Baseerat Online News Portal

سفر معراج کے مناظر

 

محمد ہاشم القاسمی

(خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)

فون نمبر :=9933598528

27 رجب المرجب بروز پیر کی سہانی رات تھی اور نبیوں کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نمازِ عشاء ادا فرمانے کے بعد اپنی چچازاد بہن حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر آرام فرما تھے، جبرئیل امین علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے، حضرت جبریل علیہ السلام دروازے سے آنے کی بجائے چھت پھاڑ کر اندر آئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اٹھایا اور حطیم کعبہ لے گئے، وہاں سے زمزم کے کنویں پر تشریف لے گئے، قلب اطہر کو نکالا اور اس کو زمزم کے پانی سے دھویا اور ایمان وحکمت سے اس کو بھر دیا گیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت لگادی گئی۔ براق پر سوار ہوئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا سفر معراج شروع ہوا۔

پہلا اسٹاپ مدینہ منورہ، دوسرا اسٹاپ طور سینا، تیسرا اسٹاپ بیت اللحم، چوتھا اسٹاپ بیت المقدس، یہاں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم آسمان پر تشریف لے گئے آسمان اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، اور ہفتم، ساتواں آسمان تک پہنچے اور پھر وہاں سے اوپر آپ سدرۃ المنتہیٰ تک گئے ہیں۔ صریر الاقلام تک پھر عرش معلیٰ تک، پھر وہاں سے واپس تشریف لائے ہیں۔ ع زنجیر بھی ہلتی رہی بستر بھی رہا گرم = تا عرش گئے اور چلے آئے محمد.

اس کی تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے کہ معراج کے سفر میں براق کی سواری ہے اور ہمسفر حضرت جبریل علیہ السلام ہیں، سب سے پہلے آپ کا گزر کھجوروں والی زمین سے ہوا، وہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا” اتریے اور یہاں نماز پڑھئے” آپ صلی اللہ علیہ و سلم اترے، نماز ادا کی اور پھر سوار ہوئے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے دریافت کیا، آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہیں۔ جبرئیل علیہ السلام بولے "آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی ہے اور آپ یہیں ہجرت کریں گے” پھر براق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر آگے بڑھا یہاں تک کہ مدین پہنچا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس درخت کے پاس جس کے نیچے مصر سے نکلنے کے بعد آپ نے سایہ حاصل کیا تھا۔ حضرت جبرئیل نے حضور سے عرض کیا” اتریے اور نماز پڑھیے” آپ اترے اور نماز ادا فرمائی، پھر طورِ سینا گئے جہاں پر اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شرف ہم کلامی سے نوازا تھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا اتریے اور نماز پڑھیے حضور نے اتر کر نماز پڑھی، پھر آپ سوار ہوئے یہاں تک کہ اس سرزمین پر پہنچے جہاں سے شام کے محلات آپ پر روشن ہوگئے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے عرض کیا اُتریے اور نماز پڑھیے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز ادا فرمائی پھر آپ براق پر رونق افروز ہوئے، جب براق آپ کو لے کر چلا تو جبرئیل امین نے دریافت کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی؟ حضور نے فرمایا نہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا، آپ نے بیت لحم میں نماز پڑھی ہے۔ یہیں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی، ان مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اترنا اور نماز ادا فرمانا اس بات پر بڑی دلیل ہے کہ ان مقامات کا اسلام اور پیغمبر اسلام سے تعلق ہے اور یہ سارے مقامات آپ کے پرچم اور منصب کے نیچے ہیں اور یہ کہ اسلام ہی غالب رہنے والی ربانی دعوت ہے اور اس دعوت نے سابقہ تمام دعوتوں کومنسوخ کرد یاہے۔

حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سواری مختلف مقامات ومناظر سے گزرتی ہے۔ جب آپ براق پر سیر کررہے تھے تو آپ نے ایک جنات کو دیکھا جو آپ کو آگ کا ایک شعلہ دکھا رہاتھا جب حضور اس کی طرف متوجہ ہوتے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں آپ کو ایسے کلمات نہ بتاؤں کہ جب آپ وہ کلمات پڑھیں تو اس کا شعلہ بجھ جائے اور وہ منہ کے بل گر پڑے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ضرور بتائیے” حضرت جبرئیل نے درج ذیل کلمات سکھائے:

