لاقانونیت کی ایک بڑی وجہ!!

محمد صابر حسین ندوی
قوانین انسان کو منظم کرتے ہیں، جماعتیں، ادارے اور حکومتوں کی بنیاد قوانین اور ان کی پاسداری ہے، اگر کہیں قوانین نہ ہوں تو پورا نظام ڈھپ ہوجائے گا، جس طرح خزاں کے موسم میں درخت سے سارے پتے جھڑ جاتے ہیں، ٹہنیاں خشک ہوجاتی ہیں، پرندے اڑ جاتے ہیں، منحوسیت اور خشکی ایسی چھاجاتی ہے کہ کوئی اسے تکنے کو تیار نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح لاقانونیت خواہ قوانین ہوں پھر ان پر عمل نہ کیا جائے یا پھر سرے سے ہی قانون سازی نہ کی گئی ہو تو ایسے میں انسانی جتھوں کو پت جھڑ میں بدل دیتی ہے، انسانی مجموعے پتوں کی طرح گرتے ہیں، ان کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے، اور پورا معاشرہ، ادارہ، جماعت سوکھے پتے کی طرح بے حیثیت، بے وزن اور بے کار کل پرزے کی طرح بن جاتے ہیں، ایک جنگل راج ہوجاتا ہے، انسانی زندگی جانوروں سے بدتر ہوجاتی ہے، ہر کوئی انہیں ایک معمولی لکڑی لیکر بھیڑ بکریوں کی طرح کھدیڑ کر رکھ دیتا ہے، کمزور ترین انسان ان پر حکمرانی کرتا ہے، انہیں اپنا غلام بناتا ہے، ان کی سوچ وفکر سے کھلواڑ کرتا ہے، انہیں موم کی ناک بنا کر اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ڈھالتا رہتا ہے، وہ بازیچہ اطفال ہوجاتا ہے، شکستہ کمان، کھردرا تیر اور زنگ آلود تلوار بن جاتا ہے، اس کی دھار مٹ جاتی ہے، اس کے اقدار و نقوش تہس نہس ہوجاتے ہیں، ان کے پاس کتنے ہی وسائل ہوں، اسباب و ذرائع ہوں وہ سب ناکارہ ثابت ہوتے ہیں؛ حتی کہ ان کی کاوشیں اگرچہ جوش رنگ ہوتی ہیں مگر وہ اندر سے کھوکھلی اور بے کار ہوتی ہیں، جنہیں کوئی ایک پھونک سے اڑا دے، ایک گھاس پھوس کا وہ گھر جس کو ایک معمولی ہوا زمین بوس کردے، بلاشبہ کسی بھی قوم و ملت، جماعت و ادارے اور انسانی گروہ کیلئے قوانین اور ان کا پاس و لحاظ اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک جسم کیلئے سر، وجود کیلئے سانسیں اور اپنائیت کیلئے اخلاص، اگر کہیں ان میں کوئی کمی ہے تو ترقی و تعمیر کی کوئی گنجائش نہیں، آج مغرب عروج پر ہے، چین، جاپان، کوریا جیسے ممالک دنیا کی قیادت کر رہے ہیں، ان میں سے بہت سے ملکوں کے پاس بنیادی وسائل بھی نہیں؛ لیکن اپنی محنت و لگن اور ڈسپلن کے ذریعہ انہوں نے سب کچھ ممکن کر دکھایا ہے، وہ صرف آسانیوں میں نہیں بلکہ مشکلوں میں بھی بدنظمی، لاقانونیت کو پسند نہیں کرتے ہیں، کرپشن، فساد اور پبلک پراپرٹی میں کسی بھی طرح کے جرائم کو برداشت نہیں کرتے، چنانچہ وہ اسوہ بنے ہوئے ہیں، ان کی مثالیں دی جاتی ہیں اور ممالک ان جیسا بننے کو اپنا مشن سمجھتی ہیں۔
