سچی لگن اور دلچسپی ایک محقق کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے: پروفیسر ریاض احمد

تحقیق میں کبھی بھی جلدی نہ کریں۔یہ انتہائی سنجیدگی اور قوت برداشت کی متقاضی ہوتی ہے: ڈاکٹر ریشما پروین
شعبۂ اردو میں ادب نما کے تحت ’’معاصر اردو تحقیق: ایک جائزہ‘‘موضوع پر آن لائن پروگرام کا انعقاد
میرٹھ18؍نومبر(پریس ریلیز)
’’سچائی اور حقیقت کو تلاش کر کے منظر عام پر لانا ہی تحقیق ہے۔ کیوں اور کیسے کے سوالات جب ذہن میں آ تے ہیں تو وہیں تحقیق کی بنیاد قائم ہو جا تی ہے۔ بنیادی طور پر آ سان لفظوں میں تحقیق حقائق تلاش کرنے کا نام ہے۔یہ حقائق قدیم بھی ہو سکتے ہیں اور جدید بھی۔ہم روز مرہ کی زندگی میں بھی در پیش مسائل کو دیکھتے ہیں اور آج کے حالات میں تحقیق اہم شعبہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ الفاظ تھے کشمیر سے پروفیسر ریاض احمدکے جو شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور بین الاقوامی نوجو ان اردو اسکالرز انجمن (آیوسا) کے زیر اہتمام منعقد ’’معاصر اردو تحقیق: ایک جائزہ ‘‘موضوع پر خصوصی مقرر کی حیثیت سے اپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عصر حاضر میں تحقیق بنیادی علم کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ تحقیق کا مرکز کوئی مسئلہ یا کوئی سوال ہو تا ہے جس کے لیے ہم تحقیق کا راستہ اپنا تے ہیں۔ تحقیق میں سب سے اہم ادب کی زبان ہوتی ہے۔ قیاس آرائی کا تحقیق میں کوئی دخل نہیں ہو تا۔ سچی لگن اور دلچسپی ایک محقق کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ قوت مطالعہ تحقیق کے لیے لازم ہے۔ خلوص، ایمانداری، دیانتداری سے معیاری تحقیق ہوگی۔ آج مخطوطات پر کسی کی نظر نہیں جارہی جب کہ ہمارا ادب بڑے پیمانے پر مخطوطات میں ہے۔محقق کو وقت کی پابندی سے آزاد ہونا چاہئے۔اس موقع پر انہوں نے طلبہ کے سوالات کے تسلی بخش جواب بھی دیے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازسعید احمد سہارنپوری نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔پروگرام کی صدارت کے فرائض لکھنؤ کی ڈاکٹرریشما پروین نے انجام دیے۔استقبا لیہ کلمات ڈاکٹر شاداب علیم،نظامت ڈاکٹر آصف علی اور شکریے کی رسم ڈاکٹرارشاد سیانوی نے انجام دیے۔
پروگرام کی ابتدا میں تحقیق پر روشنی ڈالتے ہوئے شعبے کے استاد ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ اردو میں تحقیق کا آغاز تدوین سے ہوا۔پہلے دور کے شاعر شاہ حاتم نے اپنا دیوان منتخب کر کے’’دیوان زادہ‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ سر سید نے ’’ آئین اکبری‘‘ اور’’تزک جہانگیری‘‘ ترتیب دیں۔مولوی عبد الحق نے شعراء اردو کے متعدد تذکرے اور مختلف شعراء کے دیوان مرتب کیے۔ پروفیسر محمود شیرا نی نے قدرت اللہ قاسم کا تذکرہ ترتیب دیا۔ قاضی عبد الودود نے بھی ترتیب و تدوین کے کئی اہم کار نامے انجام دیے۔ امتیاز علی خاں عرشی اور مالک رام نے’’دیوان غالبؔ‘‘ کی ترتیب کا فریضہ انجام دیا۔ مسعود حسین رضوی نے مراثی کے مختلف متون مدون کیے۔ ان کے علاوہ مختار الدین احمد، نذیر احمد،نور الحسن ہاشمی، مسعود حسین خاں، تنویر احمد علوی، مشفق خواجہ، خلیق انجم،رشید حسین خاں، محمود الٰہی، مسیح الزماں وغیرہ جیسے بے شمار نام ہیں۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ ہم نے بہت سے بت بنائے ہوئے ہیں جیسے غالبؔ، میرؔ،پریم چند، منٹو وغیرہ جیسے یہ ہر اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ ان بتوں کو توڑ نے کی کوشش کریں لیکن مدلل طریقے سے نہ کہ صرف برائے تنقید کی حیثیت سے۔موضوع نیا ہو، انفرادی اور انوکھا ہو یقینا نئے موضوع پر مواد کم ہو گا لیکن بنیادی روشنی عطا کرنے والا مواد ہر حال میں ملے گا۔ طالب علم گھرائیں نہیں۔ آپ کی تحقیق مکمل ہو گی اور یقینا زیادہ کار آ مد اور قابل ستائش ہو گی۔
اپنے صدارتی خطبے میں ڈا کٹر ریشما پروین نے کہا کہ تحقیق میں کبھی بھی جلدی نہ کریں۔یہ انتہائی سنجیدگی اور قوت برداشت کی متقاضی ہوتی ہے۔طالب علم پہلے اپنے موضوع سے متعلق تمام دستیاب مواد کا مطالعہ و تجزیہ کریں بعد ازاں اس کی روشنی میں اپنے تحقیقی پروجیکٹ کے لائحہ عمل بنائیں۔ آج کل طالب علم جدید تکنیک کے سہارے نتائج اخذ کر نے میں عجلت کر تے ہیں۔ یقینا جدید تکنیک بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے ہم بہت کچھ مواد جمع کرسکتے ہیں لیکن دوسرے معتبر ذرائع اس کی تصدیق اور تجزیے کے بغیر اخذ کیے گئے نتائج گمراہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔
Comments are closed.