نیوزی لینڈ :جسینڈاآرڈن کےجانشین کرس ہپکنز کون ہیں؟

بصیرت نیوزڈیسک
گزشتہ ہفتے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کے غیر متوقع طور پر مستعفی ہونے کے بعد 25 جنوری بدھ کے روز لیبر پارٹی کے رہنما کرس ہپکنز نے ایک تقریب میں باضابطہ طور پر نیوزی لینڈ کے نئے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
اس موقع پر نو منتخب وزیر اعظم نے کہا، ”یہ میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہونے کے ساتھ ہی ایک بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ میں آئندہ آنے والے چیلنجزسے نمٹنے کے لیے پرجوش اور حوصلہ مند ہوں۔”
اس موقع پر ان کے ساتھ ہی کارمل سیپولونی نے نائب وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی جزیرہ بحرالکاہل کی پہلی فرد ہیں۔
کرس ہپکنز نے حلف برداری کی تقریب کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ”اب یہ حقیقی محسوس ہو رہا ہے۔”
ہپکنز نیوزی لینڈ کے 41 ویں وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے ملک کی معیشت پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ہی ”مہنگائی کی وبا” پر توجہ دینے کی کوشش کا وعدہ کیا۔
انہوں نے گزشتہ ہفتے اس عہدے کے لیے نامزد ہونے کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا، ”امید کرتا ہوں کہ نیوزی لینڈ کے لوگ مجھے ایسے شخص کے طور پر جانیں گے کہ جو آگے رہتا ہو، ایسا شخص کہ جب کوئی غلطی ہو جائے تو اسے تسلیم کرنے میں کوئی اعتراض نہ ہو اور جو خود پر ہنس سکتا ہو۔”
اطلاعات کے مطابق نئے وزیر اعظم بدھ کے روز ہی کابینہ کے اپنے پہلے اجلاس کی قیادت کرنے والے ہیں۔
وزیر اعظم جیسینڈا آرڈرن نے اپنے دور اقتدار میں قدرتی آفات، بدترین دہشت گردانہ حملے اور کورونا وائرس جیسی وبا جیسے چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب رہی تھیں۔ تاہم گزشتہ ہفتے انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دینے کا اچانک اعلان کردیا تھا۔
بدھ کے روز انہوں نے قانون سازوں کو گلے لگایا اور جب وہ آخری بار پارلیمنٹ کے صحن سے باہر نکلیں، تو اس موقع پر بہت سے لوگ بظاہر جذباتی نظر آرہے تھے۔ اس وقت وہاں موجود سینکڑوں لوگوں نے زور دار تالیاں بجائیں۔
اس کے بعد وہ گورنمنٹ ہاؤس گئی جہاں انہوں نے اپنا استعفیٰ نیوزی لینڈ میں کنگ چارلس کے نمائندہ گورنر جنرل سنڈی کیرو کو باضابطہ طور پر پیش کیا۔
آرڈرن نے کہا کہ وہ ان لوگوں کو کافی یاد کریں گی جن سے اقتدار کے دوران ان کی ملاقاتیں ہوئیں کیونکہ ”کام میں وہی سب سے زیادہ خوشی کا باعث” تھے۔
اطلاعات کے مطابق وہ ضمنی انتخاب سے بچنے کے لیے اپریل کے اواخر تک پارلیمنٹ کی رکنیت برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں، لیکن اس کے بعد ان کا الیکشن لڑنے یا پارلیمان کی رکنیت حاصل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
سن 2017 میں جب انتخاب میں کامیابی کے بعد انہوں نے پہلی بار اقتدار سنبھالا تھا تو ان کی عمر محض 37 برس کی تھی۔ جیسینڈا آرڈرن دنیا کی کم عمر ترین خواتین ریاستی سربراہوں میں سے ایک ہیں۔ وہ ان چند خواتین رہنماؤں میں ایک ہیں، جو وزارت عظمی کے عہدے پر رہتے ہوئے بچے کی ولادت کے عمل سے بھی گزریں۔

 

Comments are closed.