Baseerat Online News Portal

گجرات اسمبلی میں مسلم نمائندگی کی تاریخ اور حالیہ انتخابات

 

مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی

 

گجرات میں مسلمان نو اعشاریہ ستر فیصد (9.70٪) مگر گجرات اسمبلی میں ان کی نمائندگی بہت کم ہوتی جارہی ہے، تمام پارٹیاں مسلمانوں کے لیے کم ٹکٹیں مختص کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے مسلم کمیونٹی سیاسی اعتبار سے مزید پسماندہ ہو گئی ہے،

گجرات کے سب سے بڑے مسلم لیڈر احمد پٹیل صاحب مرحوم تھے جو ممبر لوک سبھا بھی رہے اور ممبر راجیہ سبھا بھی رہے ،

 

*گجرات کے سب سے بڑے مسلم لیڈر*

گجرات کے سب سے بڑے مسلم لیڈر احمد پٹیل صاحب مرحوم تھے ، وہ بڑے نیک شریف اور علماء سے تعلق رکھنے والے تھے ،

 

احمد بھائی محمد بھائی پٹیل صاحب مرحوم ( 21 اگست 1949ء – 25 نومبر 2020ء) جو احمد پٹیل کے نام سے مشہور تھے، بھروچ میں پیدا ہوئے تھے ، آپ کے والد ایک سماجی کارکن تھے ، آپ انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما تھے، آپ کانگریس صدر سونیا گاندھی کے سیاسی سیکرٹری بھی رہے،احمد پٹیل صاحب نے بھارت کی پارلیمنٹ میں تین بار ایوان زیریں لوک سبھا (1977ء سے 1989ء تک) میں بھروچ لوک سبھا حلقے کی نمائندگی کی ، وہ 1977 ، 1980 اور 1984 میں لگاتار تین بار بھروچ لوک سبھا حلقے سے کامیاب ہوئے ، اور ایوان بالا راجیہ سبھا میں (1993ء سے 2020ء تک) پانچ مرتبہ گجرات کی نمائندگی کی ہے،

احمد پٹیل صاحب شاید گجرات کے واحد مسلمان ہیں ،جو لوک سبھا کے ممبر ہوئے ،

آپ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے 2018ء سے 2020ء کے خزانچی بھی رہے۔

 

*کم مسلم نمائندگی میں کانگریس ، بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتادل کا رول*

انڈین نیشنل کانگریس نے 1995 میں آخری بار گجرات اسمبلی انتخابات میں 10 یا اس سے زیادہ مسلمانوں کو میدان میں اتارا تھا،

اور 24 سال پہلے 1998 میں گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایک مسلمان کو اسمبلی سیٹ کا ٹکٹ دیا تھا اور گجرات اسمبلی کی تاریخ میں اسمبلی کی سیٹ کے لیے لڑنے والا بی جے پی کا واحد مسلم رکن تھا۔ جو کامیاب نہیں ہو پایا تھا ،

 

گجرات میں، 9.70% آبادی والے مسلمانوں کو کبھی بھی قانون ساز اسمبلی میں متناسب نمائندگی حاصل نہیں رہی۔ ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ‘جیتنے کی اہلیت’ کو اہم معیار قرار دیا ہے۔

بی بے پی والے یہ کہتے ہیں کہ ہم جیتنے کی اہلیت رکھنے والے کو ٹکٹ دیتے ہیں ، اور ان کو پورے گجرات میں کوئی مسلمان نہیں ملتا جو بی جے پی کے ٹکٹ پر جیت سکے ، انہیں معلوم ہے کہ مسلمان بی جے پی کے مسلم امیدوار کو اس لیے ووٹ نہیں دیں گے کہ وہ بی جے پی کو مسلم دشمن سمجھتے ہیں ، اور جو متعصب ہندو بی جے پی کے ووٹر ہیں وہ ہر مسلمان سے نفرت کرتے ہیں ،

