مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

پروفیسر نجات اللہ صدیقی کے انتقال پر تعزیتی جلسہ
علی گڑھ، 16 نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے اساتذہ نے پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی کو خراج عقیدت پیش کیا جن کا حال ہی میں کیلیفورنیا، امریکہ میں انتقال ہوگیا تھا۔
پروفیسر سلمیٰ احمد (ڈین، فیکلٹی آف مینجمنٹ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ) نے کہا ’’پروفیسر نجات اللہ صف اول کے ماہر معاشیات اور مفکر تھے جن کی خدمات بلا سود ی بینکاری اور مائیکرو فنانس میںمثالی سمجھی جاتی ہیں۔ وہ اے ایم یو میں متعدد اسکالروں کے سرپرست رہے ہیں‘‘۔
تعزیتی پیغام پڑھتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’پروفیسر نجات اللہ صدیقی کے انتقال سے تعلیمی اداروں میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ وہ ایک شاندار استاد اور بہت سے لوگوں کے لیے تحریک تھے۔ ہم سوگوار کنبے کو دلی تعزیت پیش کرتے ہیں‘‘۔
پروفیسر ولید احمد انصاری نے پروفیسر نجات اللہ کے ساتھ چار دہائیوں کی طویل رفاقت پر بات کی اور ان کے علمی کارناموں پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا: ’’پروفیسر نجات اللہ نے اے ایم یو اور بعد میں کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی، جدہ، سعودی عرب میں معاشیات پڑھائی جہاں وہ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک سے بھی وابستہ رہے۔ انہیں 1982 میں اسلامیات میں خدمات کے لیے شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ، 2003 میں اسلامک اکنامکس میں خدمات کے لیے نئی دہلی میں شاہ ولی اللہ ایوارڈ اور 1993 میں امریکن فنانس ہاؤس ایوارڈ ملا۔
پروفیسر ولید نے مزید کہا کہ پروفیسر نجات اللہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس کے سینٹر فار نیئر ایسٹرن اسٹڈیز میں فیلو تھے، اور اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک، جدہ میں وزیٹنگ اسکالر تھے۔
ڈاکٹر آصف اختر اور ڈاکٹر طارق عزیز نے کہا کہ پروفیسر نجات اللہ نے اے ایم یو میں بزنس ایڈمنسٹریشن شعبہ میں ایم بی اے- آئی بی ایف پروگرام کو تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
انھوں نے کہاکہ پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی زندگی اس بات کی مثال تھی کہ کس طرح توجہ، نظم و ضبط اور لگن زندگی میں کسی مشن کو حاصل کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ وہ نہ صرف ایک عظیم اسکالر تھے بلکہ ایک مثالی انسان بھی تھے جو ہمیشہ ہر کسی کے لیے آسانی سے قابل رسائی تھے اور ابھرتے ہوئے اسکالرز کی مدد کرتے تھے۔
معیاری جرائد میں پروفیسر نجات اللہ کے 65 سے زیادہ مقالے شائع ہوئے ۔ ان میں سے کچھ کا عربی، فارسی، ترکی، انڈونیشی، ملائیشین، تھائی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ غیر سودی بینک کاری ان کی ایک اہم کتاب ہے جس کے 1973 سے اب تک 27 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
انہوں نے ہندوستان میں کوآپریٹیو ماڈل پر سود سے پاک مائیکرو فنانس کو فرو غ دینے میں بھی تعاون کیا اور سہولت مائیکرو فنانس سوسائٹی سے بھی وابستہ رہے۔
پروفیسر نجات اللہ کے پسماندگان میں بیٹے ارشد صدیقی، خالد صدیقی اور ساجد صدیقی اور بیٹیاں سیما صدیقی اور دیبا صدیقی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
بریسٹ پیتھالوجی اور اینڈوکرائن پیتھالوجی پر دو روزہ سمپوزیم
