Baseerat Online News Portal

عورت اور مرد کے تعلق کی حقیقت

مفتی محمد صابر حسین ندوی
ہماری زندگی کو دشوار ترین بنانے میں ایک بڑا کردار اس فکر و سوچ کا بھی رہا ہے کہ جس صنف نازک کو ہمارا حلیف، دوست، ہمدرد، غم خوار ہونا چاہئے تھا اسے ہم نے اپنا حریف اور مدمقابل بنا کر رکھ دیا، یہ تصور مغرب کی پروردہ ہے، ان کی فکری کجی، خود غرضی اور مفاد پر مبنی ہے، انہوں نے خواتین کو بے سر و پا خواب دکھلا کر اور مستقبل کی امیدیں دلا کر بازار میں لا کھڑا کیا، مساوات کا نعرہ ایسا دیا کہ وہ مدہوش ہوگئیں، انہیں یہ لگنے لگا کہ گھر کی چہار دیواری میں انہیں قید کیا گیا ہے، ان کو مجبور و مقہور کر کے ان کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے، اولاد کی تربیت، گھر خاندان کی تعمیر جیسی عظیم ذمہ داریاں ادا کرنے کے باوجود ان میں اس احساس کو بیدار کیا گیا کہ وہ کچھ نہیں کرتیں، وہ گھر کا کام بحیثیت گھر کی مالکن نہیں بلکہ مرد کی زور زبردستی کی بنا پر کرتی ہیں، انہیں بار بار مدمقابل کھڑا کیا گیا، یہ کہہ کر بھی تمہیں گھر کا کام کیونکر کرو، تمہیں بچے پیدا کیوں کرو؟ تمہیں کھانا کیوں بناؤ؟ تمہیں گھر میں کیوں رہو؟ تمہیں گھر سے باہر معاش کا بندوبست کیوں نہ کرو؟ سوالات تیکھے تھے، عقل پر ضرب لگانے والے تھے، بالخصوص زمانہ جاہلیت اور یورپ نے عہد تاریک میں جو کچھ کیا تھا اس کے سامنے یہ سوالات لازم بھی تھے مگر اسلام نے انہیں عزت دی، شرف و مقام دیا، پھر بھی مغرب کی مسموم فضا نے انہیں ایسا جکڑا کہ تمام حقائق بھول کر اسلام کو مورد الزام ٹھہرانے لگیں، یورپ کی آڑ میں مسلم خواتین نے بھی بھڑاس نکالی اور خود کو تو کبھی اسلام کو کوسا، لعن طعن کرتے ہوئے تمام پردے چاک کرنے اور بازار کی زینت بننے کی کوشش کی، اور اس طرح انہوں نے خود کو اور اسلام کو بھی داغ دار کیا؛ حالانکہ یہ ایک معمولی سی بات ہے ک اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے دائرے طے کردیے ہیں، جو مرد کر سکتے ہیں وہ عورتیں نہیں کرسکیں، اور جو خواتین کا مقدر کر رکھا ہے مرد ان سے عاجز ہیں، بَس سمجھنے کی بات یہ کہ دونوں اصناف ایک دوسرے کیلئے معاون ہیں، مقابل نہیں ہیں۔
اس موضوع پر حضرت مولانا وحیدالدین خان مرحوم کی ایک تحریر بعنوان عورت اور مرد کا تعلق پڑھنے کے قابل ہے، آپ رقم طراز ہیں: "جدید دور میں ایک نظریہ بہت زیاده عام ہے ، وه ہے صنفی مساوات کا نظریہ۔ اس نظریہ کو دور جدید کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے- مگر یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔ پیدائشی طور پر ہر عورت مس ڈفرنٹ ہے، اور ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ، عورت اور مرد کے درمیان یہ فرق ایک گہری حکمت پر مبنی ہے، اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دونوں اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشیر بنیں، حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے نظام کے مطابق صنفی حصے داری کا نظریہ زیاده درست نظریہ ہے، نہ کہ صنفی برابری کا نظریہ، انسان کی زندگی مسائل کا مجموعہ ہے، یہ مسائل ہمیشہ مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، اس لیے بار بار یہ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے دو ساتھیوں میں دو مختلف صفات ہوں تاکہ ہر مسئلہ کو مینیج کیا جا سکے، ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مسائل حیات کے حل میں اپنا اپنا حصہ ادا کر سکے- ایک شریک حیات ایک اعتبار سے اپنا حصہ ادا کرے، اور دوسرا شریک حیات دوسرے اعتبار سے، فطرت کے نظام میں یکسانیت موجود نہیں، اس لیے اگر عورت اور مرد کے تعلق کو یکسانیت کے اصول پر قائم کیا جائے تو ہمیشہ جھگڑا ہوتا رہے گا، ہر ایک ذمے داری کو دوسرے فریق کے اوپر ڈالے گا، اور پھر نزاع کبھی ختم نہ ہو گا۔ اس کے برعکس، صنفی حصے داری کے اصول کو اختیار کرنے کی وجہ سے بلا اعلان تقسیم کا کا طریقہ رائج ہو جائے گا۔ دونوں خود اپنے فطری تقاضے کے تحت اپنے اپنے دائرے میں مصروف کار رہیں گے۔ ایک دوسرے سے الجھنے کا طریقہ ختم ہو جائے گا- اور ایک دوسرے سے معاونت کا طریقہ رائج ہو جائے گا۔“ (الرسالہ، جون 2015)
[email protected]
7987972043

 

Comments are closed.