اور کانگریس بھی صرف ان ہی حلقوں میں مسلم امیدوار کھڑے کرتی ہیں جہاں مسلم آبادی پینتیس چالیس فیصد سے زائد ہو اور کوئی ہندو لیڈر مضبوط نہ ہو ، اور ایسے حلقے بہت کم ہیں ، اور وہ انیس سو نوے کی دہائی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خوف سے اپنے حقیقی سیکولرزم کو بھول چکی ہے ،

 

دو ہزار بائیس کے حالیہ انتخابات میں کانگریس نے ایک سو بیاسی رکنی اسمبلی کے لیے صرف چھ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے ، حالانکہ کانگریس کے اقلیتی ونگ نے اس الیکشن میں مسلمانوں کے لیے گیارہ ٹکٹ مانگا تھا ،

سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والی بی جے پی نے ایک مسلمان کو بھی ٹکٹ نہیں دیا ہے ،

 

27 سال قبل آخری بار کانگریس کے مسلم امید واروں کے ٹکٹوں کی تعداد دوہرے ہندسے میں تھی،

پچھلی چار دہائیوں میں، 1980 میں کانگریس نے سب سے زیادہ 17 مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے، جب سابق وزیر اعلیٰ مادھو سنگھ سولنکی نے اپنے KHAM (کشتریہ، ہریجن، آدیواسی، مسلم) کی انتخابی ریاضی کو کامیابی سے متعارف کرایا تھا، نتائج حوصلہ افزا تھے،

ووٹروں نے سترہ میں سے 12 مسلم امیدواروں کو اسمبلی میں بھیجا تھا ،

تاہم ان کی کامیابی کے باوجود، کانگریس نے KHAM فارمولے کو آگے نہیں بڑھایا اور مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کی ، اس نے 1985 میں اپنے مسلم امیدواروں کی تعداد گھٹا کر 11 کردی، اور ان میں سے آٹھ منتخب ہوئے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کے اندر چھپے بھاجپائیوں کو یہ برداشت نہیں ہوا کہ انیس سو اسی میں بارہ مسلمان ممبران اسمبلی بن گئے اور ایک مسلمان احمد پٹیل بھروچ لوک سبھا حلقے سے انیس سو اسی میں دوسری بار اور انیس سو چوراسی میں تیسری بار کامیاب ہوکر ممبر پارلیمنٹ ہوگئے ، گجراتی مسلمان سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ مضبوط انیس سو اسی اور انیس سو پچاسی کے درمیان تھے ، جب ان کے پاس بارہ ممبر اسمبلی تھے اور ایک ممبر لوک سبھا احمد پٹیل صاحب تھے ،

1990 کے اسمبلی انتخابات تک، بی جے پی کی رام جنم بھومی مہم نے ہندوتوا کی سیاست کی راہ ہموار کر دی تھی۔

بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعت جنتا دل نے اس الیکشن میں کوئی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا ،

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گجرات جنتادل کتنے بڑے مسلم مخالف تھے ، انیس سو نوے کے اسمبلی انتخابات میں جنتادل کو ستر ، بھارتیہ جنتا پارٹی کو سڑسٹھ اور کانگریس کو تینتیس سیٹیں ملی تھیں ، چمن بھائی پٹیل سمیت بہت سارے کانگریسی جنتا دل میں شامل ہوگئے تھے اور جنتادل کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے ، کانگریس کی اندھی مخالفت میں جنتادل نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے مل کر حکومت سازی کی ، چار مارچ انیس سو نوے کو جنتادل کے لیڈر چمن بھائی وزیر اعلی مقرر ہوئے اور وہ اپنی موت سترہ فروری انیس سو چورانوے تک وزیر اعلی رہے

چونسٹھ سال کی عمر میں ان کی اچانک موت کے بعد چھبیل داس مہتا کو وزیر اعلی مقرر کیا گیا مگر وہ چمن بھائی کی طرح مقبول لیڈر نہیں تھے ، انیس سو پچانوے میں جنتادل کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی ،

اس طرح چمن بھائی کی موت کے ساتھ ہی جنتادل پارٹی بھی گجرات میں مرگئی ،

 

