دعا،بندگی کامظہر

روبی ناز (اٹک)

دعا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی دعا اور پکار کے ہیں۔مذہبی مفہوم میں اس سے مراد اللہ سے کوئی فریاد کرنے یا طلب کرنےکی ہوتی ہے۔اہل اسلام کے نزدیک دعا مانگنا عبادت میں شامل ہے۔

اللّٰه تعالٰی نےانسان کو جہاں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے وہیں دعا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔جب ہر طرف اندھیرے چھا جائیں اور مایوسی کے ڈیرے ہوں وہاں دعا ایک دیے کا کام کرتی ہے۔اللّٰه تعالٰی نے آزمائش کےلیے چنے جانے والوں کی دعاؤں کو بھی قبولیت کے لیے چن رکھا ہوتا ہے۔اس کائنات کے سارے معجزے دعاؤں سے ہی تو ہوتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے بے رنگ زندگیوں کو دھنک رنگوں سے سجتے ہوئے۔اور یہ سب دعا کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔دعا مومن کا ایک ہتھیار ہے۔ یہ عبادت ہے اور رب کی خوشنودی کا ذریعہ بھی۔یہ وہ پھول ہے جو امیدوں کا گلشن مہکائے رکھتا ہے۔اور وہ خوش رنگ گل ہے جو گلشنِ حیات کو معطر رکھتا ہے۔یہ احساسِ بندگی کی معراج ہے اور خالق و مخلوق کے درمیان رابطے کا پل بھی۔یہ ایک سرگوشی ہے جو رب تعالیٰ کو رازدان بنا کر اس سے کی جاتی ہے۔اس طرح یہ قربتِ الٰہی کا وسیلہ بھی ہے۔ربِ کائنات نے خود فرمایا کہ مجھ سے مانگو میں ہی عطا کروں گا۔اور وہ عطا کرتا ہے کیونکہ صرف وہی دے سکتا ہے اور دینے پر قادر ہے۔زندگی میں جب ہر سمت سے راستے بند ہو جائیں تو رب کے در پردستک دینی چاہیے۔اور اس وقت بھی دعا مانگنی چاہیے جب بظاہر ہر چیز مخالف ہو جائے کیونکہ جس کے در پر عرض لے کر کھڑے ہیں اس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔وہ جو ابراہیم کی جلتی آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہے وہ میرا رب ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔دعا کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں اللہ کی مقدس کتاب اور نبی کریم کی احادیث میں بھی حکم آیا ہے۔

*ارشاد ربانی ہے*

"جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو کہہ دیجیے میں قریب ہی ہوں،ہر پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں”(البقرہ)

"اسے اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کرجس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں” (الاسراء)

"مجبور و بے نوا کی فریادیں اس کے سوا کون سنتا ہے؟بے کس کی پکار کو جب وہ اس کو پکارے،کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے”(النمل)

"پس تم اللہ سے ہی روزی طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو”(العنکبوت)

"اللہ ہی سے فریادیں کرو چاہے کافروں کو برا لگے:تم اپنے دین کو اللہ کےلیے خالص کرکے اسی کو پکارتے رہو چاہے کافر برا مانیں”(غافر)

"اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے دعا مانگو،بے شک وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا”(الاعراف)

*دعا کی فضیلت میں وارد احادیث*

"دعا عین عبادت ہے”سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

” اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں ہی کھلاؤں، پس تم سب مجھ ہی سے کھانا مانگوتاکہ میں تمہیں کھلاؤں۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں ہی پہنا دوں، سو تم مجھ ہی سے لباس طلب کرو تاکہ میں تمہیں پہنا دوں ۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے ، تمہارے جن اور انسان سب ایک ہی میدان میں جمع ہو جائیں اور سب مل کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر سوال کرنے والے کو اس کی طلب کے مطابق عطا کردوں تو میرے خزانے میں سے اتنی بھی کمی نہیں ہو گی جتنی ایک سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے اس کے پانی میں کمی ہوتی ہے۔”

٭ کوئی میری طرف آکر تودیکھے:

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا

"جو اللہ سے نہ مانگے اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے”

اللہ کو دعا سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں

سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

"اللہ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز قابل عزت نہیں”

دعا انسان اور رب کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔جب انسان ہر طرف سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس کے سامنے اشک بہاتا ہے وہ بے قرار دل کو سکون دیتا ہے۔وہ دھتکارتا نہیں بس ہر حال میں قبول کر لیتا ہے۔وہ راز افشاں نہیں کرتا۔وہ دل آزاری نہیں کرتا بلکہ کبھی من پسند چیز سے نواز دیتا ہے۔اور کبھی یوں دل کو تسلی سے بھر دیتا ہے کہ اس چیز کی چاہت ہی دم توڑ دیتی ہے۔غرضیکہ دعا کا رشتہ اتنا مضبوط ہو کہ ادھر دل سے صدا نکلے ادھر فیکون کا حکم آجائے۔

یہ فلسفہ عشق ہے صرف دماغ سے کہاں سمجھ آئے گا!!!!!

Comments are closed.