اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکے اکتسویں فقہی سیمینارمیں مندرجہ ذیل تجاویزمنظورکی گئیں

ممبئی (بصیرت نیوزڈیسک)
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں ایک معروف اورمستندعلمی اورتحقیقی ادارہ ہےجس کامقصدمسلمانوںکے لئے فقہ اسلامی کے جدیداورمتنوع مسائل کوقرآن وسنت اوراجماع صحابہ واقوال ائمہ کی روشنی میں حل کرکے پیش کیاجائے۔اکیڈمی کاقیام ۱۹۸۹میں عمل میں آیاتھااوراس کے بانی مشہورفقیہ اورامارت شرعیہ کے قاضی القضاۃ حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ابتدائے قیام سے اب تک یہ ادارہ انتہائی فعالیت اورحرکیت کے ساتھ فقہ اسلامی کی خدمات انجام دیتاآرہاہے۔اب تک اکیڈمی کے تحت ۳۱؍فقہی سیمیناراورسینکڑوں چھوٹے چھوٹے تربیتی ورکشاپ منعقدہوچکے ہیں۔اس سال مدھیہ پردیش کی تاریخی سرزمین برہانپورکی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم شیخ علی متقی میں اکتیسواں سیمینارمنعقدہواجس میں ملک وبیرون ملک کے تقریبا۲۵۰ سے زائداصحاب افتااورعلم وتحقیق کے ماہرین نے شرکت کی۔اس موقع پرچارجدیدمسائل پربحث کی گئی اوراس کے بعداس کے تعلق سے جامع تجاویزپیش کی گئیں ۔تجاویزسے قبل اکیڈمی نے امت مسلمہ سے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے ایک اپیل بھی جاری کی جوکہ مندرجہ ذیل ہے:
اپیل بابت
مسلمان زیادہ سے زیادہ اسلامی اسکول اور بالخصوص لڑکیوں کے لئے جداگانہ تعلیمی ادارے قائم کریں
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے سمینار میں ملک بھر کے علماء اور اصحاب فکر کی اپیل
دار العلوم شیخ علی متقی برہانپور مدھیہ پردیش میں پورے ملک کے منتخب علماء وارباب افتاء جمع ہوئے اور انہوں نے متعدد جدید شرعی مسائل پر فیصلے کئے، اس موقع سے ملت اسلامیہ ہند کے نام ایک مشترکہ اپیل جاری کی گئی کہ اس وقت ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو ماحول پیدا کیا جارہا ہے، مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت سے محروم کر نے کی کوشش کی جارہی ہے، یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں سیکولر کردار کو ختم کرکے زعفرانی فکر مسلط کی جارہی ہے، بالخصوص نئی ایجوکیشن پالیسی اس طرح مرتب کی گئی ہے کہ ملک سیکولرزم کے بجائے ہندتو کے راستہ پر چل پڑے، مسلمان لڑکیوں کو حجاب کے حق سے محروم کیا جارہا ہے، اس پس منظر میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلامی ماحول کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عصری تعلیمی ادارے قائم کریں اور گرلز اسکول کے قیام پر خصوصی توجہ دیں، تاکہ لڑکیاں محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں اور مسلمان بچے اپنی شناخت کے ساتھ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں، علماء، مدارس، مذہبی شخصیتوں اور مذہبی جماعتوں کو اس پرخصوصیت کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ جو ادارے قائم ہوں ان میں دینی روح باقی رہے اور وہ خالصتا کمرشیل اندازمیں کام کرنے کے بجائے دینی او ر ملی جذبہ کے ساتھ خدمت انجام دیں۔
تجاویز بابت
جمعہ کے لئے مصر ہونے کی شرط -موجودہ حالات کے پس منظر میں
نماز جمعہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں دوسری نمازوں میں غفلت برتنے والے مسلمان بھی عام طور پر نماز جمعہ کا اہتمام کرتے ہیں اور بیشتر مسجدوں میں خطبہ جمعہ سے پہلے مقامی زبانوں میں دینی واصلاحی باتیں کہی جاتی ہیں، جن سے لوگوں کو بہت نفع ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے اکتیسویں فقہی سمینار منعقدہ برہانپور میں مندرجہ ذیل فیصلے کئے گئے:
۱- جس آبادی میں بنیادی ضروریات جیسے اشیاء خورد ونوش وغیرہ مل جاتی ہوں وہاں جمعہ قائم کرنا درست ہے۔
۲- ایسی چھوٹی آبادی جہاں بنیادی ضرورتیں بھی مقامی طور پر نہیں مل پاتی ہوں وہاں جمعہ قائم کرنا درست نہیں ہے۔
۳- البتہ جہاں پہلے سے جمعہ ہوتا آرہا ہو وہاں جمعہ کو نہیں روکا جائے۔
۴- موجودہ حالات میں مسلمانوں کو دین سے دور کرنے اور مرتد بنانے کی سازشیں کی جارہی ہیں، اس صورت حال کا مقابلہ کرنے میں جمعہ کا قیام مفید وموثر ہوسکتا ہے، اس لئے جہاں بھی مسلمانوں کو فتنہ ارتداد سے بچانے کے لئے جمعہ قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جائے؛ خواہ وہ چھوٹا گاؤں ہی کیوں نہ ہو، وہاں معتبر علماء کی اجازت سے جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