علی گڑھ، 16 نومبر: جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی) ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ پیتھالوجی میں چھاتی کے کینسر کی تحقیق میں پیش رفت اور اینڈوکرائن پیتھالوجی کے مختلف پہلوؤں پر دو روزہ سمپوزیم اور سلائیڈ سیمینار کا آج آغاز ہوا۔
افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا ’’بریسٹ پیتھالوجی ، سرجیکل پیتھالوجی کا ایک چیلنجنگ شعبہ ہے اور اینڈوکرائن عوارض کے مریضوں کے علاج میں ڈاکٹروں کی ملٹی ڈسپلنری ٹیم میں پیتھالوجسٹ کا اہم کردار ہوتا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے وقتوں میں نئی ٹیکنالوجیز پیتھالوجی میں ذیلی تخصص کو بڑھانے میں مددگار ہوں گی۔
پروفیسر منصور نے کہا ’’پیتھالوجی سبھی کلینیکل میڈیسن کی بنیاد ہے کیونکہ پیتھالوجسٹ نہ صرف اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ بیماری کیا ہے، بلکہ یہ بیماری کیوں ہوئی، ٹشوز کو کیسے نقصان پہنچا، اور کون سی عملی تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کو بھی واضح کرتے ہیں۔ پیتھالوجی اور ریڈیولوجی کی شاخیں میڈیکل کالجوں کی درجہ بندی میں خاصا اہم کردار ادا کرتی ہیں‘‘ ۔
انہوں نے سپر اسپیشلٹی برانچوں کا قیام ، انٹر ڈپارٹمنٹل لیکچر اور کلینیکل میٹنگ کا اہتمام کرکے پیتھالوجی اور ریڈیالوجی کے شعبوں کی بلندکاری پر زور دیا۔
ریسورس پرسن پروفیسر اشرف خان (شعبہ پیتھالوجی، یو ایم اے ایس ایس چان میڈیکل اسکول،امریکہ اور ایڈجنکٹ فیکلٹی، شعبہ پیتھالوجی، جے این ایم سی) نے بریسٹ کینسر اور ایڈرینلس میں پری ڈکٹیو بایو مارکرس کے بارے میں گفتگو کی۔
پروفیسر نزہت حسین (سربراہ، شعبہ پیتھالوجی، ڈاکٹر رام منوہر لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، لکھنؤ) نے پیٹیوٹری (غدہ نخامیہ) کے مسائل سے متعلق عالمی صحت تنظیم کی تازہ معلومات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اینڈوکرائن آرگن کے ٹیومر کی ڈبلیو ایچ او کی نئی درجہ بندی ، اصطلاحات اور تشخیصی رہنما اصولوں کے بارے میں بتایا۔
پروفیسر ایم یو ربانی (ڈین، فیکلٹی آف میڈیسن) نے کہا:کینسر کی تشخیص اور علاج کے پورے عمل میں پیتھالوجسٹ کا اہم رول ہوتا ہے۔
پروفیسر راکیش بھارگو (پرنسپل، جے این ایم سی) نے کہا کہ یہ سمپوزیم پیتھالوجسٹ اور محققین کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو گا۔
پروگرام کے آرگنائزنگ چیئرمین پروفیسر محبوب حسن نے کہا: پروگرام کے شرکاء اینڈوکرائن اور بریسٹ پیتھالوجی کے شعبوں میں جدید تحقیق سے واقف ہوسکیں گے۔ آرگنائزنگ سکریٹری پروفیسر ایس ایچ عارف نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا، جب کہ پروفیسر وینا مہیشوری نے شکریہ ادا کیا۔
پروگرام کی نظامت ڈاکٹر بشریٰ صدیقی اور ڈاکٹر آصفہ شمس نے کی۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو میں ’جن جاتیہ گورو دیوس‘ کا اہتمام
علی گڑھ 16 نومبر: عظیم قبائلی مجاہد آزادی اور لوک ہیرو بھگوان بِرسا منڈا کے یوم پیدا ئش پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں ”جن جاتیہ گورو دیوس” کا اہتمام کیا گیا اور قبائلی رہنما کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔
ڈاکٹر ضیاء الدین احمد ڈینٹل کالج نے ”ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں قبائلی کمیونٹیز کا کردار” موضوع پر لیکچر سیریز کا اہتمام کیا۔
ڈاکٹر سید امان علی (شعبہ پیریڈونٹکس اینڈ کمیونٹی ڈینٹسٹری) نے اس موقع پر کہا کہ نوجوان نسل کو اپنے شاندار ثقافتی ورثے سے روشناس کرانا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا ”ہندوستان میں نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف لڑائی دراصل شجاعت و بہادری، ستیہ گرہ اور قربانی کی ایک انوکھی داستان ہے جو برصغیر کے طول و عرض میں رونما ہوئی ۔ ہمارے مقامی ورثے کو ہر سطح پر یاد کرنے کی ضرورت ہے۔”