اَعُوْذُ بِوَجْہِ اللّٰہِ الْکَرِیْمِ، وَبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّآمَّآتِ الَّتِیْ لَاَیُجَاوِزُھُنَّ بَرٌّ وَّلَاَ فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمِنْ شَرِّمَا یَعْرُجُ فِیْھَا، وَمِنْ شَرِّمَا ذَرَأ فِیْ الْاَرْضِ، وَمِنْ شَرِّمَا یَخْرُجُ مِنْھَا، وَمِنْ فِتَنِ الَّلیْلِ وَالنَّھَارِ، وَمِنْ طَوَارِقِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ اِلَّا طَارِقًا یَّطْرِقُ بِخَیْرٍ یَارَحْمٰنُ۔ ترجمہ، میں اللہ کریم کی پناہ میں آتاہوں اور اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں جن سے نہ کوئی نیک تجاوز کر سکتاہے اور نہ فاسق ،اس شر سے جو آسمان سے اترتاہے اور اس شر سے جو آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے ،اس شر سے جو زمین میں پیدا ہوا، اس شر سے جوزمین سے نکلتا ہے اور شب و روز کے فتنوں سے، اور رات اور دن کے آنے والوں سے ،البتہ جو رات کو خیر سے آئے، اے رحمت فرمانے والے”جوں ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کلمات ادا فرمائے جنات منھ کے بل گر کر ہلاک ہوگیا اور اس کا شعلہ بھی بجھ گیا

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ معراج کی رات جب میں (حضرت) موسیٰ علیہ السلام کی قبر (منور) سے گزرا تو میں نے (حضرت) موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا.

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اِس سفر معراج میں کیا کچھ ملاحظہ فرمایا قارئین کرام کی نذر کئے جاتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جماعت کو ملاحظہ فرمایا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں (اور عجیب بات تو یہ ہے کہ) اُدھر کٹ رہے ہیں پھر اُسی وقت دوبارہ صحیح ہو جاتے ہیں پھر کٹتے ہیں پھر صحیح ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح برابر یہ سلسلہ جاری ہے۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں جن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے ہیں؟ عرض کیا گیا یہ وہ فتنہ پرور واعظین، مدرسین اور مقررین ہیں ( جو کہتے کچھ تھے کرتے کچھ تھے)۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول کریم نے فرمایا کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھڑوں جیسے ہیں۔ جب وہ اُٹھنا چاہتے ہیں تو گر پڑتے ہیں اور مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ قیامت قائم نہ ہو۔ یہ لوگ فرعونی جانوروں سے روندے جاتے ہیں اور بارگاہِ رب میں آہ و زاری کر رہے ہیں۔ میں نے (حضرت) جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ یہ سود خور لوگ ہیں اور سود خور اُن لوگوں کی طرح ہی کھڑے ہوں گے جنہیں شیطان نے پاگل بنا رکھا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ کچھ دُور چلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں سینوں سے بندھی اُلٹی لٹکی ہوئی ہیں‘ ہائے وائے کر رہی ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون عورتیں ہیں؟ تو بتایا گیا یہ بدکار عورتیں ہیں (اور اپنی اَولاد کو قتل کرتی تھیں)۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ میں نے کچھ لوگ دیکھے جن کے پہلوﺅں سے گوشت کاٹ کاٹ کر فرشتے اُنہیں کھلا رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ جس طرح دُنیا میں تم نے اپنے (مُردہ) بھائیوں کا گوشت کھایا اِسی طرح اَب یہ گوشت بھی کھاﺅ۔ میں نے پوچھا! اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ (جو اپنا ہی گوشت کھانے پر مجبور کئے جا رہے ہیں) عرض کیا یا رسول اللہ یہ عیب جو اور آوازیں کسنے والے لوگ ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب مجھے میرے اللہ کی طرف عروج دیا گیا تو میں ایک قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن نحاس یعنی تانبے کے تھے وہ اُن ناخنوں سے اپنے سینوں اور چہروں کو خراش رہے تھے۔ میں نے پوچھا ! اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ (حضرت) جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا‘ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی آبرو ریزی کرنے اور غیبت کے در پے رہتے تھے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور نے فرمایا: میں نے کچھ قومیں دیکھیں جن کے ہونٹ مثل اُونٹ کے ہیں اور اُن کے منہ کھولے جاتے ہیں اور بد بودار گوشت اُن کے منہ میں ڈالا جاتا ہے اور پاخانے کے راستے سے نکل جاتا ہے وہ چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ میں نے سُنا وہ اللہ سے چیخ کر فریاد کرتے ہیں۔ حضرت جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے (اور اپنے مال سے صدقہ نہ دیتے تھے) اب یہ آگ کھاتے ہیں اور عنقریب دوزخ میں پہنچیں گے۔(تفسیر مظہری) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور کا گزر ایک اَیسی قوم پر ہوا۔ جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے۔ بار بار کچلے جاتے پھر صحیح ہو جاتے تھے۔ یہ عمل اِسی طرح بار بار ہو رہا تھا سر کچلے جاتے تھے‘ ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ایک پَل کے لئے بھی اُنہیں مہلت نہ دی جاتی تھی۔ سرکار کائنات فرماتے ہیں ،میں نے حضرت جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ میں نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے پرانے کپڑے لٹک رہے ہیں اور اُونٹوں اور جنگلی جانوروں کی طرح کانٹوں والے جہنمی درخت کھا رہے ہیں۔ جہنم کے پتھر اور اَنگارے نگل رہے ہیں۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا یارسول اللہ یہ لوگ اپنے مال کی زکوٰة نہیں دیتے تھے۔ اللہ نے اِن پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں، حبیب کبریا نے دیکھا کہ ایک بہت بھاری بھر کم قوی ہیکل بیل ایک پتھر کے چھوٹے سے سوراخ سے نکل رہا ہے‘ جب باہر آ جاتا ہے پھر اُسی سوراخ میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے۔ پوچھا اے جبرائیل یہ کیا ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ! یہ اُس شخص کی مثال ہے جو منہ سے بڑی بات نکالتا تھا پھر خود ہی نادم ہو جاتا تھا اور چاہتا تھا کہ میری بات واپس لوٹ آئے لیکن اَیسا نہیں ہوتا۔

