”باعزت زندگی کیلئے قرآنی تعلیما ت اورنبی ؐ رحمت حضرت محمدﷺ کے فرامین پر عمل کرنا ہوگا“

قصبہ سمدھن واقع مدرسہ سراج العلوم میں جلسہ سیرت النبیؐ و اصلاح معاشرہ سے مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی کا خطاب
قنوج(پریس ریلیز) قصبہ سمدھن واقع مدرسہ سراج العلوم کے زیر اہتمام پچھمی حلقہ میں جلسہ سیرت النبیؐ و اصلاح معاشرہ جمعیۃ علماء وسطی اتر پردیش کے جنرل سکریٹری مفتی ظفر احمد قاسمی کی نگرانی میں منعقد ہوا۔ جلسہ کا آغاز حافظ سراج احمد نے تلاوت قرآن پاک سے کیا۔ اس موقع پر بطور مہمان خصوصی تشریف لائے جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی نے موجود عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چاند، سورج، ستارے، آسمان و زمین، پہاڑ، بارش، ہواسمیت دنیا کی ہر چیز اپنے وقت پر اپنی ڈیوٹی پوری کر رہی ہے۔ ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے والے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنا کر اس کے ذمہ بھی کچھ کام لگائے ہیں، بحیثیت انسان جائزہ لیں کہ ہم اپنی ڈیوٹی اور ذمہ داری پوری کر رہے ہیں یا نہیں؟ہمیں معلوم بھی ہے یا نہیں کہ ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ اللہ اپنی پاک کتاب قرآن پاک میں اشرف المخلوقات انسان کو پیدا کرنے کا مقصد بتا رہے ہیں کہ اللہ نے ہم کو اپنی بندگی کیلئے پیدا کیا ہے۔ بندگی کا مطلب اللہ کی بات ماننا اور اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کر دینا ہوتا ہے، یعنی ہمیں اللہ نے پیدا کیا، ساری دنیا اللہ نے ہمارے لئے بنائی لیکن ہمیں اللہ نے اپنی بندگی کیلئے بنایا ہے، اب ہماری زندگی کاکوئی بھی کام اللہ کے حکم اور اللہ کے محبوبؐ کے بتائے ہوئے طریقہ کیخلاف نہیں ہونا چاہئے۔ مولانا نے مشینیں، بلب سمیت دیگر چیزوں کی مثالیں دے کر بتایا کہ اگر ہم کوئی معمولی سی چیز اپنے گھر پر لائیں اور وہ اپنا کام کرنا بند کر دے تو ہم اس چیز کو اپنے گھر پر نہیں رکھتے اور اس کو اہمیت نہیں دیتے تو ٹھیک اسی طرح اشرف المخلوقات انسان اور مسلمان ہو کرہم اگر اپنا کام کرنا بند کردیں گے تو پھر اس دنیا میں ہماری بھی کوئی جگہ اور حیثیت نہیں رہ جائے گی۔ اللہ نے ہمیں جو کام جس طرح کرنے کا حکم دیا ہے اگر ہم اس کام کو ویسے ہی کریں گے تبھی ہم دنیا میں باعزت زندگی گزار سکیں گے۔ مولانا نے بتایا کہ دین اسلام سے قبل مکہ میں اتنی بدتہذیب قوم رہتی تھی کہ وہ گناہوں کو گناہ سمجھتی ہی نہیں تھی، اپنی سگی اولاد وں تک دفن کر دیا کرتی تھی، معمولی معمولی بات پر ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو جانے والی قوم کے درمیان اللہ نے اپنے آخری اور محبوب نبی حضوررحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ کو بھیجا، آپؐ نے دین اسلام کی دعوت دینے سے پہلے اس بدتہذیب قوم کے سامنے اپنا کردار پیش کیا، حضورؐ سے زیادہ سچا، امانت دار اور پاکیزہ کوئی نہیں تھااور صرف 23سال کی مدت میں آپؐ نے اس معاشرہ کو ایسا معاشرہ بنا دیا کہ اب قیامت تک اس کی مثال نہیں ملے گی، انہیں اچھے اور پاکباز انسان کا معیار بنا دیا۔ جب اچھائیاں ان کے اندر آ گئیں تو صرف 30سال کے اندر اس قوم کو اللہ نے آدھی سے زیادہ دنیا پر حکمرانی عطا فرمائی۔ آج بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان ہر جگہ پریشان ہیں، اس کا حل کیا ہے؟ ہمیں دنیا تک یہ پیغام عام کرنا ہوگا کہ اگر انسانوں کو باعزت زندگی چاہئے تو قرآنی تعلیما ت،نبی ؐ رحمت حضرت محمدﷺ کے فرامین اور بتائے گئے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر ہم حضورؐ کی تعلیمات پر عمل کرنے والے بن جائیں گے تو اللہ ہمیں پھر اسی مقام پر پہنچا دیں گے۔ مولانا نے بتایا کہ ابھی ہمارے ملک میں اس دور کے مکہ سے زیادہ خراب حالات نہیں ہیں۔ حضورؐ جن کے صدقے میں یہ کائنات بنی اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کا 3سال تک مکمل بائیکاٹ کیا گیا تھا، ہر طرح سے ستایا گیا تھا۔ لیکن دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیں بھی نبیؐ کی تعلیمات کو مٹا نہیں سکیں اور حضورؐ کی تعلیمات آج بھی زندہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ پانے کیلئے کچھ کرنا پڑتا ہے، ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی، بچوں، بڑوں سب کو حضورؐ کی سیرت مبارکہ اور تعلیمات کو ماننا ہوگا۔ اپنا کردار ایسا بنانا ہوگا کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ ملے، آپؐ نے اپنا کردار اتنا صاف و شفاف رکھا تھاکہ کوئی دشمن بھی آپؐ پر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا، دشمن بھی آپؐ کو اتنا امانتدار مانتے تھے کہ اپنے مسائل کا حل اور فیصلے آپؐ سے کرواتے تھے۔ آخر میں مولانا نے تعلیم کی اہمیت، ایماندار تاجر کا حال، باہمی اتحاد کی اہمیت سے واقف کراتے ہوئے کہا کہ اللہ کے محبوب نبیؐ کی امت کو کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی، جب بھی نقصان ہوا ہے اپنی غلطیوں سے ہواہے۔ ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیں، ایمانداری سے تجارت کریں، اپنی نسلوں کو دینی اور دنیاوی تعلیمات کے زیور سے آراستہ کریں، کردار کو اچھا بنائیں۔ ہم اللہ کو اس کا کام کرنے دیں اور ہمارے ذمہ جو کام اللہ نے طے کئے ہیں اسے پہلے کرنے والے بنیں،جس دن ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے والے بن جائیں گے اس دن معاشرہ کی بھی اصلاح ہو جائے گی اور ہر جگہ ہمیں عزت و سرخروئی بھی حاصل ہو گی۔ حافظ فخر الدین نے نعت و منقبت کا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ مولوی محمد شاداب نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ فیروز آباد سے تشریف لائے مولانا آدم مصطفی کے خطاب کے بعد دعاء پر جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ جلسہ کثیر تعداد میں علماء، عوام وخواص موجود رہے۔
Comments are closed.