انیس سو پچانوے کے اسمبلی انتخابات سے قبل بہت سارے جنتادلی لیڈران بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوگئے ، اور اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی ایک سو بیاسی رکنی گجرات اسمبلی میں ایک سو اکیس سیٹیں حاصل کرکے اپنی مضبوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ،

 

جس بی جے پی کو انیس سو پچاسی میں صرف گیارہ سیٹیں ملی تھیں اسے جنتادل کی حماقت بھری سیاست اور کانگریس میں چھپے بھگوائیوں کی وجہ سے انیس سو نوے میں سڑسٹھ اور انیس سو پچانوے میں ایک سو اکیس سیٹیں حاصل ہوئی تھیں،

 

کانگریس نے انیس سو نوے میں گیارہ مسلم امیدوار کھڑے کیے جن میں سے صرف دو کامیاب ہوئے،

1995 میں کانگریس نے جتنے بھی دس مسلمانوں کو میدان میں اتارا وہ سب ہار گئے۔

عثمان غنی دیودی والا واحد مسلم ایم ایل اے تھے جو جمال پور کھاڈیہ ، احمد آباد سے بطور آزاد منتخب ہوئے تھے۔ وہ انیس سو پچانوے اور انٹھانوے میں بطور آزاد اور دو ہزار دو میں کانگریس کے ٹکٹ پر اسی حلقے سے کامیاب ہوئے تھے ،

 

1998 میں مسلمانوں کی نمائندگی میں قدرے بہتری آئی۔ کانگریس نے نو مسلمانوں کو میدان میں اتارا، اور ان میں سے پانچ جیت گئے۔

بی جے پی نے بھروچ ضلع کی واگرا سیٹ سے ایک مسلم امیدوار عبدالغنی قریشی کو بھی میدان میں اتارا، جو ہار گئے۔ وہ واحد مسلمان ہیں جنہیں بی جے پی نے گجرات اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات کی تاریخ میں ٹکٹ دیا تھا ،

انیس سو انٹھانوے کے بعد سے بی جے پی نے گجرات میں کسی مسلم امیدوار کو اسمبلی یا لوک سبھا کا ٹکٹ نہیں دیا ہے۔

2002 میں گودھرا ٹرین جلانے اور ریاست میں ہونے والے فسادات نے ووٹروں کو پولرائز کیا۔ اور گجرات ریاست میں انتخابات تیزی سے دو پارٹیوں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی لڑائی بن گیا تھا ،

 

کانگریس نے 2002 کے انتخابات میں مسلمانوں کو اسمبلی کے صرف پانچ ٹکٹ دیے۔ اس کے بعد سے مسلم امید واروں کو پارٹی کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم کبھی چھ سے تجاوز نہیں کر سکی۔

بی جے پی نے امیدواروں کے انتخاب میں ‘جیت کی اہلیت’ کو واحد معیار قرار دیا ہے۔ اس کے اقلیتی سیل کے صدر، محسن لوکھنڈ والا نے کہا، "مخصوص نشستوں کے علاوہ، پارٹی صرف امیدوار کی جیت پر غور کرتی ہے۔ صرف اسمبلی انتخابات کے لیے ہی نہیں بلکہ نگر پالیکا یا میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں بھی امیدوار کے جیتنے کی اہلیت اہم ہے۔ بی جے پی بلدیاتی انتخابات کے دوران ان علاقوں میں مسلم امید واروں کو کھڑا کرتی ہے جہاں زیادہ تر مسلم آبادی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ جذبہ کانگریس میں بھی داخل ہو گیا ہے۔

کھاڈیا-جمال پور حلقہ سے اس کے ایم ایل اے، عمران کھیڈا والا نے کہا، "سیاسی جماعتیں کسی حلقے کی مساوات کو دیکھ کر امیدوار کی جیت پر غور کرتی ہیں۔ کانگریس اقلیتوں کو ٹکٹ دیتی ہے، لیکن یہ بھی مقامی مساوات پر منحصر ہے۔ جمال پورہ کھاڈیا واحد اسمبلی حلقہ ہے جہاں مسلم ووٹروں کی اکثریت (61%) ہے۔

