حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک واقعہ اور سبق

 

محمد صابر حسین ندوی

حضرت ابراہیم علیہ السلام جد الانبیاء ہیں، وہ امت مسلمہ کے لئے بھی اسوہ قرار دیے گئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں بڑی آزمائش اور تگ و دو رکھ دی تھی؛ لیکن آپ نے ان سب امتحانات کو عبور کیا، کفار و مشرکین کے درمیان رہ کر، ایک کافر، بت تراش اور صنم فروش کے گھر میں پروش پا کر بھی وحدہ لا شریک کی راہ نہ بھولے، اجتہاد و کوشش کی، عالم انسانی پر عقل صرف کی، خالق و مالک کے سامنے ہدایت و رشد کی گہار لگائی اور پھر صراط مستقیم کو پالیا؛ بلکہ وہ اس راستے پر اس طرح جم گئے کہ محبوب الہی قرار پائے، انہیں اللہ تعالیٰ کی دوستی اور خاص قربت نصیب ہوئی، اللہ تعالیٰ نے ان کی آل و اولاد میں برکت عطا کی، انسانی نسلوں میں انبیاء ورسل کے تسلسل کو ان کے صلب سے خاص تعلق ہے، خود نبی اکرم، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ ہی کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں، یہ اعزاز کسی دوسرے کے حصے میں نہیں، قرآن مجید نے آپ علیہ السلام کے بہت سے واقعات اور اسباق محفوظ کئے ہیں، ایک خاص واقعہ کے تناظر میں چند آیتیں اور اس پر استاذ گرامی قدر، فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب مدظلہ کی تفسیر قابل مطالعہ ہے، جس میں شرک سے نفرت کی انتہا اور بیزاری پائی جاتی ہے، دنیا کے تمام نام نہاد خداؤں سے کٹ کر ایک رب کے آستانے پر سر تسلیم. خم. کردینے کی دعوت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَ قَوْمِہٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ، اَئِفْکًا اٰلِہَۃً دُوْنَ اللّٰہِ تُرِیْدُوْنَ، فَمَا ظَنُّکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ،فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ، فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ،فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ.“ (صافات: ٨٥ تا ٩٠)

ترجمہ: ”جب انھوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا: تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟ کیا تم اللہ کے سوا من گھڑت معبودوں کو چاہتے ہوں؟ تم نے تمام جہان کے رب کے بارے میں کیا گمان کر رکھا ہے؟ پھر انھوں نے ستاروں پر ایک نظر ڈالی، اور کہا: میں تو بیمار ہوں ،چنانچہ وہ لوگ ان کو چھوڑ کر واپس ہوگئے۔“

یعنی خاص تہوار کے موقع پر لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دعوت دی یا بعض روایات کے مطابق بادشاہ کی طرف سے ان کو دعوت پہنچی کہ وہ کل منعقد ہونے والے تہوار کے میلے میں شریک ہوں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے میلے میں شریک ہونے سے گریز کیا اور اس کے لئے ایک خاص تدبیر اختیار کی؛ تاکہ لوگ ان کے چلنے پر اصرار نہ کریں۔

 

اس سلسلے میں قرآن مجید کا یہاں جو بیان ہے، اس میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: ایک یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستارہ پر ایک نظر ڈالی، اس سلسلے میں یہ بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ جب آدمی کسی تفکر میں مبتلا ہوتا ہے تو عام طورپر وہ کسی چیز کو گھور کر اور ٹکٹکی لگاکر دیکھتا ہے، خاص کر رات کے اندھیرے میں چمکتے ہوئے ستاروں پر اس کی نظر ٹھہرجاتی ہے، گویا اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھوڑی دیر کے لئے فکر مند ہوگئے کہ اس دعوت کو کس طورپر ٹالا جائے؟

آخر ان کو ایک تدبیر سمجھ میں آئی اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا: میں بیمار ہوں، بیماری ظاہر کی بھی ہوتی ہے اور باطن کی بھی، جسم کی بھی ہوتی ہے اور دل کی بھی، پیغمبر جس کی زندگی کا مشن اللہ کی توحید کی طرف بلانا ہوتا ہے، وہ جب مشرکانہ افعال کو اور اس پر لوگوں کے اصرار کو دیکھتا ہے تو اسے بے حد رنج پہنچتا ہے اور اس کا دل دُکھی ہوجاتا ہے، اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: میں تو بیمار ہوں، بیمار ہونے سے آپ کی مراد وہ تکلیف تھی، جو مشرکین کے طرز عمل کو دیکھ کر ہورہی تھی، لوگوں نے اسے جسمانی بیماری خیال کیا اور اس وجہ سے ساتھ چلنے پر اصرار نہیں کیا، اس کو عربی زبان میں ”توریہ“ کہتے ہیں، یعنی کسی بات کے ظاہری مفہوم سے ہٹ کر کوئی اور مفہوم مراد لینا کہ سننے والا اس کا الگ مطلب سمجھے اور کہنے والے کو جھوٹ بولنے کی نوبت نہ آئے؛ چوں کہ یہ بات مخاطب کی سمجھ کے لحاظ سے جھوٹ نظر آتی ہے، اسی لئے حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کو کذب یعنی جھوٹ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، (بخاری، کتاب الأنبیاء، حدیث نمبر: ۳۱۷۹)

اس واقعہ سے دو شرعی مسائل بھی معلوم ہوگئے، ایک یہ کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی مذہبی تقریبات میں شریک ہونا جائز نہیں، دوسرے: ظلم سے بچنے کے لئے یا کسی اور جائز مصلحت کے تحت توریہ کیا جاسکتا ہے کہ اس انداز پر کوئی بات کہی جائے کہ سننے والا غلط فہمی میں پڑ جائے اور کہنے والے کو جھوٹ بولنے کی نوبت نہ آئے، یہ تو بہتر طریقہ ہے؛ لیکن ظلم سے بچنے اورمسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے خود جھوٹ بولنے کی بھی گنجائش ہے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الکذب، حدیث نمبر: ۲۶۰۵– دیکھیے: آسان تفسیر قرآن مجید)

[email protected]

7987972043

Comments are closed.