مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا ایک علمی سفر اور زیارت والدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
از : قاضی محمد حسن ندوی
استاذ دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ گجرات
میری والدہ محترمہ میرے چھوٹے بھائی مفتی اکرام ندوی کے ساتھ مولانا یحییٰ نعمانی مد ظلہ العالی کے مدرسہ دوبگا لکھنؤ میں ہیں ، لیکن حال میں پتھری کا دو مرتبہ آپریشن ہوا ،ڈیڑھ ماہ ہاسپیٹل زیر علاج تھیں ، ہفتہ عشرہ قبل ڈسچارج ہوکر آئیں ہیں ،پہلے بھی عیادت کے لئے آنا تھا مگر ٹکٹ نہیں مل سکا ، کیوں کہ انسان کی چاہت پر نہیں ، بلکہ ہر کام اللہ کے فیصلے سے ہوتا ہے ، ہاں ارادہ خیر ہی اللہ فیصلہ فرماتے ہیں ، اس لئے خیر کام میں استخارہ زیادہ نہیں کرنا چاہیے ، درکار خیر استخارہ نیست ، بہرحال بے حد خوش ہوں ،چند گھنٹوں کے بعد والدہ کی زیارت ہوگی ، یقینا ان کی آنکھوں کو بھی راحت اور سرور حاصل ہوگا ،انشاء اللہ دس بجے تک منزل پر پہنچ جائوں گا دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سفر کو آسان فرمائے.
رمضان المبارک سے قبل مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے سوالنامہ آیا ،درس و تدریس کے ساتھ کورونا سے متعلق سوالات پر ایک مقالہ لکھ کر بھیج دیا ، یکایک ستمبر کے آخری عشرہ میں دوروزہ 23/24 نوممبر علمی مذاکرہ میں حاضری کے لئے راقم کے نام سے دعوت نامہ بھی آیا ،
ظاہر ہے مادر علمی سے جب دعوت نامہ آ یا ، تو اس کو اپنے لیے سعادت کا زینہ سمجھا ،عزم مصمم کر لیا جو بھی ہو جانا ہے ، شرکت کرنی ہے، تقریبا بیس سال کا عرصہ گزر گیا ، مشغولیات کی وجہ سے جا نہیں سکا تھا ،اس پہلو سے یہ سفر ایک تاریخی سفر ہے، اس کے لئے ڈیڑھ ماہ قبل ٹکٹ نکالا ،جو ویٹنگ تھا ،امید تھی کہ کنفرم ہو جائے گا ، لیکن انیس تاریخ کو چارٹ نکلنے کے بعد پتہ چلا کہ کنفرم نہیں ہوسکا ، بالاخر بیس تاریخ کو دوسری ٹرین سے تکٹ نکالنے کی کوشش کی تو الحمدللہ بائیس تاریخ کا مل گیا ، انسان میں کسی جائز چیز کی طلب ہوتی ہے تو اس کی بازیابی ضرور ہوتی ہے ،
الغرض اکیس تاریخ کو آج مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں دوروزہ علمی اور فقہی سیمینار میں شرکت کے لئے رخت سفر باندھ لیا، ایک گاڑی سے احمد آباد پہنچا ، مولانا عقیل صاحب دیولوی استاد جامعہ فیضان القرآن احمد آباد کا اصرار تھا کہ تھوڑی دیر کے لیے میرے گھر آئیں ،ان کی درخواست کو قبول کر تے ہوئے ان کے گھر حاضر ہوا ، یکایک مفتی امتیاز صاحب پر نظر پڑی ، علیک سلیک کے بعد تعارف ہوا ،انہوں نے کہا کہ میں آپ کا شاگرد ہوں ، دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ میں الاشباہ والنظائر پڑھی ہے ،دس سال کے بعد زیارت کی سعادت حاصل ہوئی ہے،
