سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکومت

ماریہ نور (سرگودھا)

 

پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے کئی دیہات زیرِ آب آگئے ہیں۔ بے شمار مکانات مسمار ہو گئے ہیں۔ بپھرے پانی کی طاقت نے لاتعداد گھروں، سڑکوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور کھیتوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ علاقہ مکین سب کچھ گنوا کر جان بچاتے ہوئے اپنے گھروں کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ اور بے شمار بچے، عورتیں، بوڑھے امداد کے انتظار میں بے یارومددگار سڑکوں کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 5 ہزار 715 سے زائد دیہات سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں۔ اور تین کروڑ تیس لاکھ افراد سیلاب کی ستم ظریفی کا نشانہ بنے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین صورتحال کو جنم دے رہی ہیں۔ جیسے کہ ہر طرف پھیلا پانی مچھروں کو دعوت دے رہا ہے۔ اور ملیریا اور ڈینگی جیسے ملحق امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ آلودہ پانی پینے سے جلد اور سانس کی بیماریاں زور پکڑ رہی ہیں۔ بے بسی کی تصویر بنے مفلوک الحال لوگ غذائی قلت اور طبی امداد کی عدم فراہمی کا شکار ہیں۔ سیلاب نے کئی اسکولوں کی عمارتوں کو زمین بوس کردی ہے۔ جس سے اَن گنت بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا ہے۔ آفت زدہ علاقوں میں نظامِ زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوگیا ہے۔ عوام الناس کی فلاح و بہبود اور بچوں کا مستقبل سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔ موجودہ سیلاب قیامتِ صغریٰ کا منظر پیش کر رہا ہے۔
ایسے مشکل کے وقت میں سیلاب کے عتاب کا نشانہ بننے والے ہماری امداد کے منتظر ہیں۔ تمام لوگوں کو علاقائی اور نسلی تفرقات سے بالاتر ہو کر متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے ہم وطن بہن بھائیوں کی تکلیفات کا ازالہ کیا جا سکے۔ اور ان کی بھرپور اعانت کی جائے۔ کیونکہ سیاسی پارٹیوں سے کسی قسم کی امداد کی توقع کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
موجودہ سیاسی پارٹیاں کرسی کرسی کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف خان کے جلسے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف سیلاب زدہ علاقوں میں کڑائیوں میں جنازے اٹھ رہے ہیں۔ ایک طرف بیرون ملک حکومت کے دورے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔ اور مریم نواز ایک غریب کی بے بسی کی تصویر بنوا کر اپنی نام نہاد سخاوت کی تشہیر کرتی ہیں۔ اگر ایسی ہی مشکل بھری گھڑیوں میں نون لیگ کے عہدے دار اے ڈی سی قرۃ العین کی طرح لوگوں کو گھروں سے نکالنے کے لیے خود گھر سے نکلا کرتے تو کبھی نواز شریف کو یہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ مجھے کیوں نکالا؟ بلاول بھٹو یہ تو جانتے ہیں کہ زیادہ بارش ہونے پر زیادہ پانی آتا ہے مگر زیادہ پانی آنے کے بعد کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے یہ نہیں جانتے۔ کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست مفاد پرست ہے۔ سیاستدانوں کا مقصد پاکستانیوں کی ترقی و بقا نہیں بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں عہدے کی چاہ ہے۔
شوق بہرائچی صاحب اُلو کو گلشن کی بربادی کا سبب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
بربادِ گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا

مگر میں کہتی ہوں۔

بربادِ پاکستاں کرنے کو بس ایک ہی زرداری بھاری تھا
ہر سیٹ پہ شریف بیٹھا ہے آفت کا سماں کیا ہو گا

ہمارے حکمرانوں کو پریشان حال لوگوں کے درد کو سمجھنے کے لئے اس درد نگر میں اترنا ہوگا۔ جہاں وہ سب گنوا کر کھلے آسمان کو چھت بنا کر، بھوک کی شدت سے گھاس کو خوراک بنا کر اور پانی کی طلب کو مٹانے کے لیے گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جب حکمران خود کو ان تکلیفات سے گزاریں گے تبھی وہ مشکلوں کا سدِباب کرنے اور آئندہ ایسی آفات سے بچنے کے لیے معقول اقدامات کریں گے۔ مگر صاحبِ اقتدار لوگ اے سی اور تمام آسائشوں سے مزین بند کمروں میں بیٹھ کر عوام کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور امداد کے اعلان کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی اقدار دن بدن تنزلی کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ موقع پرست لوگ ایسی صورتحال میں اشیائے خوردونوش کا ذخیرہ کر لیتے ہیں اور پھر مہنگائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور بجلی کی بندش، قیمتوں میں اضافہ، اشیائے ضروریہ کی قلت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
حالیہ سیلاب نے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے مگر تاحال کوئی بھی موثر پالیسی وضع نہیں کی گئی۔ حکومت فوری طور پر ریلیف آپریشن کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور ہنگامی بنیادوں پر امدادی کام بھی کیے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی دور رس حکمتِ عملی بروئے کار نہیں لائی جاتی۔ بلکہ بیرون ممالک کی امداد پر انحصار کیا جاتا ہے جس سے عوام کا کم اور اشرافیہ کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔
بے شمار لوگ اس سیلاب کو خدا کا عتاب قرار دے رہے ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ سیلاب بدانتظامی کا عذاب ہے جو ہر سال عوام پر نا اہل حکمرانوں کی جانب سے مسلط ہوتا ہے کیونکہ نہ تو بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی نظام ہے نہ ڈیم بنائے جاتے ہیں نہ بند باندھے جاتے ہیں نہ سیوریج سسٹم صحیح طریقے سے کام کرتا ہے۔ یعنی کہ اگر پانی کے استعمال و اخراج اور محفوظ کرنے کا ایک بہتر اور معقول انتظام ہوتا تو ہم اس تباہی سے بچ جاتے۔
سیلاب کا شکار ہر چہرہ ایک دکھی داستان کی عکاسی کر رہا ہے۔ ان بے آسرا بیٹھے بے بس لوگوں کے لئے بارش فقط ایک زحمت بن چکی ہے اور ان کی سرخی مائل آنکھیں ہماری مدد کی منتظر ہیں۔
ہمارا دینِ اسلام ہمیں حقوق العباد کے حوالے سے مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے اور مصیبت زدہ کی مدد کرنے کا درس دیتا ہے۔ تو آج وقت ہے مواخاتِ مدینہ کے منظر کو دہرانے کا ، اپنے مسلمان بھائیوں کے درد مٹانے کا، کہ آج ہمارے سیلاب زدہ بھائیوں کو ہماری داد رسی کی ضرورت ہے۔ ایک دینِ کامل کے پیروکار ہوتے ہوئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے ملک کے آفت زدہ افراد کی مالی امداد کریں۔ فلاحی انجمنوں جیسے الخدمت فاؤنڈیشن، المدرار انسٹیٹیوٹ وغیرہ کی دل کھول کر مالی اعانت کریں اور سیلاب زدہ کی مشکلوں کو ختم کرنے کے لیے موثر کردار ادا کریں۔ تاکہ سیلاب زدہ کی ازسرِ نو آبادکاری کی جائے۔ ہمارا نیک نیتی سے کیا گیا یہ عمل جہاں ہمارے پریشان حال لوگوں کے لئے باعث تشفی ہو گا وہی ہمارے لیے بھی روحانی تسکین کا باعث بنے گا۔ ان شاءاللہ

Comments are closed.