جھنڈ میں کُتا بھی شیر ہے!

احساس نایاب شیموگہ کرناٹک
ہندی فلموں میں اکثر ہمیں ایک ڈائلاگ سننے کو ملتا ہے کہ
جھنڈ میں کُتے بھی خود کو شیر سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
آج ایسے ہی ایک جھُنڈ کا واقعہ مدھیہ پردیش میں ہیش آیا ہے جہان انتہا پسند لڑکوں کے ایک جھنڈ نے
کمپیوٹر سائنس مین ماسٹرس کررہے ایک مسلم اسٹوڈینٹ کی بےرحمی سے پٹائی کی
اس دوران بدمعاش لڑکوں نے ویڈیو بناکر سوشیل میڈیا پر بھی وائرل کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
وائرل ویڈیو مین صاف نظر آرہا ہے کہ کس طرح ایک اکیلے مسلم لڑکے کو دس سے بارہ انتہا پسند لڑکوں کے جھنڈ نے گھیرا ہوا ہے
اور مسلم لڑکے کو مسلسل تھپڑ مار رہے ہیں ساتھ ہی بغیر کسی ڈر خوف کے اس پورے منظر کی ویڈیو بناتے ہوئے اُس مسلم لڑکے کو ڈنڈوں سے بڑی ہی بےدردی سے پیٹا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔
اس مسلم لڑکے کی غلطی بس اتنی سی ہے کہ وہ ایک ہندو لڑکی سے کتابوں کے بارے میں بات چیت کررہا تھا ، پھر کیا تھا اسی کو بہانہ بناکر بدمعاش لڑکوں نے مسلم لڑکے کی بہیمانہ پٹائی کردی ۔۔۔۔۔۔۔
فی الحال خبروں کے مطابق متاثر کی شکایت پر ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔
لیکن افسوس بھارت میں جس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں اس سے عالمی سطح پر بھارت کی شبیہ تو داغدار ہو ہی رہی ہے ساتھ بھارت اور بھارت کی صدیون پرانی گنگا جمنی تہذیب گھٹ کر جہالت و درندگی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ایک کمزور ، نہتھے انسان کو مارنا ، جھنڈ کی شکل مین آکر اُس کا قتل کرنا مردانگی سمجھی جارہی ہے اور اس درندگی کو بڑے ہی فخر کے ساتھ منظرعام پر لایا جاتا ہے تاکہ اس دردندگی پر لوگوں کی واہ واہی شاباشی مل سکے ۔۔۔۔۔۔۔
افسوس کہ اسلام و مسلمانوں سے نفرت و بغض کی آگ میں جل رہے سنگھیوں کی جانب سے بھارت کی فضا میں نفرت کا ایسا زہر گھول دیا گیا ہے کہ ایک بڑی آبادی ایسے غیرانسانی عمل کی تائید اور حمایت کرتے ہوئے ان شرپسندون کو مزید بڑھاوا دیتی ہے ، بھلے اس نفرت کی آگ میں ایک دن خود اُن کے اپنے آشیانہ ہی کیوں نہ جھلس جائیں لیکن اورون کی مظلومیت کا یہ ضرور تماشہ بنائیں گے اور نفرت کے پجاریوں کو بھگوان کا درجہ دیتے ہوئے پھول مالا پہنائی جائے گی
یقین نہ آئے تو گجرات کے افرزول کے بارے مین ضرور پڑھیں ، ساتھ ہی بھارت کے جموکشمیر کی ننھی بیٹی آصفہ کے ساتھ کی گئی درندگی اور اُن درندوں کی حمایت میں سڑکوں پر اترنے والی ہندونظیموں کے بارے میں بھی جانیے کی زحمت کریں ، ویسے ہاتھرس کا واقعہ بھی تو آنکھوں کے آگے ہے جہاں پولس و انتظامیہ کا کردار تو مشکوک تھا ہی ساتھ ہی خود کو اونچی ذات کہنے والے سنگھیوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، حتی کے بلتکاری درندوں کو بچانے کے خاطر ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا گیا ۔۔۔۔۔۔
بہرحال ظلم تو ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ بھی جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس دوران جو ان مظالم سے دوچار ہوتے ہیں اُن پر وہ وقت کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں ضروری ہے کہ خود پر سیکولرزم کا ٹیگ لگائے گھومنے والوں کو چاہئے کہ وہ ایسے معاملات کے خلاف آواز اٹھائیں اور آگے بڑھ کر ملک کی اقلیت کو یہ یقین دلائیں کہ وہ اپنے ملک عزیز بھارت میں محفوظ ہیں ،اُن کی جان مال آبرو اور اُن کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں ۔۔۔۔۔
ورنہ آپ کی امن و بھائی چارگی کی ساری باتیں میٹھا فریب ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر خود کو ہندوتوا کا رکشک کہہ کر اترانے والوں کا حال یقینا جھنڈ میں موجود دُم ہلانے والے اُن جانوروں جیسا ہے کیونکہ کتوں کا اپنے ہی جھنڈ میں خود کو شیر سمجھنا اور ہندوتوا کے نام پر ایک اکیلے نہتے کمزور انسان پر جھنڈ کی شکل میں حملہ کرکے خود کو دیش بھکت کہنا دونوں ایک جیسا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یعنی وہی جھنڈ میں کتا بھی خود کو شیر سمجھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.