یہ حقیقت ہے کہ جس طرح اساتذہ کی زیارت سے فطری طور خوشی ہوتی ہے اسی طرح جب شاگرد اساتذہ سے ملتے ہیں ،اپنی علمی تدریس خدمات کو پیشِ کرتے ہیں تو ان کی خدمات کو سنکر نہ صرف مسرت حاصل ہوتی ہے بلکہ ایسے موقع پر دل سے دعائیں نکلتی ہیں ، موصوف نے کہا کہ میں جامعہ میں جلالین اشباہ جیسی اہم کتابیں پڑھا تا ہوں ، بے انتہا خوشی ہوئی ، دل باغ باغ ہو گیا ، دعائیں دیں اللہ مزید ترقیات سے مالا مال کرے آمین
کچھ علمی سوالات :
گیارہ بجے گاڑی قریب احمد آباد سے لکھنؤ کے لیے تھی ، صرف ایک گھنٹہ باقی تھا، ناشتہ بھی جاری تھا ، ادھر کچھ علمی گفتگو جاری تھی ، موصوف نے ایک علمی سوال کیا کہ آپ نے کئ سال ابوداؤد شریف پڑھائ ہے پھر ترمذی شریف بھی ، دونوں میں نمایاں فرق کیا ہے ؟ میں تو چند لمحہ خاموش رہا ،کیوں کہ سوال بڑا اہم تھا ،اس لئے غور کرنے کے بعد بتایا کہ دونوں میں یوں تو کئ اعتبار سے فرق ہے تاہم دو پہلو سے نمایاں فرق ہے،
( 1 ) ابوداؤد شریف میں ایک باب کے تحت کئ احادیث متعدد طرق سے مروی ہیں ، ترمذی شریف میں عامۃ ایک حدیث پیش کی گئی ہے ایک صفحہ میں کئ ابواب ہیں، اور ہر باب میں نئے عنوان کے تحت مسئلہ پیش کیا گیا ہے ،
( 2 ) دوسرا فرق یہ ہے کہ ابوداؤد میں مذاھب اجمالاً بیان کئے گئے ہیں ،جب کہ ترمذی شریف میں تفصیل کے ساتھ دلائل بھی ،نیز ( قال محمد) سے امام ترمذی نے حدیث کے مقام ودرجہ کی نشان دہی کے لیے امام بخاری کے کلام کو بھی بطور تائید کے پیش کیا ہے،
ناشتہ کے دوران ایک علمی مزاح بھی سامنے آیا ،مولوی عقیل صاحب نے کہا حضرت یہ اصلی شہد ہے لیجئے ، اس پر مجھے قصہ یا د آ یا کہ ایک شخص ایک شہد بیچ رہا تھا اور یہ اعلان کر رہا تھا کہ اصلی شہد ہے ، فورا دوسرے شخص نے پوچھا بھائی! اس کی علامت کیا ہے ؟ جواب دیا صاحب شہد نے: کہ اس کی علامت یہ ہے کہ اگر کتا اسے منھ نہ لگائے تو سمجھتا کہ شہد اصلی ہے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ اتنے میں ایک کتا آپہنچا اور شہد کھانے لگا ،سب لوگ اس کی طرف تعجب کے ساتھ دیکھنے لگے ،صاحب کتا برملا جواب دیا بھیا! اس کی کیا دلیل ہے کہ یہ اصلی کتا ہے،اس پر سارا مجمع ٹٹھا مارکر ہنسنے لگے۔۔۔۔۔???
