Baseerat Online News Portal

تعلق اورترک تعلق کے آداب….! 

 

مفتی احمدنادرالقاسمی

رفیق علمی و باحث اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

ایک دوسرے سےتعلق اورمحبت جوخالص اللہ کی رضاکےلٸے ہو اوراس میں کوٸی ذاتی۔یاکسی قسم کا دنیوی مفاداورلالچ نہ ہو تو بہت اچھی چیزہے ۔اورانسان اورانسانی معاشرےکی ضرورت بھی ہے ۔باہمی تعلقات ہمیشہ اسی وقت مستحکم بھی رہتےہیں جب دنیوی خود غرضی سے پاک ہوں ۔اوراگر اس میں جب مفادپرستی داخل ہوگی تعلقات اورمحبت کی ڈور کمزورہوناشروع ہوجاٸے گی ۔اس سے زوجین کی باہمی محبت والامعاملہ علاحدہ ۔کیونکہ اس میں رشتے پرمبنی محبت اورتعلق ہوتاہے ۔جس کے تقاضے اصول اورحقوق وواجبات ہیں ۔اوریہ رشتہ ہے صرف محبت نہیں ۔اسلیے رشتوں والی محبت میں دنیاوی مفادبھی ہوگا ۔توقع بھی۔اورمقصد کاحصول بھی۔۔یہاں بات ہورہی ہے انسانی رشتوں اورعمومی تعلقات کی جن کی بنیاد رشتوں پرنہیں ۔بلکہ باہمی ربط وتعلق پرہے ۔اسی طرح ان عزیزواقارب سےتعلقات رکھنا جن کے واجبی حقوق نہیں ہوتے۔اورصلہ رحمی کے داٸرے میں آتےہیں ۔۔۔دین کامزاج یہ ہے کہ وہ تعلقات کو اخلاق اورحسن سلوک پر استوار کرنے کی ترغیب دیتاہے۔اسی لٸے اس نے تمام ترتعلقات میں رضاٸے الہی بنیادبنایاہے ۔چنانچہ ۔حدیث رسول میں مذکورہے۔”جس نے اللہ کی رضاکےلٸے کسی سے محبت کی۔اللہ رضاکےلٸے کسی کو کچھ دیا اوراللہ کی رضاہی کی دینے سے منع کیا تو اس نے اپنے ایمان کو مکمل کرلیا“ ۔۔۔۔ہمارادین اس بات کی تاکید کرتاہےکہ اگر آپ کاکسی سے تعلق ہوجاٸے تو اسے آخری سانس تک نبھانے کی کوشش کرے ۔اوراگر کسی وجہ سے من مٹاو ۔اوردوری ہوجاٸے تو اسے تین دن سے زیادہ طول نہ دے ۔اگر اسی حالت میں دنیاسے گذرگٸے توجہنم کے مستحق ہوسکتے ہیں ۔ابوداود ج۔٥۔ص ٢١٥۔۔۔البتہ زندگی میں ایساموقع آسکتاہے جس میں تعلقات کو خیرباد کہناپڑے اوراسکی اجازت بھی ہے۔مثلا ایسے تعلقات جوآپ کے نقصان اوراذیت کاباعث ہوسکتےہوں یاتعلقات رکھنے میں آپ کے دین میں فساد آسکتاہو تو قطع تعلق کی اجازت بھی ہے۔چنانچہ مالکی فقیہ ابن عبدالبر کےحوالے سے ابن حجر نے لکھاہے۔”اس بات پر فقہا ٕ کااجماع ہے کہ تین دن سے زیادہ ہجر۔یعنی قطع تعلق جاٸزنہیں ہے۔البتہ کسی شخص کو کسی سے بات کرنےسے اپنے دین میں فساد یااس کی طرف سے اپنی ذات یااپنی دنیاکونقصان پہچنے کااندیشہ ہوتواس کے لٸے ایساکرناجاٸزہے ۔اوربسااوقاتخوش اسلوبی سے کنارہ کشی اورعلاحدگی اذیت رساں میل جول سے بہترہوتاہے۔“۔فتح الباری ج۔١٠۔ص٤٩٦۔۔۔۔۔۔فقہا ٕ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر بیوی بچوں یااستاذکےلٸے شاگردکی تبیہ اورتربیت مقصودہواوراس مقصد سے تین دن زیادہ قطع تعلق رکھے تو وہ ممانعت کے داٸرے میں نہیں آٸے گا ۔کیونکہ یہاں ان کے ساتھ بھلاٸی مقصود ہے۔جوقطع تعلق ممنوع ہے ۔اس کو دشمنی۔کینہ ۔تکبر۔مال وزر اورمنصب وغیرہ میں احساس برتری کی وجہ کنارہ کشی پرمحمول کیاجاٸے گا۔اولادکے لٸے والدین کو پلک جھپکنےکے بقدربھی چھوڑنا جاٸزنہیں ہوگا۔۔حوالہ مذکور ۔نیز مرقات۔معالم السنن۔حاشیہ الجمل وغیرہ دیکھاجاسکتاہے۔۔۔میراخیال ہے کہ چونکہ بیوی کی تبیہ کے لٸے شوہرکو قران بستر وغیرہ الگ کرنے کی اجازت دی ہے اس شوہر کےلیے تواس کی گنجاٸش ہے ۔مگر بیوی کےلٸے اس کی گنجایش نہیں ہے کہ وہ شوہرسےکسی بات پر ناراض ہوکربات چیت بند کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قطع تعلق پر شریعت کی تنبیہ۔۔۔۔۔۔۔۔ابوداود کی ایک روایت میں حضرت حدردبن ابی حدرداسلمی۔رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے۔”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرکوٸی شخص اپنے بھاٸی کو چھوڑے رکھے اوراس سے بات نہ کرے تو یہ اس کاخون کردینے کے مترادف ہے۔۔۔“ ۔۔ابن علان کہتے ہیں یہ گناہ کے اعتبار سے ظلماخون بہانے کی طرح ہے۔۔دلیل الفالحین۔ج٤۔ص ٤٤٥۔۔۔۔مالکی علما ٕ میں قاضی عیض نے ابن القاسم سے نقل کیاہے کہ ۔بات چیت بندکرنے والے شخص کی گواہی قبول نہیں کی جاٸے گی۔۔المنتقی۔ج۔٧۔ص ٢١٥۔۔۔اور آخرت کے اعتبار سے حدیث میں تو یہ مذکورہی ہےکہ تین دن سے زیادہ بات بندکرنےوالاشخص اگراسی حال میں انتقال کرگیاتو اللہ اسے دوزخ میں ڈالے گا۔۔۔اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرماٸے ۔اوراپنے عزیزواقارب دوست احباب محلے پڑوس کے تمام لوگوں کاخیال رکھنے تعلقات نبھانے۔اورہمیشہ برقراررکھنے کی توفیق عطافرماٸے ۔آمین۔

Comments are closed.