سیرت نبوی کا مطالعہ
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
جنرل سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
____________________
اُمت ِمسلمہ کی اپنے نبی کے ساتھ تعلق کا معاملہ دوسری اقوام اور ان کے پیشواؤں سے بالکل جداگانہ ہے اور اس کے کئی وجوہ ہیں : اول یہ کہ دوسری قوموں نے مذہب کو علمی زندگی سے نکال باہر کیا ہے ، یورپ میں حکومت اور کلیسا کی جنگ بالآخر اس بات پر ختم ہوئی کہ انسان کی عملی زندگی سے کلیسا کو کوئی تعلق نہیں ہے ، مذہب کے خلاف یہ بغاوت اور اس بغاوت کی کامیابی نے پوری دنیا کی اقوام پر گہرا اثر ڈالا اور انسان پر مذہب کی جو کچھ گرفت تھی، وہ ڈھیلی پڑ گئی ، اور تو اور جو مسلم ممالک یورپ سے متصل تھے یا وہ یورپ کے زیر اقتدار آگئے تھے ، وہ بھی اس کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکے ، ترکی اور انڈونیشیا وغیرہ اس کی واضح مثال ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ ان قوموں میں مذہبی پیشوائوں کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک قابل احترام شخصیت کی ہوگئی ، وہ لوگوں کے لئے قابل اتباع باقی نہیں رہے ، بعض مذاہب میں تو پہلے ہی سے مذہبی پیشوا خدا کا درجہ رکھتے تھے اور ان سے ایسی دیومالائی کہانیاں متعلق تھیں کہ کسی انسان کے لئے ان کی اتباع ممکن ہی نہ تھی ، اس لئے ان اقوام کو اپنی مذہبی شخصیتوں کی زندگی کو پڑھنے کی کوئی عملی ضرورت باقی نہیں رہی ۔
مسلمانوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے ، مسلمانوں کے یہاں بحمداللہ کبھی علماء اورعوام کے درمیان اقتدار کی کھینچا تانی اور رسہ کشی نہیں پیدا ہوئی ، نہ علماء نے اپنے مذہبی مقام کو عوام کے استحصال کے لئے استعمال کیا ، نہ اپنے مخالفین کو زندہ جلانے کی کوشش کی اور نہ اپنے معتقدین سے ’’ مغفرت نامے ‘‘ فروخت کئے ، اس لئے کبھی بھی علماء اور مسلمانوں کے درمیان کوئی ایسی جنگ کی صورت پیدا نہیں ہوئی ، جو یورپ میں کلیسا اور عوام کے درمیان ظہور میں آئی تھی ، پھر اسلام نے پیغمبر اسلام کو ایک انسانی نمونہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور آپ کی تعلیمات اتنی سادہ اور فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہیں کہ ان پرعمل کرنا چنداں دشوار نہیں؛ اس لئے اس اُمت کا تعلق اپنے پیغمبر سے صرف تعظیم و احترام کا نہیں ؛ بلکہ اطاعت و اتباع کا بھی ہے اور اسلام ہم پر اسے واجب قرار دیتا ہے ، قرآن ہمیں بار بار اللہ کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور فرامین پر عمل کا حکم دیتا اور اس سے روگردانی کو کفر قرار دیتا ہے ، قل أطیعو اﷲ والرسول فان تولوا فان اﷲ لایحب الکافرین ، (آل عمران : ۳۲) — اور اسے ایمان کی کسوٹی کہتا ہے : وأطیعو اﷲ ورسولہ ان کنتم مؤمنین (انفال: ۱ ) — بلکہ فرمایا گیاکہ رسول کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے : من یطع الرسول فقد اطاع اﷲ ۔ ( النساء : ۸۰ )
