سنہ 48 کےفلسطینیوں میں سے 130000 افرادکومکانات مسمار ہونے کا خطرہ

بصیرت نیوزڈیسک
ایک غیر مسبوق سروے کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سنہ1948ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئےفلسطینی علاقوں میں بسنے والے ایک لاکھ تیس ہزار فلسطینیوں کو مکانات مسماری کا خطرہ لاحق ہے۔یہ بات مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر عرب سینٹر فار الٹرنیٹیو پلاننگ کی جانب سے سیکوئی-افوک ایسوسی ایشن کے تعاون سے کیے گئے ایک سروے کے نتائج میں سامنے آئی ہے۔
سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن کے پاس عمارتوں کی تعمیر کا اجازت نامہ نہیں ہےان فلسطینیوں کےسروں پر مکانات کی مسماری کی تلوار ہمہ وقت لٹک رہی ہے۔سروے کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ ایک لاکھ 30 ہزار فلسطینی شہریوں کو مکانا مسمار کیے جانے کا خطرہ ہے اور تقریباً 14,000 غیر منظم رہائشی عمارتیں ہیں اور ہر عمارت 3 ہاؤسنگ یونٹس پر مشتمل ہے۔”سروےمیں زور دے کر کہا گیا ہے کہ فلسطینی قصبوں میں تقریباً 29,000 غیر لائسنس شدہ عمارتیں قابض حکام کی جانب سے لائسنس دینے میں مداخلت کی وجہ سے ہیں اور ان میں سے 15,000 ہلکی عمارتیں، زرعی شیڈز، کاروں کی مرمت کی ورکشاپس وغیرہ ہیں۔فلسطینیوں کے لیے بلڈنگ پرمٹ نہ ہونے کی وجہ سے سروے میں کہا گیا ہے کہ "اگرچہ وسطی اور شمالی علاقوں میں 87 فیصد غیر لائسنس یافتہ عمارتیں منظور شدہ ساختی منصوبوں کے اندر واقع ہیں، لیکن قابض حکام نے ابھی تک ان میں منصوبہ بندی کے ضروری طریقہ کار کو مکمل نہیں کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان عمارتوں میں سے 72 فیصد جن کی تعداد تقریباً 10,000 ہے جو کہ ساختی نقشوں میں شامل ہیں میں تفصیلی منصوبہ نہیں ہے، اور ایسے منصوبے کے بغیر لائسنس حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔سروے کے نتائج کے مطابق صرف 28 فی صد ٹھوس عمارتیں یعنی بغیر لائسنس کنکریٹ کی عمارتوں کے پاس ساختی منصوبہ ہے یا ان کا ساختی منصوبہ زیر تیاری ہے۔سروے نے تصدیق کی کہ پیچیدہ منصوبہ بندی کے عمل کا آخری مرحلہ مکمل نہیں ہوا تھا۔87فی صد لائسنس حاصل کرتے ہیں۔پی سی ایچ آر نے اشارہ کیا کہ پانچ سالہ منصوبے کی منظوری کے بعد سے فلسطینیوں کے آباد قصبوں میں صرف 21 فیصد عمارتیں ہی منظم کی گئی ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ 87 فیصد فلسطینی نجی زمینوں پر ماسٹر پلان کی حدود میں عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں لیکن انہیں عمارت کا اجازت نامہ حاصل نہیں ہے۔نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ماسٹر پلان سے باہر واقع زیادہ تر عمارتیں ماسٹر پلان کی حدود سے متصل ہیں اور بغیر لائسنس کے عمارتوں کے مالکان قانون کی خلاف ورزی کرنے والے نہیں ہیں بلکہ وہ شہری ہیں جو اپنی زمینوں پر رہنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل انہیں قانونی طور پر مکانات تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ زیادہ تر غیر لائسنس یافتہ عمارتیں صرف دس مقامی حکام کے اثر و رسوخ والے علاقوں میں مرکوز ہیں۔ اس لیے اس مسئلے کے کئی حل موجود ہیں اور وہ علاقے کفر قرہ، ام الفحم، عرعر، جت۔ مغربی باقہ، الطیرہ، الطیبہ، قلنسوہ، یرکا، عسفیا شامل ہیں جن میں 500 سے 2000 کے درمیان فلسطینیوں کے مکانات ہیں۔فلسطینی قصبوں میں ایسے علاقے ہیں جو قابض حکومت کی جانب سے ضروری منظوری دینے کے بعد تعمیر کیے جاسکتے ہیں اور ساختی نقشے میں شامل علاقوں میں 280,000 ہاؤسنگ یونٹس شامل کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان میں تفصیلی نقشوں کی کمی ہے، اس لیے ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ نتائج کے مطابق، قانونی طور پر ان میں تعمیر کرنا فی الحال ممکن ہے۔

Comments are closed.