حیرت انگیزاورقدرت کاکرشمہ: 7 ماہ سے بیہوش خاتون نے بیٹی کوجنم دیا،بچی صحت مند،نارمل ولادت پرڈاکٹربھی حیران

ممبئی(بصیرت نیوزڈیسک)
23 سال کی شافعہ، ’شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ صرف چند دن ہی رہ سکی‘ تقریباً 7 ماہ قبل ایک حادثے کے بعد دہلی کے ایمس میں داخل کرایا گیا تھا۔ اب شافعہ ایک بچی کی ماں ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے سے لے کر ماں بننے تک شافعہ مکمل طورپربے ہوش ہے۔ وہ اپنی آنکھیں کھول سکتی ہے، لیکن نہ ہی بول سکتی ہے اور نہ سمجھ سکتی ہے۔ شافعہ کی ڈیلیوری کرانے والے ڈاکٹرکاکہناہے کہ ان کے22سالہ میڈیکل کیریئر میں یہ پہلا کیس ہے۔
آپ کو لگتا ہے کہ یہ ایک معجزہ ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ان ڈاکٹروں کی محنت ہے، جو ہر روز شافعہ کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ شافعہ کے شوہر حیدر مضبوطی کے ساتھ ہر مشکل میں اپنی بیوی کے ساتھ کھڑےرہے۔
یہی وجہ ہے کہ 7 ماہ قبل جس خاتون کےبارے میں ڈاکٹروں کو صرف 10-15 فیصد زندہ رہنے کی امید تھی، وہ آج نہ صرف زندہ ہے بلکہ ایک بیٹی کی ماں بھی ہے۔ تاہم شاید اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ ماں بن چکی ہے۔ 20 اکتوبر کو شافعہ نے ایک صحت مند بچی کو جنم دیا۔ سڑک حادثے کے وقت وہ 40 دن کی حاملہ تھیں۔ علاج کے باوجود اسے ہوش نہیں آیا۔
شادی کے صرف ڈیڑھ ماہ بعد حادثہ، پھر لمبی بیہوشی…
یوپی کے بلند شہر کی رہنے والی شافعہ کی شادی کو تقریباً ڈیڑھ ماہ ہوا تھا۔ 31 مارچ کو شافعہ اپنے شوہر حیدر کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہی تھی۔ اچانک اس کا دوپٹہ موٹر سائیکل میں پھنس گیا اور وہ گر گئی۔ دونوں نے ہیلمٹ نہیں پہنے ہوئے تھے۔ شافعہ زمین پر گر گئی اور سر میں شدید چوٹ آئی۔ حیدر شافعہ کو قریبی ہسپتال لے گیا۔ وہاں سے انہیں ایمس ریفر کیا گیا۔
31 مارچ کی رات شافعہ کو بے ہوشی کی حالت میں ایمس لایا گیا تھا۔ نیورو سرجری کے پروفیسر ڈاکٹر دیپک گپتا کا کہنا ہے کہ خاتون کو فوری طور پر داخل کر کے سرجری کی گئی۔ جب اس نے حمل کا ٹیسٹ کروایا تو وہ 40 دن کی حاملہ تھیں۔ ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ بچہ محفوظ ہے۔ اس نے خاتون کے گھر والوں سے بات کی۔ اب یہ فیصلہ کرنے کا وقت تھا کہ حمل ختم کرنا ہے یا نہیں۔
شوہر حیدر نے کہا کہ وہ بچہ چاہتا ہے۔ 12-14 ہفتوں کے بعد، لیول-2 کے الٹراسونوگرافی ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ بچہ صحت مند ہے اور اس کا جسم ترقی کر رہا ہے۔
شوہر بولا، اگر میرا حادثہ ہوتا تو شافعہ بھی میرا ساتھ دیتی، میں کیسے پیچھے ہٹوں؟
حادثے کے بعد حیدر کی زندگی بالکل بدل گئی ہے۔ پہلے وہ ٹیکسی چلاتا تھا لیکن حادثے کے بعد بیوی کو ہوش نہیں رہا۔ شافعہ کی دیکھ بھال کے لیے کام چھوڑ دیا۔
جب وہ ایمس کے ٹراما سینٹر وارڈ میں شافعہ کو دیکھنے گئے تو ان کی ناک میں ٹیوب لگی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ پنکھے کو گھور رہی تھی۔ گزشتہ 7 ماہ سے بستر پر رہنے کے بعد شافعہ کا جسم سوکھ چکا ہے۔ ٹیوب کے ذریعے صرف دودھ اندر جاتا ہے اور اسی کی مدد سے وہ زندہ ہے۔
حیدر میڈیا سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کے پاس اس کی ایک وجہ ہے۔ جب حادثہ ہوا تو ایک نیوز چینل نے ان کی باتوں کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر خبر لکھی تھی۔ اس لیے اب وہ میڈیا پر جلدی بھروسہ نہیں کر تے۔ حیدر نے اپنے موبائل کے وال پیپر پر اپنی چھوٹی بچی کی تصویر لگائی ہے۔
اب حیدر کے جذبات کوسنیں!