رسول کے احکام کی حیثیت قانون شریعت کے بنیادی سرچشمہ کی ہے ، اس لئے حکم ربانی ہواکہ رسول جو بھی حکم دیں، اس کی تعمیل کرو، اور جس بات سے منع فرمائیں، اس سے بچو ، ماأتاکم الرسول فخذوہ و مانہاکم عنہ فانتہوا ( حشر : ۷ ) —- جب رسول کسی بات کے بارے میں فیصلہ کردیں تو اب انسان کو اس سلسلہ میں کوئی اختیار حاصل نہیں ( احزاب: ۳۶ ) —- بلکہ اختلاف و نزاع کے موقع پر جو شخص رسول کے فیصلہ پر راضی اوراحکام نبوی کو اپنے آپ پر جاری و ساری کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو، وہ مسلمان ہی نہیں ہوسکتا : فلا و ربک لایؤمنون حتیٰ یحکّموک فیما شجر بینہم ، ( النساء : ۶۵ ) — آپ کے ارشادات ہی کی اطاعت کافی نہیں ؛ بلکہ آپ کے عمل کی اتباع و پیروی بھی ضروری ہے ( بقرہ : ۱۴۳ ) بلکہ رسول کی اتباع اللہ سے محبت کا لازمی تقاضا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع انسان کو خود خالق تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے : قل إن کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ، (آل عمران : ۳۱) چنانچہ آپ کی ذات والا صفات کو اُمت کے لئے بہترین نمونہ اور آئیڈیل قرار دیا گیا : لقد کان لکم فی رسول اﷲ اُسوۃ حسنۃ ( احزاب : ۲۱) —- جب آپ کا تعلق کسی شخصیت سے اطاعت واتباع کا ہو تو اس کی حیات اورتعلیمات کو پڑھنا ناگزیر ہے ، کیوںکہ اس کے بغیر اس کی اتباع واطاعت ممکن ہی نہیں ۔
دوسرے: پیغمبر سے انسانیت کا تعلق لازمی محبت اور احترام کا ہے ؛ کیوںکہ وہ خدا کا فرستادہ اور اس کا مقبول بندہ ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دی کہ گفتگوکے درمیان ان کی آواز رسول کی آواز سے بلند ہوجائے ، لاترفعوا أصواتکم فوق صوت النبی ( الحجرات : ۲ ) اور ارشاد ہواکہ رسول کو متوجہ کرنے کا وہ انداز نہ ہونا چاہئے ، جو لوگوں کا ایک دوسرے سے ہوتا ہے ، لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا ( النور : ۶۳ ) اور مجرد احترام و تعظیم ہی کافی نہیں؛ بلکہ نبی کی والہانہ اور وارفتہ کر دینے والی محبت بھی ضروری ہے ، ایسی محبت جو اولاد اور اپنی جان و تن سے بھی بڑھ کر ہو ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہوسکتا ، جب تک میں اسے اس کے ماں باپ ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں (بخاری ، حدیث نمبر : ۱۵ ، مسلم ، حدیث نمبر : ۴۴ ) اور واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کے دل میں اپنے پیغمبر کی ایسی محبت رچا بسادی ہے کہ پاکیزہ ، سچی اورحقیقی محبت کی ایسی کوئی مثال نہیں مل سکتی ۔
چنانچہ یہ مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور آپ کی محبت ایمان کا لازمی جزو ہے اور ( خدا نخواستہ ) آپ کی توہین یا آپ سے بے تعلقی کفر و ارتداد کا باعث ہے ، یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے ، سلف ِصالحین کا حال تو یہ تھاکہ وہ نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے بلکہ آپ کی طبعی مرغوبات بھی ان کو محبوب ہوتی تھیں، اور کوئی شخص ان کے بارے میں ناپسندیدگی اور بے رغبتی کا اظہار کرتا تو ان سے برداشت نہیں ہوتا ؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت اور عمل کے استہزاء کو فقہاء نے موجب کفر قرار دیا ہے ، —- اس درجہ کی محبت اورعظمت اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی ، جب تک کوئی شخص آپ کی حیات طیّبہ کا مطالعہ نہ کرے ؛ اس لئے کہ جب تک انسان کسی کی شخصیت ، اس کی پاکیزہ حیات اوراس کے کردارکی عظمت سے واقف نہ ہو ، نہ اس کے دل میں حقیقی معنوں میں اس شخص کی عظمت جاگزیں ہوسکتی ہے اور نہ سچی محبت پروان چڑھ سکتی ہے ، دوسری اقوام کا معاملہ اس سے مختلف ہے ، ایک شخص رام جی کی پرستش کرکے بھی ہندو ہوتا ہے اور رام کا پتلا جلاکر بھی ، عیسائیوں کے یہودیوں سے گرم جوش تعلقات دیکھئے اور اس پر بھی نظر رکھئے کہ یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کو آج بھی ولدالزنا اورحضرت مریمؑ کو زانیہ کہتے ہیں ، پھر سوچئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کتنی محبت و عظمت ان کے قلوب میں ہے ؟
تیسرے: اسلام کی تمام تعلیمات کی اساس رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اُسوہ ہے اورشریعت کے تمام احکام کا مدار آپ کی ذات والا صفات ہے ، ہم خدا کو ایک مانتے ہیں ، وحی ورسالت کے نظام پر یقین رکھتے ہیں ، آخرت پر ہمارا ایمان ہے ، کچھ چیزوں کو فرائض وواجبات اور کچھ چیزوں کو حرام و مکروہ تصور کرتے ہیں ، کچھ احکام حلال اور مباحات کے قبیل سے ہیں ، ان تمام اعتقادی و عملی احکام کی بنیاد کتاب اﷲ اور سنت رسول ہے ، کتاب اﷲ سے مراد وہ کتاب الٰہی ہے جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور سنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور معمولات سے عبارت ہے ، غرض دین کے یہ دونوں ہی مصادر آپ ہی کی ذات سے متعلق ہیں ؛ اس لئے دین حق کے دشمنوں نے ہمیشہ آپ کی ذات کو ہدف بنانے کی کوشش کی ہے ، صلیبی جنگوں میں شکست و ہزیمت کے بعد جب اہل مغرب اس بات سے مایوس ہوگئے کہ وہ جنگ کے میدان میں عالم اسلام کو زیر کرسکیں گے ، تو انھوں نے علم و قلم کے ہتھیار سے اسلام پر حملہ کرنا شروع کیا اور یوں تو انھو ںنے قرآن و سنت کے استناد و اعتبار سے لے کر احکام شریعت کی معقولیت اور اسلامی تاریخ تک ہر شعبۂ دین کو اپنے حملہ کا نشانہ بنایا ؛ لیکن پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ان کی یلغار کا خاص ہدف رہی ہے ؛ کیوںکہ آپ ہی کی ذات پر دین کی بنیاد ہے ، اگر آپ کی شخصیت کو مجروح و مشکوک کردیا جائے ، تو دین کی پوری بنیاد ہی منہدم ہو جائے گی؛ چنانچہ مستشرقین نے اس موضوع پر اتنا کچھ لکھا ہے کہ اس کی فہرست بندی کے لئے بھی مستقل کتاب درکار ہے ۔
یہ سب کچھ زیادہ تر انگریزی اور دوسری یورپین زبانوں میں ہوا ہے اور بدقسمتی سے اس وقت یہی زبانیں علم و تحقیق اور ایجادات و اختراعات کی نمائندہ ہیں ، اس لئے اس دور میں نہ صرف غیر مسلم بلکہ جدید تعلیم یافتہ مسلمان بھی ان زبانوں کو سکہ رائج الوقت کی طرح اختیار کرنے پر مجبور ہیں ، اور وہ نہ صرف اپنے فن کی کتابیں بلکہ مذہب اور تاریخ بھی ان ہی زبانوں کے واسطہ سے پڑھتے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو سیرت کی مستند کتابیں پڑھنے ، یا اہل علم سے استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملا ہے ، ان کے دلوں میں بھی شکوک و شبہات کے کانٹے چبھنے لگتے ہیں اور وہ بھی