ڈاکٹر صادقہ رحمٰن اور ڈاکٹر رشمی عظیم (ریزیڈنٹ، شعبہ پیریڈونٹکس اینڈ کمیونٹی ڈینٹسٹری) نے آزادی کی لڑائی میں سنتھال، تامر، کول، بھیل، کھاسی اور میزو قبائل کی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر ایمان اور محمداشہب نے قومی اتحاد میں قبائلی برادریوں کے کردار کے بارے میں ایک بیداری سیشن کا اہتمام کیا۔
پروفیسر آر کے تیواری (پرنسپل، ڈاکٹر زیڈ اے ڈینٹل کالج) نے کہا کہ آدیواسی ہندوستان کے سب سے زیادہ پسماندہ گروپوں میں سے ہیں اور ان کی تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ترقی کے لیے خصوصی کوششوں کی ضرورت ہے۔
پروفیسر این ڈی گپتا نے مقررین میں اسناد تقسیم کیں۔
شعبہ لسانیات میں جدوجہد آزادی میں جن جاتی رہنماؤں کی خدمات پر آزادی کا امرت مہوتسو کے تحت ڈبیٹ کا اہتمام کیا گیا جس میں ایم اے کی طالبہ عالمین زہرہ نے اوّل انعام حاصل کیا۔ نمرہ قدوائی (ایم اے) اور انیس عالم (بی اے) نے بالترتیب دوسرا اور تیسرا انعام حاصل کیا۔
مقابلہ کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر ایم جے وارثی نے کہا کہ بھگوان برسا منڈا نے اپنی زندگی قبائلی برادریوں کی آزادی کے لیے وقف کی اور مشکل وقت میں ان کی ثقافتی اقدار کے تحفظ کے لیے کام کیا۔ انہوں نے قبائلیوں، خاص طور پر منڈا اور اوریون قبائلیوں کو تبدیلیٔ مذہب سے بچانے کے لیے بھی بھرپور کام کیا۔
شعبہ ہندی میں ”بھگوان برسا منڈا: قبائلی برادریوں کا افتخار‘‘ موضوع پر تقریر کرتے ہوئے پروفیسر محمد سجاد (شعبہ تاریخ) نے سامراجی طاقتوں کے خلاف قبائلیوں میں عوامی تحریک پیدا کرنے اور انہیں بیدار کرنے میں برسا منڈا کے کردار پر روشنی ڈالی۔
اپنے صدارتی کلمات میں شعبہ ہندی کے سربراہ پروفیسر عاشق علی نے کئی دیگر تحریکوں کا ذکر کیا جنہوں نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم انہوں نے عوامی تحریکوں کو مذہب سے جوڑنے اور انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی ذہنیت کے خلاف خبردار کیا۔
پروفیسر شمبھوناتھ تیواری نے پروگرام کی نظامت کی جس میں اساتذہ اور طلباء نے شرکت کی۔
شعبہ عربی میں جن جاتیہ گورو دیوس کے موقع پر تقریری مقابلہ اور گروپ ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا۔
تقریری مقابلے میں ریسرچ اسکالر محمد شاہد نے اول، اجمل حسین نے د وم اور محمد سعید نے سوم مقام حاصل کیا۔ شہر بانو اور پرویز عالم کو حوصلہ افزائی انعام دیا گیا۔
گروپ ڈسکشن میں حمید الرحمان، اجمل حسین اور محمد شاہد پر مشتمل ٹیم اے نے اوّل انعام حاصل کیا جبکہ محمد سعید، پرویز عالم اور محمد عمران کی ٹیم کو رنر اپ قرار دیا گیا۔
طلباء کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے سابق ڈین، فیکلٹی آف آرٹس اور شعبہ کے سابق چیئرمین پروفیسر سید کفیل احمد قاسمی نے کہا کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے گمنام رہنماؤں کو یاد کرنا قابل ستائش ہے۔
شعبہ عربی کے سربراہ پروفیسر محمد ثناء اللہ ندوی نے کہا کہ ہندوستان مختلف ذاتوں، عقیدوں، برادریوں اور مذاہب سے مل کر بنا ہے اور اس کی ثقافت ایک قیمتی ورثہ ہے جس میں ان قبائل کا بھی بھرپور حصہ ہے جو مختلف ریاستوں میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تلکا مانجھی، سدھو، کانو مرمو اور گووند گرو جیسے کئی ہیروز میں برسا منڈا کا نام نمایاں ہے۔
