تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

 

محمد اللہ قیصر

نوجوانان آب حیات سوشل ویلفیئر ایجوکیشنل کمیٹی، بھوپال کی جانب سے بصیرت آن لائن کے چیف ایڈیٹر،مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب کو "امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی ایوارڈ” سے نوازا جانا پوری بصیرت ٹیم کیلئے باعث مسرت ہے، مولانا غفران ساجد صاحب کو ڈھیر ساری مبارکباد۔

ایوارڈ ایک طرف خدمات کا اعتراف ہوتا ہے، دوسری طرف "مزید” کیلئے مہمیز کرنا مقصود ہوتا ہے، اسلئے اس اوارڈ کے بعد مولانا کی ذمہ داریاں یقینا بڑھ جائیں گی، اب تک انہوں نے جو کچھ کیا ہے مستقبل میں اس سے زیادہ کی توقع ہوگی۔

مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب معتدل الفکر اور سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں، زمانہ طالب علمی سے ہی ان کا مزاج تحریکی رہا ہے، دوسری طرف خوش قسمتی سے آپ کو ایسے ساتھی بھی ملے جو علمی لیاقت کے ساتھ ملی و سماجی خدمات کے جذبہ سے سرشار تھے، مفتی اعجاز ارشد قاسمی صاحب ، مفتی ضیاء الحق قاسمی صاحب ، اور مفتی مجتبی حسن قاسمی صاحب رحمہم اللہ جیسے پرجوش اور حرکت و نشاط سے لبریز اصحاب علم کی معیت میں ایک عرصہ تک "اسٹوڈنٹس اسلامک فیڈریشن”کیلئے کام کرتے رہے، پھر مدرسہ چشمہ فیض ململ میں حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت میں آپ کو مزید نکھرنے کا موقع ملا، طالب علمی کے زمانہ سے ہی صحافت سے خصوصی دلچسپی تھی، بلکہ یوں کہا جائے کہ معروف صحافی یوسف رامپوری صاحب اور مفتی اعجاز ارشد قاسمی رحمہ اللہ کی صحبت نے آپ کے صحافتی مزاج کو دو آتشہ کردیا تو شاید غلط نہیں ہوگا، چونکہ لکھنے پڑھنے کا شوق پہلے سے ہی تھا، لہذا مدرسہ چشمہ فیض ململ میں "بصیرت”کی ادارت آپ کے ذمہ سپرد کی گئی تو جیسے پیاسے کو پانی نصیب ہوگیا، وہاں سے آپ نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا،جب بغرض ملازمت سعودی عرب گئے تو وہاں بھی لکھنے کا سلسلہ جاری رہا،ملک کے مختلف اخبارات و رسائل میں آپ کے وقیع مضامین شائع ہوتے رہے، سعودی عرب میں رہ کر آپ نے مصر میں شہید محمد مرسی کی منتخب حکومت کا تختہ پلٹ اور سعودی عرب کا کردار اس کے علاوہ قضیہ فلسطین پر خوب لکھا، بالخصوص مصر میں تختہ پلٹ معاملہ میں حکام عرب کے "خاص کردار ” پر کھل کے نکیر کرتے رہے، حتی کہ بعض اہل علم و اہل منصب نے انہیں ٹوکا بھی، لیکن ان کی دینی حمیت نے خاموشی قبول نہیں کی، سعودی عرب میں رہتے ہوئے ہی آپ نے 2012 میں "بصیرت آن لائن” کے نام سے ہندستان کے اولین اردو نیوز پورٹل کا آغاز کیا، کچھ عرصہ بعد ہندستان واپس اگئے، اور دہلی میں رہ کر ہی بصیرت آن لائن کا دائرہ وسیع کرنے کی کوششوں میں جٹ گئے، بصیرت کے زیر اہتمام ایک ہفتہ واری اخبار قومی بصیرت کا اجرا بھی کیا، ارادہ تھا کہ مستقبل میں اسے روزنامہ کی شکل دی جائیگی، لیکن بد قسمتی سے "اپنوں کی مکاری اور غیروں کی عیاری کے جال میں پھنس گئے” ذاتی مفاد کیلئے ملت کی آبرو بیچنے والوں کا فریب سمجھ نہیں سکے، کچھ لوگوں نے بصیرت آن لائن کو اچکنے کی کوشش کی، بلکہ اسے ایک دین مخالف جماعت کا ترجمان بنانے کی کوشش کرنے لگے، مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب کو اس کا احساس ہوا تو جیسے ان کے ہوش اڑ گئے، اور غضب یہ کہ "جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے”، ہم دونوں کا تعلق ایک ہی خطہ سے ہے، اسلئے تعارف تو تھا ہی، نیز اپنے بڑے بھائی مولانا سعد اللہ صاحب قاسمی، اور اپنے چچا زاد بھائی ریحان مرحوم سے ان کے تذکرے سنتا رہتا تھا، اس وقت کئی واقعات پیش آئے، تفصیلات سے واقفیت ہوئی تو احساس ہوا کہ مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب بڑے سادہ مزاج ہیں، ان کی سادگی نے انہیں (ظاہری طور پر)بڑا نقصان پہونچایا ہے، البتہ بے تکلفی نہ ہونے کی وجہ سے کبھی ان کے سامنے بول نہیں سکا، لیکن بعد کے واقعات سے بھی یہی محسوس کیا کہ سادگی اپنے تمام تر فضائل کے باوجود کبھی کبھی ضررساں ہوتی ہے، بہر حال دہلی میں بھی ان کے ساتھ یہی ہوا، وہ ذاتی مفاد کیلئے ملت کا سودا کرنے والوں کی سازش کا شکار ہوگئے، بالاخر انہوں نے حالات کے پیش نظر دلی چھوڑ کر ایک بار پھر سے ململ کو مسکن بنالیا، لیکن بعد میں مخلص احباب کے مشورے پر ممبئی سے کام کرنے کا ارادہ کیا۔

مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب گوناگوں خصوصیات کے حامل ہیں، سنجیدگی، متانت اور حرکت و نشاط آپ کی پہچان ہے، قوت ارادی اتنی مضبوط کہ اس کے سامنے وسائل کی قلت، اورحالات کی ستم ظریفی اپنی تمام تر شدت کے باوجود ہیچ ثابت ہوتے ہیں، ان کے ساتھ کام کرنے والے جانتے ہیں کہ کام کا ارادہ کرتے ہیں،قلت وسائل کی شکایت کی جاتی ہے، فراہمی کی دشواری پر گفتگو ہوتی ہے، سب مایوسی کا اظہار کرتے ہیں، ایسے وقت میں ان کا ایک ہی جملہ ہوتا ہے”اللہ سب پورا کرے گا” پتہ نہیں اتنا حوصلہ کہاں سے لاتے ہیں،

"نرم دم گفتگو گرم دم جستجو” کا حقیقی مصداق ہیں،

بصیرت آن لائن کے انتظامی امور کیلئے فراہمی مال میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، اور حقیقت ہے کہ اب تک یہ ادارہ خود کفیل نہیں ہو سکا ہے، اس کیلئے بڑی پیش کش ہوئی کہ ادارہ کو اس دشواری سے نجات مل سکتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ اپنے اصول سے ” سمجھوتہ” کرلیں، ہو سکتا ہے، قومی و ملی مفاد کی "ذرا سی قربانی” بھی دینی پڑے، اور ممکن ہے کہ "ضمیر فروشی”کی نوبت بھی آجائے، لیکن ادارہ کے فائدے کیلئے، ” اصول سے سمجھوتہ” ،”ملی مفاد کی قربانی” اور "ضمیر فروشی” یہ بھی تو قربانی ہے، بلکہ کچھ لوگ تو ان سب کو ملی خدمات کیلئے "قربانیوں” میں شمار کرتے ہیں، مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب نے بڑی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سب "جعلی قربانیوں” سے انکار کردیا، وقتی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن ڈٹے رہے اور اللہ نے ہمیشہ اسباب پیدا کردئے۔

بصیرت آن لائن کا ایک اہم ہدف رہا ہے کہ ہندستان کے ماحول میں جہاں صحافت اہل سیاست اور اہل ثروت کی رکھیل بن کر رہ گئی ہے، وہاں لوگ اسلامی صحافت کی معنویت سے آشنا ہوں، لوگوں میں اسلامی صحافت کی اہمیت کا احساس پیدا ہو، آج کی حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر کی روایتی صحافت سیاست دانوں کے آستانوں پر "رکوع و سجود” میں پڑی نظر آتی ہے، کسی زمانہ میں "صحافت اور حق گوئی” ایک دوسرے کے مترادف ہو کرتے تھے، سیاست دانوں کی بازیگری کیلئے تو "قلم ” جیسے "شمسیر بے نیام” ہوا کرتا تھا، اور اب صحافت اور حق گوئی میں عداوت ہے، یہ میدان بھی "کارپوریٹ اکھاڑا ” بن چکا ہے، جہاں صرف پیسوں کا راج ہے، سچ اور جھوٹ کا معیار صرف دولت ہے، دولت مند کا جرم "خوبی” اور "کمال” سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کے "ظلم” کو "احسان” قرار دیا جاتا ہے، جبکہ فقیر پر بہتان بھی لگے تو وہ ثبوت سے پہلے جرم سمجھ لیا جاتا ہے، اگر مسکین اپنے اوپر ہونے والے "ظلم کے خلاف” حرف شکایت زبان پر لائے تو سزائے موت کا فرمان جاری ہوتا ہے۔

ایسے میں اسلامی صحافت ہی ایک بدل ثابت ہو سکتا ہے جہاں لکھنے والے کا قلم اور بولنے والے کی زبان دونوں پر "خوف خدا” کا پہرا ہوتا ہے، جو اسے حق گوئی پر مجبور کرتا ہے، جہاں دولت کا حسن اور قوت کا غرور سب اپنا اثر کھو دیتے ہیں، لہذا لکھنے اور بولنے والوں کو ضمیر بیچنے کا موقع ملتا ہے، نہ انہیں جھوٹ کے دلدل میں پھنسے کی نوبت آتی ہے، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے والے مکمل آزاد ہوتے ہیں۔

اسی فکر کے ساتھ بصیرت آن لائن نے سفر جاری کیا اور اب تک اس پر قائم ہے،اور امید ہے کہ مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب کی قیادت میں یہ سفر انہیں اصولوں پر جاری رہے گا، ان شاءاللہ۔

نوجوانان آب حیات سوشل ویلفیئر ، ایجوکیشنل کمیٹی نے مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب کو یہ ایوارڈ دے کر، ایک طرف مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب کی خدمات کا اعتراف کیا ہے تو دوسری طرف یہ ایوارڈ اس بات کی شہادت ہے کہ بصیرت آن لائن اپنے مقصد کے حصول کیلئے درست سمت میں محو سفر ہے۔

دعا ہے کہ اللہ مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب کے ساتھ بصیرت کو دن دونی رات چوگنی ترقیات سے نوازے. آمین

Comments are closed.