 

*دو ہزار سترہ میں کامیاب ہونے والے مسلم ممبران اسمبلی*

گذشتہ اسمبلی میں، کانگریس کے ٹکٹ پر تین مسلمان ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے ، اور ایک سو بیاسی رکنی اسمبلی میں صرف یہی تین مسلم تھے ،

عمران کھیڈوالا کھاڈیا-جمال پور شہر احمدآباد سے کامیاب ہوئے تھے ،

غیاث الدین شیخ دریا پور ، شہر احمد آباد سے کامیاب ہوئے تھے اور جاوید پیرزادہ وانکانیر ضلع موربی سے کامیاب ہوئے تھے ، اور ان تینوں کو اس بار دو ہزار بائیس میں بھی ان کے پرانے حلقوں سے کانگریس سے ٹکٹ ملا ہے ،

مگر غیاث الدین شیخ اور عمران کھیڑا والا کی جیت اس بار آسان نہیں ہے ، یہاں سے اس بار مجلس اتحاد المسلمین نے بھی امیدوار اتارے ہیں ،

جمال پور سے عمران کھیڑا والا کے مقابلے میں سابق کانگریسی ممبر اسمبلی صابر کابلی والا مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں ، کانگریس نے ان کو دو ہزار سات میں میں اسی حلقے سے ٹکٹ دیا تھا ، اور وہ کامیاب ہوئے تھے ، دو ہزار بارہ میں ان کو کانگریس کا ٹکٹ نہیں ملا ، عمران کھیڑا والا کو کانگریس نے امیدوار بنایا ، صابر کابلی والا بھی بطور آزاد کھڑے ہوگئے ، ان دونوں مسلمانوں نے مل کر انٹھاون اعشاریہ چھ فیصد (58.06) ووٹ حاصل کئے ، اور بی جے پی کے امیدوار بھوشن بھٹ نے اڑتیس اعشاریہ تریسٹھ ( 38.63) فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ، کانگریسی امیدوار سمیر خان کو 41727(33.54٪) ا اور صابر کابلی والا کو 30513(24.52٪) ووٹ ملے تھے ،

اس طرح اکسٹھ فیصد مسلم ابادی والے جمال پور میں بھی بی جے پی کامیاب ہوگئی ، ہندو ووٹ بی جے پی کے لیے متحد ہوگیا اور مسلم ووٹ دو تین جگہوں پر منتشر ہوگیا ، یہاں انیس سو بہتر سے مسلم امیدوار کامیاب ہورہے تھے ،

ایسا بہار کے پینسٹھ فیصد مسلم ابادی والے کشن گنج ضلع کے بعض اسمبلی حلقوں میں بھی ہوچکا ہے ، جہاں دو تین مسلم امیدواروں کی ٹکر میں حلقے میں ساٹھ ستر فیصد مسلم اکثریت کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہندو امیدوار جیت گیا ،

دو ہزار سترہ میں صابر کابلی والا نے الیکشن نہیں لڑا ، اور عمران کھیڑا والا کو صابر کابلی والا کا بھی ووٹ مل گیا اور وہ 75346(58.24%) ووٹ حاصل کرکے بڑے شاندار طریقے سے کامیاب ہوئے ، سیٹینگ ممبر اسمبلی بی جے پی کے بھوشن بھٹ کو صرف 46007(35.56٪) ووٹ ملے ،

اب دو ہزار بائیس میں دیکھنا یہ ہے کہ یہاں مجلس کے صابر کابلی والا کامیاب ہوتے ہیں یا سیٹینگ ممبر اسمبلی عمران کھیڑا والا ، یا بی جے پی کا بھوشن بھٹ ،

 