شعبہ اقتصادیات میں ”جدوجہد آزادی میں جن جاتی رہنماؤں کی خدمات” موضوع پر ایک ڈبیٹ مقابلہ منعقد کیا گیا، جس میں جج کے طور پر صدر شعبہ پروفیسر محمد عبدالسلام اور پروفیسر شہروز عالم رضوی نے خدمات انجام دیں۔ اس میں اول انعام اقراء جان ، دوم انعام اریشہ فرحت اور سوم انعام ہرشیت گپتا اور محمد فاتین رضا نے مشترکہ طور سے حاصل کیا۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر محمدعبدالسلام نے بھگوان برسا منڈا کی خدمات پر گفتگو کی جنھوں نے قبائلی زمینوں کی لوٹ کو روکنے کے لیے انگریزوں کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی کمیونٹیز نے اپنے ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت جدوجہد کی ہے اور قومی ترقی کے عمل میں بھگوان برسا منڈا اور دیگر قبائلی رہنماؤں کے تعاون کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
دوسری طرف سیدنا طاہر سیف الدین اسکول میں ایک آگہی پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد طلباء کو قبائلی ہیرو بھگوان برسا منڈا اور ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے دیگر رہنماؤںکے عظیم کارناموں سے روشناس کرانا تھا۔
اسکول پرنسپل فیصل نفیس نے حکومت ہند کی طرف سے قبائلی برادریوں کی تعلیمی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے شروع کی گئی اسکیموں اور پالیسیوں پر روشنی ڈالی۔ پروگرام کی نظامت غزالہ تنویر نے کی۔
احمدی اسکول برائے ویژولی چیلنجڈ میں یاسمین، عاطفہ اور محمد معراج نے ”جدوجہد آزادی میں جن جاتی ہیروز کی خدمات” موضوع پر ایک ڈبیٹ مقابلے میں بالترتیب پہلا، دوسرا اور تیسرا انعام حاصل کیا۔
پرنسپل ڈاکٹر نائلہ راشد نے جن جاتیہ گورو دیوس کی اہمیت پر گفتگو کی۔ ارم فاطمہ اور علیقہ تبسم نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔
٭٭٭٭٭٭
الیکٹریکل انجینئرنگ شعبہ میں تعزیتی جلسہ
علی گڑھ، 16 نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے الیکٹریکل انجینئرنگ شعبہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مسٹر ظفر احمد کے انتقال پر شعبہ میں ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔
اس موقع پر پروفیسر ایم التمش صدیقی (ڈین، فیکلٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی) اور پروفیسر ایم ایم سفیان بیگ (پرنسپل، زیڈ ایچ کالج آف انجینئرنگ اینڈٹکنالوجی) نے مرحوم کے سوگوار لواحقین سے گہرے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا۔
شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ کے چیئرمین پروفیسر سلمان حمید نے کہا ’’مسٹر ظفر کے انتقال کی خبر سن کر سبھی کو بہت دکھ اور افسوس ہوا۔ وہ ایک شاندار استاد اور بلند اخلاق کے حامل انسان تھے، جنہوں نے ایمانداری، خلوص اور لگن کے ساتھ یونیورسٹی کی خدمت کرکے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا‘‘۔
٭٭٭٭٭٭
ایمیزون نے اے ایم یو کے 16 طلباء کا انتخاب کیا
علی گڑھ، 16 نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے 16 انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلباء کو سرکردہ ای -کامرس ملٹی نیشنل کمپنی ایمیزون نے ٹریننگ اینڈ پلیسمنٹ آفس-جنرل کی کیمپس بھرتی مہم میں ملازمت کی پیشکش کی ہے۔