*کچھ معاشرے میں غلط رسومات سے متعلق :*
تدریب افتاء دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ کے طلبہ کو معلوم ہوا کہ میرا احمد آباد سے ٹکٹ ہے تو انہوں نے اپنے ایک دوست کو رہبری کے لئے کہدیا ،وہاں پہنچنے سے پہلے تک وہ رابطے میں رہے ،اترنے کے بعد گیارہ بجے تک گاڑی کھلنے تک رہبری کی، مزہ کی بات یہ ہے کہ جناب کا نام اویس تھا ، بہت ہی سنجیدہ ،اور باشرع میں تو ان کو عالم یا حافظ سمجھ رہا تھا ،لیکن جب جامعہ فیضان القرآن سے پلیٹ فارم پر آیا ،گاڑی کے کھلنے میں لیٹ ہوگئ ، اس وقت کو جناب رہبر صاحب نے قیمتی کئی سوالات کئے،
(1) پہلا سوال یہ تھا کہ ہمارے یہاں مسلمانوں میں ایک غیر شرعی عمل رائج ہے، اور وہ یہ کہ نکاح کے لئے جب رشتہ طے ہوجاتا ہے تو ایک دو گھنٹے نکاح سے پہلے دونوں کی خلوت ہوتی ہے ، کئی سال کے بعد نکاح ہوتا ہے ،پ ھر رخصتی ، کیا اس سے بچنے کے لیے میں نے دو گواہ کی موجودگی میں مہر طے کرکے نکاح کرلیا ،والدین کو اس کی اطلاع نہیں دی تو یہ دھوکا میں شامل ہوگا؟ میں نے کہا صحیح طریقہ یہی ہے ،یعنی جب جوڑے تیار ہیں تو نکاح میں تاخیر مکروہ ہے ،اور فقہاء نے ( من استطاع منکم بالباء فلیتزوج ) مشکوۃ شریف کے تحت لکھا ہے کہ جب گناہ میں مبتلا ہو نے کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا فرض ہے ،اس سے استیناس کرکے جواب دیا کہ آپ نے اچھا کیا ،اس میں کوئی دھوکہ نہیں ہے،کیوں کہ اللہ کی نافرمانی کی صورت میں والدین کی اطاعت جائز نہیں ،لا طاعت فی معصیۃ الخالق)
دوسرا سوال کیا کہ اولاد کے لئے کوئی دعا بتائیے ، یکا یک مجھے حضرت ابرہیم علیہ السلام کی دعا یاد آئی ، رب ھب لی من الصالحین، یہ دعا کثرت سے پڑھیں انشاء اللہ اولاد سے اللہ مالا مال کریں گے ،
دوسرا عمل یہ بتایا کہ کثرت سے "استغفرُللہ الذی من کل ذنب واتوب الیہ” پڑھیں ،اس کی وجہ سے چار نعمتیں حاصل ہوں گی ، گناہ معاف ہوگا ، غربت کو دور کریں گے ، اولاد اور متاع سے بھی مالا مال کریں گے ، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عمل کرنے کا حکم دیا ہے
"فقل تستغفروا انہ کان غفارا یرسل السماء علیکم مدرارا ویمددکم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ونھارا” (القرآن)
گاڑی کھلنے کا بعد بھی اویس بھائی نے رابطہ رکھا ،یہ جاتے جاتے درخواست کی دوسری پھر خدمت کا موقع دیں گے ،ان کی اس درخواست سے میرے دل میں بات آگئی اور سلف صالحین کی بات سوفیصد ثابت ہوگئ کہ نام کا اثر پڑتا ہے ،حضرت اویس قرنی کو جو بلند رتبہ ملا اس میں ان کی خدمت والدہ کا دخل تھا ،اس لئے نومولود کے نام کے انتخاب میں تین باتوں کا لحاظ ضرور کرنا چاہیے
(1) سلف صالحین کے نام میں سے رکھیں
(2) مفرد رکھیں
(3) نام بامعنی ہو
*انسانیت کا انوکھا واقعی:*
میرا سٹ b4 میں نیچے تھا ،دوسرے نمبر پر ایک غیر مسلمہ بہن کی سٹ تھی ،سونے کے وقت انہوں نے درخواست کی تو میں بخوشی اپنی سٹ دیدی ،گرچے اترنے چڑھنے میں تکلیف ہوئی مگر اپنی تکلیف کی پرواہ نا کی، تکلیف کو ترجیح دی ،اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ نہ صرف متاثر ہوئیں بلکہ میں نے نماز ادا کی ،اس کے بارے میں اور حجاب کے بارے میں سوال کیا ، جب اس کا فائدہ بتایا تو وہ بہت مطمئن ہوئیں، دعا ہے اللہ ہدایت دے۔۔۔
Comments are closed.