نوٹ بندی کے عمل میں کوئی خامی نہیں: سپریم کورٹ

حکومت کا فیصلہ درست ہے ،عدالت عظمیٰ نے خلاف میں دائر تمام درخواستوں کو خارج کردیا
نئی دہلی۔۲؍جنوری: سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے 2016 میں نوٹ بندی کے خلاف دائر درخواستوں کو 4-1 کی اکثریت سے خارج کر دیا۔ چار ججوں نے نوٹ بندی کے فیصلے کودرست اور جسٹس بی وی ناگرتنا نے اسے غلط قرار دیا۔ عدالت نے 07دسمبر کو تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ جسٹس ایس عبدالنذیرکے علاوہ جسٹس بی آر گوئی، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے نوٹ بندی کے عمل کو برقرار رکھا۔چاروں ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ مقننہ کی معاشی پالیسی تھی جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ نوٹ بندی کا فیصلہ لینے کے عمل میں کوئی کمی نہیں تھی۔ اس لیے اس نوٹیفکیشن کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرانے نوٹ بدلنے کے لیے 52 ہفتے کاکافی وقت دیا گیا، جس میں اب توسیع نہیں کی جاسکتی ۔ عدالت نے کہا کہ 1978 میں نوٹ بندی کے لیے تین دن کا وقت دیا گیا تھا جسے مزید پانچ دن کے لیے بڑھا دیا گیاتھا۔جسٹس بی وی ناگرتنا نے کہا کہ مرکزی حکومت کے کہنے پر تمام سیریز کے نوٹوں کو چلن سے ہٹانا بہت سنگین معاملہ ہے۔ نوٹ بندی کا فیصلہ ایک بل کے ذریعے کیا جانا چاہیے تھا نہ کہ مرکزی حکومت کے نوٹیفکیشن کے ذریعے۔ ایسے اہم فیصلے پارلیمنٹ کے سامنے رکھے جانے چاہیے تھے۔ جسٹس ناگرتنا نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ریزرو بینک کی طرف سے دیے گئے ریکارڈ سے یہ واضح ہے کہ ریزرو بینک نے خود مختاری سے کوئی فیصلہ نہیں لیا تھا۔ سب کچھ مرکزی حکومت کی مرضی کے مطابق ہوا۔ نوٹ بندی کا فیصلہ صرف 24 گھنٹوں میں لیا گیا۔ مرکزی حکومت کی تجویز پر ریزرو بینک کے ذریعہ دی گئی صلاح کو قانون کے مطابق دی گئی سفارش نہیں سمجھا جا سکتا۔ قانون میں آر بی آئی کو دیئے گئے اختیارات کے مطابق، کسی بھی کرنسی کی تمام سیریز پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، کیونکہ سیکشن 26(2) کے تحت کسی بھی سیریز کا مطلب تمام سیریز نہیں ہے۔ 08 نومبر کو مرکزی حکومت کا نوٹ بندی کا فیصلہ غیر قانونی تھا۔اس معاملے کی سماعت کے دوران، سینئر وکیل پی چدمبرم نے عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹ بندی کے نتائج کے سلسلے میں نہ تو آر بی آئی کے مرکزی بورڈکو علم تھا اور نہ ہی مرکزی کابینہ کوکوئی معلومات تھی۔ چدمبرم نے کہا تھا کہ حکومت نے یہ فیصلہ لینے سے پہلے پرانے اور نئے نوٹوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ کوئی ڈیٹا جمع نہیں کیا گیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا تھاکہ کیا نوٹ بندی کا فیصلہ 24 گھنٹے میں لیا جا سکتا ہے؟ چدمبرم نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کے بعد زیادہ تر نوٹ واپس آ گئے ۔ نوٹ بندی کے لیے اپنایا گیا عمل قانونی خلاف ورزی ہے۔مرکزی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی نے کہا تھا کہ 2016 سے پہلے بھی ملک میں دو بار نوٹ بندی کی گئی تھی۔ پہلی نوٹ بندی 1946 میں ہوئی اور دوسری نوٹ بندی 1978 میں ہوئی۔ نوٹیفکیشن کے سیکشن 4 کے مطابق رعایتی مدت دی جا سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ درخواست گزاروں کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ نوٹ بندی سے این آر آئیز کی توہین ہوئی ہے۔ نوٹ بندی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد پارلیمنٹ نے اس پر بحث کی۔ پارلیمنٹ نے بھی مکمل بحث کے بعد اس کی منظوری دی۔
Comments are closed.