ایمیزون کی ٹیم نے انٹرویو کے مختلف مرحلوں کے بعد بشریٰ ظفر (ایم ایس سی، شماریات)، ڈمپل سنگھ (بی اے، روسی زبان)، فاطمہ پرویز (بی کام)، گگن مشرا (بی ایس سی، آئی ٹی)، حرا عارف (ایم کام)، جسوین کور سچدیوا (ایم ایس سی، باٹنی)، جیوتی وارشنے (ایم آئی آر ایم)، محمد کاشف خان (ایم آئی آر ایم)، محمد ثاقب (ایم لِب)، مصطفی اعظم (بی کام)، نیہا رفیع (بی لب)، ثانیہ رحمان (ایم ایس سی، باٹنی)، سید فرہاد حسین (ایم بی اے)، سید محمد انس ذاکر (بی ایس سی، آئی ٹی)، عمیرہ حمید (ایم کام) اور شائستہ پروین (بی ایس سی، جغرافیہ) کو کیٹلاگ ایسوسی ایٹ اور کیٹلاگ لیڈ کے عہدوں کے لئے منتخب کیا۔
اے ایم یو رجسٹرار مسٹر محمد عمران (آئی پی ایس) نے کینیڈی ہال میں ایک خصوصی پری پلیسمنٹ سیشن میں بھرتی ٹیم کے اراکین کا خیرمقدم کیا۔
ٹریننگ اینڈ پلیسمنٹ آفیسر-جنرل مسٹر سعد حمید اور اسسٹنٹ ٹریننگ اینڈ پلیسمنٹ آفیسر ڈاکٹر جہانگیر عالم اور ڈاکٹر مزمل مشتاق نے ایمیزون ٹیم کا شکریہ ادا کیا ۔
٭٭٭٭٭٭
جے این ایم سی کے ڈاکٹروں نے پانچ سالہ لڑکے کی نادر سرجری کی
علی گڑھ، 16 نومبر: جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی)، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے کارڈیوتھوراسک سرجری شعبہ کے ڈاکٹروں نے پانچ سالہ بچے محمد کے پیر میں ’’پوپلائٹیل آرٹری بلاک‘‘ کی سرجری کرکے اسے ناقابل برداشت جسمانی اذیت سے راحت دلائی ۔
کارڈیوتھوراسک سرجری شعبہ کے سربراہ پروفیسر محمد اعظم حسین، جنہوں نے ڈاکٹر شمائل ربانی اور ڈاکٹر سیف علیم پر مشتمل اپنی ٹیم کے ساتھ سرجری کی، کہا کہ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ اتنے چھوٹے بچوں میں پوپلائٹیل آرٹری بلاک بن جائے۔ یہ سرجری کافی پیچیدہ ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی ناکامی کے نتیجے میں پاؤں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سرجری کے دوران ڈاکٹر ندیم رضا نے انستھیسیا دیا۔
پروفیسر اعظم حسین نے وضاحت کی کہ اس طریقہ کار میں چیرا لگاکر انجیوگرام اور کیمرہ استعمال کرکے اس جگہ کا پتہ لگایا گیا جہاں شریان تنگ ہو رہی تھی۔ پھر ہم نے پوپلائٹیل شریان کو الگ کرکے عضلات، کنڈرا یا بینڈ کو کمپریشن سے آزاد کیا۔
اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سرجنوں کی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش اور ملک کے دیگر حصوں کے مریض جے این ایم سی کو اس کے جدید طبی انفراسٹرکچر، بہتر رسائی اور آسان فالو اپ کے لیے ترجیح دیتے ہیں۔
پروفیسر ایم یو ربانی، ڈین، فیکلٹی آف میڈیسن نے کہا کہ ڈاکٹروں اور سرجنوں کی ہماری ٹیم پیچیدہ سرجری کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ ہر مریض کے کیس کا تجزیہ کرتی ہے۔ جے این ایم سی ملک کے اعلیٰ ترین اسپتالوں میں سے ایک ہے، جہاں ایسی سرجری کامیابی سے کی جاتی ہیں۔
جے این ایم سی کے پرنسپل پروفیسر راکیش بھارگو نے کہا کہ جے این ایم سی امید کی علامت ہے کیونکہ کمزور طبقات کے مریض یہاں بہت معمولی قیمت پر اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔
بچے کو صحت یاب ہونے کے بعد بہار میں اپنے آبائی وطن سہسرام واپس جانے کے لیے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔ اسے ٹانگ میں بھاری پن، پیر کے نچلے حصہ میں اینٹھن اور سوجن کی شکایت کے بعد مقامی ڈاکٹروں اور بہار اور اتر پردیش کے کئی اسپتالوں میں لے جایا گیا تھا لیکن جب کہیں اور اس کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو اسے جے این ایم سی لایا گیا، جہاں کامیابی کے ساتھ اس کی سرجری کی گئی۔
اس سے قبل طبی جانچ کے دوران شعبہ ریڈیولوجی میں ڈاکٹر مہتاب احمد کی سی ٹی انجیوگرافی کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ بچے کے پیر میں پوپلائٹیل آرٹری بلاک ہے جس کو ٹھیک کرنے کے لیے فوری سرجری کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.