 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک شخص پر گزر ہوا۔ اُس نے بہت بڑا گٹھا جمع کیا ہوا تھا مگر اُس کو اُٹھا نہیں سکتا تھا پھر بھی اور اِضافہ کر رہا تھا۔ پوچھا اے جبرائیل یہ کیا ہے؟ عرض کیا آپ کی اُمّت سے وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی اَمانتیں ہیں جن کو وہ اَدا نہیں کر سکتا۔ مگر اِس کے باوجود اَمانتیں لے رہا ہے اور اپنے اُوپر حقوق (کا بوجھ) چڑھا اور بڑھا رہا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میں نے دورانِ سفرِ معراج ایک لکڑی کو دیکھا کہ ہر گزرنے والے کے کپڑے پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کر دیتی ہے۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا گیا یہ آپ نے اُن کی مثال دیکھی ہے جو راستے روک کر بیٹھتے ہیں پھر اِس آیتِ مبارک کو پڑھا: ترجمہ ”اور ہر راستہ میں یوں نہ بیٹھو کہ ڈراﺅ۔“(الاعراف)علاوہ ازیں بڑے حسین منظر بھی دیکھے جنت اور دوزخ کو بھی ملاحظہ فرمایا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‘ سید الانبیاء نے فرمایا میں نے ایک قوم کو دیکھا جو ایک روز کھیتی بوتی ہے اور دوسرے دن کھیتی کاٹتی ہے جونہی کاٹ کر فارغ ہوتی ہے تونئی کھیتی بڑھ جاتی ہے۔ حضرت جبرائیل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کیا یا حبیب اللہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں جن کی نیکیاں ختم ہی نہیں ہوتیں۔ سات سات سو گنا تک بڑھتی ہیں اور جو خرچ کریں اُس کا بدلہ پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور فرماتے ہیں ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ خوشبو کی مہک آنے لگی۔ میں نے کہا یہ کیسی خوشبو ہے؟ جواب ملا کہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی (خادمہ) اور اُس کی اَولاد (کے محل) کی ہے‘ عرض کیا‘ اُس کے ہاتھ سے کنگھی گری تو اُس نے کہا بسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے کہا اللہ تو میرا باپ ہے۔ اُس (خادمہ) نے جواب دیا کہ میرا اور تیرا اور تیرے باپ کا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کیا میرے باپ کے علاوہ تیرا کوئی اور ربّ ہے۔ اُس نے کہا میرا اور تیرا اور تیرے باپ کا ربّ ہے۔ اُس نے اپنے باپ کو ساری بات سُنائی۔ فرعون نے اُس (خادمہ) کو بلوایا اور کہا کیا تم میرے سوا کسی اور کو ربّ مانتی ہو۔ کہا ہاں میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون نے اُسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی گائے کو آگ میں تپایا جائے‘ جب وہ بالکل آگ جیسی ہو جائے تو پھر اِسے اور اِس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اُس میں ڈال دیا جائے۔ اُس مومنہ عورت نے فرعون سے کہا میری ایک درخواست ہے اُس نے کہا کیا ہے؟ اُس نے کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک جگہ ڈال دینا۔ فرعون نے کہا اَچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اِس لئے یہ منظور ہے۔ بعد ازیں فرعون نے حکم دیا کہ ایک ایک کر کے اِس کے بچوں کو آگ کی طرح تپتی ہوئی گائے میں ڈال دو۔ جب دُودھ پیتے بچے کی باری آئی (فرعون کے سپاہیوں نے جب اُس بچے کو چھینا) تو وہ گھبرائی تو اللہ تعالیٰ نے دُودھ پیتے بچے کو گویائی عطا فرمائی۔ اُس نے (اپنی ماں سے) کہا امی جان اَفسوس نہ کریں اور نہ ہی پس و پیش کریں آپ حق پر ہیں۔ وہ لوگ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں جو روپے پیسے کی خاطر بے دین مشرک اور کافر ہو جاتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ اِس کو حضرت اِمام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ نے روایت کیا کہ سرکارِ کائنات نے فرمایا جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں (حضرت) بلال رضی اللہ عنہ کے پاﺅں کی آواز کو سُنا۔ (حضرت) جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو اُنہوں نے عرض کیا یہ آپ کے مؤذن (حضرت) بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب رسولِ کریم واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ فلاح پائی (حضرت) بلال رضی اللہ عنہ نے۔ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے بلال رضی اللہ عنہ ہم نے جنت میں تیرے پیروں کی چاپوں کی آواز سُنی ہے توُ کیا عمل کرتا ہے؟ عرض کیا‘ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں مجھے تو کوئی بات معلوم نہیں۔ سوائے اِس کے کہ جب بھی میں نے وضو کیا تو دو رکعت نماز تحیتہ الوضو پڑھی (سوائے مکروہ اوقات کے)۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ایک وادی میں پہنچے جہاں نہایت نفیس‘ معطر‘ خوشگوار ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور نہایت راحت و سکون کی مبارک آوازیں آرہی تھیں آپ نے سُن کر فرمایا جبرائیل علیہ السلام یہ کیسی خوشگوار‘ معطر‘ مبارک‘ راحت و سکون والی آوازیں ہیں۔ عرض کیا اے محبوب کائنات یہ جنت کی آوازیں ہیں‘ وہ کہہ رہی ہیں کہ اے بار ی تعالیٰ میرے ساتھ تو نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا فرما۔ میرے بالا خانے میں موتی‘ مونگے‘ سونا‘ چاندی‘ جام‘ کٹورے‘ شہد‘ پانی‘ دودھ‘ شراب طہور وغیرہ وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ اسے ربّ کائنات کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک وہ مسلمان جو مجھے اور میرے رسولوں کو مانتا ہے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور نہ ہی میرے برابر کسی کو سمجھتا ہے وہ سب تجھ میں داخل کئے جائیں گے۔ پھر فرمایا ، اے جنت سُن جس کے دل میں میرا خوف ہے وہ ہر خوف و خطر سے محفوظ ہے۔ مجھ سے سوال کرنے والا محروم نہیں رہتا۔ مجھے قرض دینے والا بدلہ پاتا ہے جو میرے اوپر بھروسہ کرتا ہے اسے خوب عطا فرماتا ہوں۔ کفالت کرتا ہوں ‘ میں سچا معبود واحد ہوں میرے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں۔ میرے وعدے غلط نہیں ہوا کرتے۔ مومن نجات یافتہ ہے (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) میں بابرکت اور سب سے بہتر خالق ہوں۔یہ سُن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہوں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ کہ سیّد کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک اور وادی دیکھی جہاں سے نہایت بھیانک اور خوفناک آوازیں آ رہی تھیں۔ اور سخت بدبو آ رہی تھی۔ آپ نے اس کے بارے میں (حضرت) جبرائیل سے پوچھا اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ جہنم کی آواز ہے جو یہ کہہ رہی ہے مجھے وہ دے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ میرے طوق و زنجیریں‘ میرے شعلے‘ تھوہر لہو اور پیپ‘ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں۔ میرا گہراﺅ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے۔ مجھے وہ عنایت فرما جس کا وعدہ مجھ سے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر مشرک و کافر‘ خبیث‘ منکر‘ بے اِیمان مرد عورت میرے لئے ہے۔ یہ سن کر جہنم نے اپنی رضامندی ظاہر کی۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ابھی میں براق پر سوار ہو کر چلا ہی تھا تو مجھے کسی پکارنے والے نے دائیں طرف سے پکارا: یا محمد انظرنی اسلک یا محمد انظرنی اسلک یا محمد انظرنی اسلک (تین مرتبہ یہ کہا اے محمد میری طرف دیکھئے میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں)۔ آپ فرماتے ہیں‘ نہ میں نے جواب دیا نہ ہی میں ٹھہرا۔ پھر جب تھوڑا آگے بڑھا تو بائیں طرف سے کسی پکارنے والے نے اِسی طرح پکارا: ”اے محمد میری طرف دیکھئے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔“ سرکار کائنات فرماتے ہیں نہ میں نے اُس کی طرف دیکھا اور نہ میں ٹھہرا۔ پھر کچھ آگے گیا تو ایک عورت دُنیا بھر کی زینت کئے ہوئے بازو کھولے کھڑی ہے۔ اُس نے مجھے اِسی طرح آواز دی: یا محمد انظرنی اسلک لیکن میں نے نہ تو اس کی طرف توجہ فرمائی اور نہ ہی وہاں ٹھہرا۔ جب بیت المقدس پہنچے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ! آپ متفکر کیوں ہیں؟ فرمایا راستے والے واقعات سے۔ عرض کیا‘ یا رسول اللہ پہلا شخص تو یہودی تھا اگر آپ اُس کا جواب فرما دیتے تو آپ کی اُمّت یہودی ہو جاتی۔ دوسرا نصرانیوں کا دعوت دینے والا تھا۔ اگر آپ وہاں ٹھہرتے اور اُس سے باتیں کرتے تو آپ کی اُمّت نصرانی ہو جاتی۔ اور وہ عورت دُنیا تھی اگر آپ اُسے جواب دیتے یا وہاں ٹھہرتے تو آپ کی اُمّت دُنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر گمراہ ہو جاتی۔ اللہ اکبر!