*احمد آباد میں مجلس اتحاد المسلمین کا اثر*

ایک سال قبل ہوئے احمد آباد میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کے انتخابات مجلس اتحاد المسلمین نے سات سیٹیں جیتی تھیں، جس سے جمال پور اور بہرام پورہ وارڈوں میں کانگریس کو نقصان پہنچا تھا،

 

اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے کہا تھا ہے کہ ان کی پارٹی ریاست کی کل 182 میں سے 30 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر مجھے مجلس کے ایک بڑے لیڈر نے یہ کہا ہے کہ مجلس چودہ سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے ، اور انہوں نے مجلس کے امیدوار وں کی لسٹ بھی بھیجی ہے ،

 

*گجرات اسمبلی دو ہزار بائیس – ستائیس کے مسلم امیدوار*

گجرات اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں چار مشہور پارٹیاں ہیں ، بھارتیہ جنتا پارٹی ، انڈین نیشنل کانگریس ، عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین

بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بھی مسلم امیدوار نہیں اتارا ہے ، انڈین نیشنل کانگریس نے پانچ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے ان میں تینوں سیٹینگ ممبران اسمبلی بھی ہیں ،

عام آدمی پارٹی نے تین مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے ،

مجلس نے کل چودہ امیدوار ہی میدان میں اتارے ہیں ، ان میں سے بارہ مسلمان اور دو ہندو ہیں ،

مذکورہ بالا پارٹیوں کے مسلم امید واروں کی فہرست مندرجہ ذیل ہے

 

*کانگریسی مسلم امیدوار*

1- محمد جاوید پیر زادہ ، گجرات کے مغربی شمالی ضلع موربی کے وانکانیر اسمبلی حلقے سے امیدوار ہیں ، یہ دو ہزار سات سے کامیاب ہورہے ہیں ، یہ سیٹ ان کو وراثت میں ملی ہے ، ان سے قبل اس حلقے سے ان کے دو بھائی منظور پیر زادہ اور خورشید پیر زادہ کامیاب ہوچکے ہیں اور ان دونوں بھائیوں سے قبل ان والد عبد المطلب پیر زادہ بھی اس حلقے سے کامیاب ہوچکے ہیں ،

 

2- عمران کھیڑا والا جمال پور کھاڈیہ ، شہر احمد آباد ، سے امیدوار ہیں

اس حلقے کی تفصیل اوپر بھی گزرچکی ہے ، عمران کھیڑا والا دو ہزار سترہ میں کامیاب ہوئے تھے ،

یہاں سے مجلس کے صابر کابلی والا ( جو دو ہزار سات میں کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے) اور عام آدمی پارٹی کے ہارون ناگوری بھی امیدوار ہیں ،

 

3- غیاث الدین شیخ ، دریاپور ، شہر احمدآباد سے امیدوار ہیں ، یہ دو ہزار بارہ اور دو ہزار سترہ میں بھی کامیاب ہوئے ہیں ،

یہاں سے مجلس کے امیدوار ایڈوکیٹ حسن خاں اور عام آدمی پارٹی کے امیدوار تاج قریشی ہیں ،

4- اسلم سائیکل والا سورت ایسٹ سے کانگریس کے امیدوار ہیں ،

5- سلیمان موسی بھائی پٹیل ، واگرا ، ضلع بھروچ سے کانگریس کے امیدوار ہیں ،

 

*عام آدمی پارٹی کے امیدوار*

1- ہارون ناگوری جمال پور کھاڈیہ ، شہر احمد آباد سے امیدوار ہیں

2- تاج قریشی ،دریاپور ، شہر احمدآباد سے امیدوار ہیں

3- ساجد ریحان ، جمبو سر ضلع بھروچ سے امیدوار ہیں ،

 

*مجلس کے مسلم امیدوار*

1- مانڈوی ، ضلع بھج سے محمد اقبال

2- بھج ضلع بھج سے شکیل شمع

ان دونوں حلقوں میں مسلم آبادی پینتیس فیصد سے زیادہ ہے اور یہاں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کا مسلم امیدوار نہیں ہے ، اگر مسلمان متحد ہوکر ووٹ کریں تو یہاں سے مجلس کے امیدوار کامیاب ہوسکتے ہیں ،

