تصور حیات

اقصی فیروز
دنیا اور اس کی ہر شے جذبات بے خودی میں جوں جوں واقفیت کی منازل طے کرہی ہے ،اس کا حسن حسین تر ،نہایت پر کیف مراحل سے گزر رہا ہے ۔سکوں و اضطراب کی یہ کشمکش حروف پر مبنی، لفظوں کی کسوٹی پر رنگوں کو پرکھنے کا ہنر رکھتی ہے۔ ہوا،پانی،خشکی،پھل، پھول، چرند پرند اپنے مخصوص انداز میں دنیا سے روابت قائم کیے ہوئے ہیں۔انسانی شعور جس کی بنیاد پر اسے شرف انسانیت بخشا گیا خود حیراں! قدرت کے مناظر کو اپنی آنکھوں کے جزیروں میں اتار رہا ہے۔جس کی واضح مثال وہ خود ہے۔ انگنت خلیوں پر مشتمل بافتوں سے بنے اعضاء اور ان سب میں پانی سے بنے خون کی آمیزش پھر آتی چاتی ہوا کو سانسوں کی مالا میں پرو کر مختلف معاملات میں ماضی،حال، مستقبل کی ڈور تھماتے ہوئے ہر ایک زمینی مشن پر اس کی نوک پلک سنوارنے اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کے ارادے سے بھیجا گیا ۔
قرآن حکیم کے مطابق نظامِ کائنات کی دیگر عظیم چیزیں جیسے سورج ، چاند ، ہوا ، پانی ، دن رات ، دریا ، نہریں ، سمندر وغیرہ بھی اللہ عزوجل نے انسانوں کے لئے کام میں لگائے ہوئے ہیں۔ زندگی گزارنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت تھی یا مفید تھیں ، اللہ تعالیٰ نے وہ سب انسان کو مہیا فرمائیں ، چنانچہ فرمایا : اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠(۷۰) ترجمہ : اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی۔ (پ15 ، بنی اسرآءیل :
ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَ جَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَۚ(۳۲) وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآىٕبَیْنِۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَۚ(۳۳)
ترجمہ : اللہ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے تمہارے کھانے کیلئے کچھ پھل نکالے اور کشتیوں کو تمہارے قابو میں دیدیا تاکہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور دریا تمہارے قابو میں دیدئیے اور تمہارے لیے سورج اور چاندکو کام پر لگا دیا جو برابر چل رہے ہیں اور تمہارے لیے رات اور دن کومسخر کر دیا۔ (پ13 ، ابراہیم : 32 ، 33) :
انسان وقت کی قید میں لمحوں کی میعاد ختم ہونے سے قبل رشتوں کے پر خلوص انداز، حقوقِ العباد سے جڑے رہنے کی وصیت پر لبیک کہتا اپنا اپنا کام سر انجام دے رہا ہے۔ہاں فطرتاً انسان پاکیزہ دین (دین اسلام) پر ہی دنیا میں پدھارا۔ مگر ان میں بہت سے لوگ حق سے بھٹک گئے اور اپنی اولاد کو انہیں عقائد پر یعنی یہودی، عیسائی، مجوسی وغیرہ ہونے کی تلقین کرتے رہے۔(بخاری)
گویا جنت کا تصور راہ حق ہے اور شرک دوزخ کا واضح راستہ! یقینا دوزخ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اہلِ جنت میں سے جسے چاہے گا اپنی رحمت کے صدقے جنت میں داخل کر دے گا اور اہلِ جہنم میں سے جسے چاہے گا جہنم میں داخل کر دے گا ، پھر فرمائے گا: دیکھو جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لو، چنانچہ وہ لوگ جہنم سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ ان کا جسم جل کر کوئلہ ہو چکا ہو گا پھر انہیں آبِ حیات کی نہر میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس نہر میں سے اس طرح ترو تازہ ہو کر نکلنا شروع ہوں گے جیسے دانہ پانی کے بہاؤ والی مٹی میں سے زردی مائل ہو کر اُگ پڑتا ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات الشفاعۃ واخراج الموحدین من النار، ص۱۱۵، الحدیث: ۳۰۴(۱۸۴))۔
تصور حیات میں زندگی کے ہیں دو وجود..اک فانی دنیا کا رنگ وبو اور اک تاحیات، لازوال ،بےحساب، نا تمام یعنی آخرت کا ابدی تصور جسے علامہ اقبال نے زمانے کو لفظوں میں کچھ اس طرح بیان کیا کہ
” نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں لیے”۔
یہ زندگی ہے،وقت کی محلت ہے،خوشی و غم میں چھپی آزمائشیں ہیں،طرح طرح کے طور طریقے اور رنگ و نسل کی تفریق ہے۔جہاں جذبوں کی تجارت میں نفع محظ خودی سے واقفیت ہی ہے۔جہاں ایک مدت اپنوں میں گزار کر بھی آپ کا دامن خالی ہی رہتا ہے آپ کی قدر آپ کی مال و متاع ہے۔مگر یہی وہ جگہ ہے جہاں آپ تھک ہار کر قرآن کو انگلیوں کے پوروں سے محسوس کرتے ہیں اسے سینے سے لگا کر اس کے لفظ لفظ کو اپنی زندگی میں اترانے کی سعی کرتے ہیں درحقیقت یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آپ ہار مان لیتے ہیں ۔آپ مان لیتے ہیں کے مصحف کے بغیر آپ کا وجود بے معنی ہے آپ مزید وقت ضائع کرنے سے خوف زدہ ہیں یقیناً آپ کے مصحف نے اللہ کا پیغام آپ تک پہنچا دیا چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛
وَالْعَصْرِ (1)
زمانہ کی قسم ہے۔
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفی خُسْرٍ (2)
بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔
تو دوسری طرف اسے ان الفاظوں میں تسلی دی گئی
اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق (بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے
گویا زندگی کا حسن انسان خود ہے جو اسے اپنے پختہ فیصلوں سے مزید خوبصورت بناتا ہے نیز قرآن کی ہر سطر میں ایک حکم ہے اور ہر حکم کے ساتھ دلائل موجود ہیں پس سمجھداری اسے میں ہے کہ رب تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنا، اس پر عمل پیرا ہونا اور اس کی تبلیغ واشاعت کو اپنا بنیادی جز بنانا مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔
"مٹا دے اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانا خاک میں مل کر گلے گلزار ہوتا ہے”۔
Comments are closed.