بیت المقدس کے معاملات سے فارغ ہو کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آسمان کی طرف سفر شروع فرمایا اور ہر بلندی کو پست فرماتے ہوئے تیزی سے آسمان کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ آن کی آن میں پہلا آسمان آ گیا۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوانا چاہا، پوچھا گیا: کون ہے؟ حضرت جبریل ؑنے فرمایا، جبریل ہوں، پوچھا گیا: آپ کیساتھ کون ہیں؟ جواب دیا: محمد صلی اللہ علیہ و سلم ۔پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا، ہاں۔ اس پر کہا گیا، مرحبا، کیا ہی اچھا آنیوالا آیا ہے۔پھر دروازہ کھول دیا۔ پہلے آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ دوسرے آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔ تیسرے آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام ، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام اور چھٹے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، ان سب انبیاء کرام نے آپؐ کو خوش آمدید کہا۔ پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ساتویں آسمان پر پہنچے جہاں پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے ملاقات ہوئی جو بیت المعمور ( فرشتوں کا قبلہ ) سے ٹیک لگائے تشریف فرما تھے۔ کعبہ معظمہ کے مقابل ساتویں آسمان کے اوپر ،یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض روایات کے مطابق فرشتوں کو نماز پڑھائی جیسے بیت المقدس میں نبیوں کو پڑھائی تھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ یہاں پہنچ کر حضرت جبریل علیہ السلام ٹھہر گئے اور آگے جانے سے معذرت خواہ ہوئے۔ پھر آپ ؐاکیلے آگے بڑھے اور بلندی کی طرف سفر فرماتے ہوئے عرش کو پا لیا۔ اس دوران جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم رونق افروز ہوئے، وہاں جگہ تھی نہ زمانہ، بس اسے لامکاں کہا جاتا ہے۔ یہاں اللہ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کو وہ قربِ خاص عطا فرمایا کہ نہ کسی کو ملا نہ ملے گا. ع میان عاشق و معشوق رمزیست = کراماً کاتبیں را ہم خبر نیست. بلغ العلی بکمالہ، کشف الدجا بجمالہ، حسنت جمیع خصالہ، صلوا علیہ وآلہ.

Comments are closed.