں گی اورکچھ نہیں ۔

Comments are closed.