غور کیجیے! ان ممالک میں یا جہاں کہیں بھی لاقانونیت نہیں ہے ان کی ایک خاص وجہ ہے، وہاں صرف قانون کی پاس داری ہی نہیں کروائی جاتی؛ بلکہ قانون کے نفاذ میں برابری کا خیال رکھا جاتا ہے، یا یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ان ممالک میں قانون نافذ کرنے اور معاشرہ و ادارہ منظم کرنے کا نسخہ کیمیا یہی ہے کہ وہ قوانین کو ہر ایک پر یکساں نافذ کرتے ہیں، وہ بڑا، چھوٹا اور نادان و عقل مند اور جاہل و صاحب علم کا کوئی فرق نہیں کرتے، ذات پات اور اونچ نیچ کا کوئی گزر نہیں ہوتا، مفاد و غیر مفاد، متعلق و غیر متعلق، امیر یا غریب کی کوئی بات نہیں ہوتی، یہ نہیں کہا جاتا کہ فلاں بات نہیں مانتے تو انہیں چھوڑ دیجئے! اور فلاں کمزور ہیں تو ان کا گلا دبا دیجیے! مجبور کو ستائیے اور طاقت ور کے سامنے التجا کیجیے! غرض دیکھ کر ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کیجئے اور جن سے غرض نہ ہو انہیں نوچ ڈالیے، جو آپ کے سر پر تانڈو کریں انہیں کچھ نہ کہیے لیکن جو آپ کی عزت میں جھکا جاتا ہو اس کی چپل گھسوا دیجیے! دھوپ، چھاؤں اور سردی کسی موسم کا کوئی لحاظ نہ کیجئے! واقعہ یہ جب تک حقوق فراہمی، عزت نفس اور قدر قیمت میں سبھوں کو ایک ہی ترازو میں نہ تولا جائے تب تک انصاف اور تنظیم و جماعت اور اداروں کا منظم ہونا محض خام خیالی ہے، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بنی اسرائیل کے پادریوں کے سلسلہ میں بتلایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ کرنے میں برابری کا خیال نہیں رکھتے تھے، اگر کوئی مال دار، صاحب حیثیت شخص مجرم قرار پاتا تو اسے معاف کر دیتے، اس کی جانب سے کوئی نہ کوئی تاویل کر لیا کرتے تھے اور جب کوئی غریب، فقیر یا ایسا شخص جو پادری کو خوش نہ کر سکے، مال و زر نہ دے سکے تو اسے سزا سنا دی جاتی تھی، کلیسا کا دور ختم ہونے اور اسے تہہ و بالا کرنے اس رویہ کا بڑا اہم کردار ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس معاشرتی کینسر سے واقف تھے، آپ جانتے تھے کہ اگر ذمہ داران نے حق کو برابر نہ رکھا اور قوانین کے نفاذ میں یکساں معاملہ نہ کیا تو سارے قوانین دھرے رہ جائیں گے، اس تناظر میں یہ روایت ملاحظہ کیجیے! حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چوری کی، ان لوگوں نے کہا: اس سلسلے میں ہم آپ سے بات نہیں کر سکتے، آپ سے صرف آپ کے محبوب اسامہ ہی بات کر سکتے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے اس سلسلے میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسامہ! ٹھہرو، بنی اسرائیل انہی جیسی چیزوں سے ہلاک ہوئے، جب ان میں کوئی اونچے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر ان میں کوئی نچلے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔ اگر اس جگہ فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا“۔ (سنن نسائی:٤٩٠١) غرض یہ کہ آج بھی معاشرے میں بگاڑ اور لاقانونیت کی وجہ یہی ہے کہ اولاً تو قانون کا نفاذ نہیں، دوم اگر نفاذ ہوتا بھی ہے تو کم مایہ لوگوں پر، ایسے میں ادارے، تنظیمات، حکومتیں برباد نہ ہوں تو کیوں کر نہ ہوں؟
7987972043
Comments are closed.