حیدرنے ہندی روزنامہ دینک بھاسکر کوبتایا’’ہماری شادی کو ڈیڑھ یا دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا۔ جب علاج شروع ہوا تو یہ امید نہیں تھی کہ شافعہ بچ سکے گی۔ میں نے گزشتہ 7 ماہ کا ہر لمحہ شافعہ کو بچانے میں صرف کیا ہے۔ اگر شافعہ کے بجائے میری یہ حالت ہوتی تو وہ خوشی خوشی زندگی بھر میرا خیال رکھتی، میں یہ مانتا ہوں۔
بچے کی زندگی اور اس کی پرورش، یہ فیصلہ سب سے مشکل تھا…
ڈاکٹر گپتا کہتے ہیں :’’میرے کیریئر میں، یہ کیس کئی طریقوں سے مختلف تھا۔ ہمارے سامنے سوال یہ تھا کہ کیا ہمیں مریض کے پیٹ میں بڑھنے والے صحت مند بچے کو ختم کر دینا چاہیے؟ دوسری طرف ہمارے ہاں ایک بے ہوش ماں تھی جو بچے کی پیدائش کے بعد اس کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی تھی۔ وہ بچہ ماں کی محبت اور پرورش حاصل نہیں کر سکے گا۔
ایک طرف بچے کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی اور دوسری طرف اس کی پرورش چھوٹ جانے کا اندیشہ تھا۔ یہ فیصلہ اس سارے عمل میں سب سے مشکل تھا۔ بالآخر، عورت کے شوہر، حیدر کو فیصلہ کرنا پڑا کہ آیا وہ بیوی کے حمل کو جاری رکھنا چاہتا ہے یا ختم کرنا چاہتا ہے۔ حیدر نے فیصلہ کیا کہ وہ شافعہ کے ساتھ اپنے بچے کو بچانا چاہتا ہے۔
ڈاکٹر دیپک گپتا کے مطابق جب بھی اس عمر کی کوئی خاتون نیورو ڈپارٹمنٹ میں آتی ہے تو ہم حمل کا ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، حمل یا تو خود ہی ختم ہو جاتا ہے یا خاندان ختم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
سب سے بنیادی، لیکن ضروری!
حیدر اور شافعہ دونوں نے حادثے کے وقت ہیلمٹ نہیں پہنے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر گپتا کا کہنا ہے کہ اس کیس کے ذریعے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ان دونوں نے اس دن ہیلمٹ پہنا ہوتا تو سر میں چوٹ نہ آتی۔ تھوڑی بہت علاج کے بعد مریض ٹھیک ہو جاتا۔لیکن ہیلمٹ نہ پہننے کی وجہ سے آج تک عورت زندگی اور موت سے لڑرہی ہے۔
Comments are closed.