3- سدھ پور ، ضلع پاٹن سے عباس بھائی

4- ویجل پور ، ضلع احمد آباد ، سے زینب بی بی

5- باپو نگر، شہر احمد آباد سے شہنواز خاں

6- دریا پور ، شہر احمد آباد سے ایڈوکیٹ حسن خاں

7- جمال پور کھاڈیہ، شہر احمد آباد سے سابق ممبر اسمبلی گجرات صابر کابلی والا

8- کھمباڈیا ، ضلع دیو بھومی دوارکا ، سے یعقوب بخاری ( باپو)

9- منگرول ( جوناگڑھ )، ضلع جوناگڑھ سے سلیمان پٹیل

10- گودھرا ، ضلع پنچ محل سے مفتی حسن کاچابا

11- سورت سٹی ایسٹ ضلع سورت سے وسیم قریشی

12- لمبایت ، ضلع سورت سے عبد البصیر شیخ

ان میں سے چار امیدواروں کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں ، بھج اور مانڈوی کا ذکر میں نے اوپر کردیا ہے ، چونکہ صابر کابلی جمال پور کھاڈیا سے دو ہزار سات تا دو ہزار بارہ کانگریس کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی رہ چکے ہیں ، اور ان کے حلقے سے ایک سال قبل ہونے والے احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں کئی سیٹیں مجلس کو ملی ہیں ، اس لیے امید قوی ہے کہ وہ جیت جائیں گے۔ ایک سو ننانوے رکنی احمد آباد کارپوریشن میں سات سیٹیں مجلس اتحاد المسلمین کو ملی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر سیٹیں جمال پور سے ہی ہیں ، بی جے پی کو 159 ، کانگریس کو 25, اور دیگر کو آٹھ سیٹیں ملی تھیں ، عام آدمی پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی

گودھرا میں بھی تقریبا چالیس فیصد مسلمان ہیں ، یہاں کے نگر پالیکا میں فی الحال چیرمین مجلس کا ہے ، یہ گجرات کا واحد نگر پالیکا ہے جہاں مجلس کا چیرمین ہے ، ایک سال قبل منعقد ہوئے نگر پالیکا انتخابات میں کل سات سیٹیں مجلس کو ملی تھیں ، اٹھارہ آزاد تھے ، اور ان آزاد کی مدد سے مجلس کا ایک ممبر گودھرا میونسپلٹی کا چیرمین منتخب ہوگیا ہے ،

 

گودھرا نگر پالیکا چوالیس رکنی ہے ، بی جے پی کو اٹھارہ ، مجلس کو سات آزاد کو اٹھارہ سیٹیں ملی تھی اور کانگریس کو صرف ایک سیٹ ملی تھیں، اٹھارہ آزاد میں سے تیرہ مسلم ہیں ،

گودھرا اسمبلی حلقے سے اب تک چار بار مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ، انیس سو باسٹھ میں طاہر عبد العلی اور انیس سو پچھتر ، انیس سو اسی اور انیس سو پچاسی میں خلپا عبد الکریم کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے ، چونکہ یہاں سے ماضی میں چار مرتبہ مسلم امیدوار کامیاب ہوچکے ہیں اور یہاں سے اس بار کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے امیدوار مسلم نہیں ہیں ،

ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہےکہ گودھرا سے مجلس کے امیدوار مفتی حسن کامیاب ہوسکتے ہیں ،

خلاصہ یہ ہے کہ میری نظر میں مانڈوی ضلع بھج ، بھج ضلع بھج ، جمال پور احمد آباد اور گودھرا سے مجلسی اُمیدواروں کی کامیابی کی امیدیں زیادہ ہیں ،

وڈگام ضلع بناس کانٹھا ، سے کلپیش سندھیا اور ڈانی لمڈا ضلع احمد آباد سے کشیکا بہن جی مجلس کی ہندو امیدوار ہیں.

Comments are closed.