مغرب کے ’’دام ہم رنگ زمین ‘‘کے اسیر ہوئے جاتے ہیں ، حالاںکہ اولاً تو مستشرقین کی تحریریں اسلام کے بارے میں تعصب اور تنگ نظری سے خالی نہیں ہوتیں ، دوسرے مستشرق مصنفین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے ، جو عربی زبان سے براہ راست واقف نہیں تھی، جن کی معلومات واسطہ در واسطہ ہیں اور وہ لکیر کے فقیر کی طرح ایسی باتوں کو دہرائے جاتے ہیں ، جن کی نامعقولیت بار بار واضح کی جاچکی ہے ۔
غرض کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت و ابتاع کے لئے ، ایمان کی حفاظت کے لئے، مطلوبہ محبت و احترام سے اپنے دل و دماغ کو معمور رکھنے کی غرض سے ا ور اعداء اسلام کی فتنہ سامانیوں اور قلمی شر انگیزیوں سے بچنے کے لئے سیرت نبوی کا مطالعہ وقت کی نہایت ہی اہم ضرور ت ہے ، جسے کسی صورت نظر اندا ز نہیں کیا جاسکتا؛ اس لئے مسلمان نوجوانوں کو خاص کر سیرت کی کتابیں پڑھنی چاہئے اور مسلم انتظامیہ کے تحت قائم تعلیم گاہوں کے ذمہ داروں کو اس کا اہتمام کرنا چاہئے کہ وہ سیرت کی کوئی مناسب کتاب ضرور اپنے بچوں کو پڑھائیں ۔
یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ سیرت کا مطالعہ کس طرح کیا جائے ؟ —- رسول اﷲ صلی اﷲ کی سیرت کے دو حصے ہیں ، ایک حصہ تو آپ کے فضائل و مناقب کا ہے ، یہ تو بے شمار ہیں ، اور بقول شاعر : ’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ! ‘‘ یعنی حاصل یہ ہے کہ خدا کے بعد آپ کی ذات سب سے بزرگ و برتر ذات ہے ، عام طورپر ہمارے یہاں سیرت کے جلسے اسی موضوع کے لئے مخصوص ہوگئے ہیں ، مجھے اس کی اہمیت سے انکار نہیں؛ لیکن مطالعہ سیرت کے لئے صرف اسی ایک پہلو کو کافی سمجھنا صحیح نہیں ہے، سیرت کے مطالعہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کی سیرت کو اپنی عملی زندگی کے لئے آئینہ بنایا جائے اور اس کو سامنے رکھ کر انسان اپنی اصلاح کرے اور اپنے اعمال و اخلاق کو سنوارے ۔
عبادات اور شرعی احکام کے معاملہ میں توہم سنت نبوی کی طرف رجوع کرتے ہی ہیں؛ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اجتماعی زندگی ، سیاسی حکمت عملی اور دوسری اقوام کے ساتھ سلوک و تعلق کے معاملہ میں بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طرز عمل کو ہم اپنے سامنے رکھیں ، ہم دیکھیں کہ کہاں مسلمانوں کے حالات مکی زندگی کے سے ہیں ، اور وہاں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے ؟ کہاں ہمارے حالات مدنی زندگی اور صلح حدیبیہ سے پہلے کے سے ہیں ؟ اوروہاں ہمارے لئے اسوہ ٔ نبوی کیا ہے ؟ کس مرحلہ پر ہمیں صلح حدیبیہ کی ضرورت ہے ؟ اورکہاں جرأت فرزانہ درکار ہے ؟
افسوس ہے کہ ہم نے بھی اپنی قومی زندگی اور ملی مسائل میں ان لوگوں کی طرح جو خدا ورسول اور دین و شریعت پر ایمان نہیں رکھتے ، صرف مادی نفع و نقصان کے اعتبار سے غور کرنا اورمنصوبے بنانا شروع کردیا ہے ، حالاںکہ بحیثیت مسلمان ہمیں ہر موڑ پر اسوہ ٔ حسنہ کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اس موقع پر ہمارے لئے کیا رہنمائی ملتی ہے ؟ اس میں ہماری دنیا کی کامیابی بھی ہے اور آخرت کی فلاح بھی ۔
Comments are closed.