٭ ٭ ٭
تجاویز بابت
دار القضاء کی آن لائن بعض کارروائیاں
۱- عام حالات میں دعوی، رفع الزام اور اداء شہادت کے لئے مجلس قضاء میں حاضر ہونا ضروری ہے، البتہ اگر طویل عرصہ کے لئے کرونا اور اس جیسے سنگین حالات پیداہوجائیں جبکہ مجلس قضاء میں حاضر ہونا ممکن نہ ہو تو قاضی اپنا نائب بناکر مقدمہ کی کارروائی کرے اور اگر وکیل یا نائب کے ذریعہ بھی کارروائی انجام دینا ممکن نہ ہو تو کار قضاء کی اصل روح قیام عدل، احیاء حقوق، رفع ظلم اور دفع نزاع کی اہمیت کے پیش نظرقاضی مقرر کرنے والی ذمہ دار شخصیت یا ادارہ کی اجازت سے آن لائن کارروائی کی جاسکتی ہے مگر اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ایسی تمام تکنیکی اور احتیاطی تدابیر کرلی جائیں کہ تلبیس کا اندیشہ باقی نہیں رہے، ایسی صورت میں آن لائن فریقین اور شاہدین وغیرہ کی شناخت بھی درست ہوگی۔
۲- حقیت (زمین وجائداد) کے معاملات میں چونکہ آن لائن معائنہ سے حقیقت تک رسائی نہیں ہوسکتی ہے، اس لئے ان مقدمات کی کارروائی آن لائن درست نہیں ہوگی، ان مقدمات کو موخر رکھا جائے گا۔
۳- فریقین کو آن لائن اطلاعات بھیجنے کی صورت میں اگر ان اطلاعات کے درست ہونے کا ظن غالب ہوجائے اور ریکارڈ محفوظ رکھا جاسکتا ہو، بوقت ضرورت اس کو پیش کرنے پر قدرت ہو، تو آن لائن اطلاعات بھیجنے کی گنجائش ہوگی، البتہ محفوظ صورت پوسٹل نظام ہی ہے جس پر اب تک عمل ہوتا آرہا ہے۔
۴- چوںکہ آڈیو کالنگ میں اشتباہ زیادہ ہے اس لئے اس کے ذریعہ کارروائی کرنا درست نہیں ہے۔
٭ ٭ ٭
تجاویز بابت
ورچول کرنسی
ورچول کرنسی تبادلہ مال کی ایک نئی صورت ہے، جس کا حسی وجود نہیں ہوتا ہے، اس لحاظ سے وہ ثمن خلقی (سونا چاندی) اور مروجہ ثمن اصطلاحی (کاغذی کرنسی) سے مختلف ہے، ابھی اس کرنسی کی تکنیکی تفصیلات اور قانونی حیثیت پوری طرح واضح نہیں ہوسکی ہے، اس لئے ورچول کرنسی کے شرعی احکام سے متعلق موضوع کو ملتوی کیا جاتا ہے اور اکیڈمی سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اس پر غور کرنے کے لئے ماہرین اور فقہاء کی ایک کمیٹی بنائے اور مزید تفصیلات فراہم ہونے کے بعد اس بارے میں فیصلہ کیا جائے۔
٭ ٭ ٭
تجاویز بابت
نکاح مسیار کی شرعی حیثیت
۱- شریعت اسلامی میں شوہر وبیوی کا تعلق ایک مقدس رشتہ ہے جو نکاح کے ذریعہ ہی وجود میں آتا ہے، اس لئے لیو ان ریلیشن شپ (Live in Relationship) یعنی بغیر نکاح کے آپسی رضامندی سے دو مرد وعورت کا شوہر وبیوی کی طرح ایک ساتھ رہنا حرام ہے اور ہر مسلمان مرد وعورت کے لئے اس سے احتراز لازم ہے۔
۲- ایک مقررہ مدت کے لئے نکاح کرنا خواہ اس طرح مدت متعین کرے کہ میں دو سال کے لئے نکاح کرتا ہوں یا اس طرح کہ جب تک میں اس شہر میں رہوںگا اس وقت تک کے لئے نکاح کرتا ہوں، ناجائز اور باطل ہے۔
۳- نکاح اسلام کی نظر میں ایک دائمی رشتہ ہے، اس لئے نکاح اسی نیت سے کرنا چاہئے کہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے میاں بیوی بن کرزندگی گزاریںگے۔
۴- اگر کوئی شخص نکاح کے ارکان کو انجام دے یعنی گواہان کے سامنے ایجاب وقبول کرلے اور دل میں یہ بات چھپائے ہوئے ہو کہ وہ اس کچھ عرصہ بعد اس رشتہ کو ختم کردے گا تو یہ سخت گناہ اور اسلامی تعلیمات اور شریعت نے نکاح کا جو مقصد متعین کیا ہے اس کی روح کے خلاف ہے، لیکن چونکہ دونوں نے آپسی رضامندی سے ایجاب وقبول کیا ہے، اس لئے نکاح ہوجائے گا اور مرد کی ذمہ داری ہے کہ اس نکاح کو آخرت وقت تک قائم رکھنے کی کوشش کرے۔
۵- اگر کوئی عورت اپنی خوشی سے نکاح کرے اور نکاح کی بنا پر شوہر پر اس کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان کو معاف کردے تو چونکہ عورت اپنی ذات اور اپنے حقوق کے بارے میں خود مختار ہے، اس لئے اس کا معاف کرنا معتبر ہوگا، البتہ اگر بعد میں کسی وجہ سے بیوی اس شوہر سے اپنے ان حقوق کا مطالبہ کرنا چاہے تو اس کو اس کا حق ہوگا اور مطالبہ کے وقت شوہر ان حقوق کو ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
٭ ٭ ٭
Comments are closed.