Baseerat Online News Portal

شام فرقت از: طالبات دورۂ حدیث شریف (جامعہ اسلامیہ فیضان القرآن کٹھیلا).

بنا دستک ، بنا آہٹ کسک بن کر بیٹھی ہو

 

اداسی کچھ تو بولو نا! بھلا کیوں آج دل میں

بنا دستک ، بنا آہٹ کسک بن کر بیٹھی ہو

آج زندگی کی پگڈنڈیوں پر کھڑی ماضی کے دریچے سے خانۂ ویراں میں جھانک کر اس دشت بے کراں سے بوئے وفا کشید کرنے کی سعئ لا حاصل کر رہی ہوں جسے گردش گیتی کے منھ زور تھپیڑوں نے طومار میں لپیٹ کر طاق نسیاں پر رکھ چھوڑا ہےگرچہ طبیعت دراز نفسی کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے تاہم طبع نارسا کا کیا کروں جو یاد رفتگاں کی پرتیں ہٹا ہٹا کر زخم خنداں پر نمک افشاں ہے؛ جس دل جلے نے یاد ماضی کو عذاب کا استعارہ بتا کر سرمہ در گلو کیا یقینا ان پر بھی شام فرقت کا یہ پہر گزرا ہوگا اور زندگی کی ہماہمی کے تقاضے اس طبع وحشت سرشت کے ساتھ نبھائے نہیں گئے ہوں گے؛ کشاکش روزگار نے کبھی مرزا غالب کے ہاں بھی دستک دی ہوگی تبھی تو رنج گراں نشیں کی شکایتیں کی تھی اور صبر گریز پا کی حکایتیں لکھی تھی۔

کبھی شکایت رنج گراں نشیں کیجیے

کبھی حکایت صبر گریز پا کہیے

کتاب ماضی کے اوراق گم گشتہ سے دریافت احوال مافات اور نہاں خانۂ خیال میں پنہاں یادوں کی برات لیے آج سرپٹ اسی ڈگر پر سرگرداں اپنے صفحات فکر پریشاں کا ایک صفحہ آپ کے سامنے کھولنے جارہی ہوں جس میں آپ ایک طرف بچپن کی شوخیاں سرمستیاں سرشاریاں اٹکھیلیاں چالاکیاں بےباکیاں گستاخیاں عشرت کامیاں رندان لاابالی کی لغزیدہ پائیاں اور شرارتیں چلبلاہٹ اتراہٹ اور ناز و ادا دیکھیں گے وہیں دوسری طرف افسانۂ دور ستم گراں ترانۂ لذت خواب سحر، صبح تمنا میں امیدوں کے سنگریزے اور شام نامرادی میں باد صرصر کے جھونکے، نگاہ خانماں برباد کی حشر سامانیاں آشیانۂ امید کی مسکراہٹ؛ عیش و طرب کی بزم اور طبع خلوت پرست کی جولانیوں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ پائیں گے۔

گہے خندم گہے گریم گہے افتم گہے خیزم

دل و دماغ کے اسکرین پر آج بھی باد صبح گاہی کے وہ جھونکے مرتسم ہیں جب سپیدۂ سحر نمودار ہورہا تھا غنچوں کی نازک پتیوں پر شبنم کے موتی ڈھلک رہے تھے سرو و شمشاد پھولوں کی مہک پر انگڑائیاں لے رہے تھے طائران خوش نوا کی چہکاریوں سے فضا نغمہ زار ہورہی تھی رین بسیرے پرندے صبح منھ اندھیرے تلاش رزق حلال میں پرواز کناں تھے اور ادھر اطاق خانہ میں ایک عجیب سی ہلچل اور افراتفری پھیلی تھی ہر کوئی سرگشتہ اور سراپا محو خیال تھا بالآخر نگاہ فسوں کار ہماری ہی سرمستیوں پر بلائے مہیب بن کر نمودار ہوئی اور آب و باد و خاک کے حسیں جہاں کو یک لخت تاراج کر دیا گیا اپنے گھروندے میں مست و مگن اور اسی میں خوابوں کی دنیا بسانے والی بلبل ہزار داستان اب کشاں کشاں دیار غیر میں ایک ناآشنائے شورش کے اضطرابی انگاروں کے حوالہ کر دی گئی تھی۔

روئے بغیر چارہ ، نہ رونے کی تاب ہے

کیا چیز اف یہ کیفیت اضطراب ہے

بہ ظاہر اس ناگہانی انقلاب حال سے ہونٹ ضبط گریہ سے تھرانے لگے اور روئیں روئیں سے سرد شعائیں نکلنے لگیں؛ مرور ایام نے صبر و شکیبائی کا سراغ لگایا اور دل بستگی کا سامان مہیا کیا اور ہم دامن ناز تھامنے کیلیے اپنا گریبان وحشت چاک کرتے رہے رفتہ رفتہ ہم اس کے عادی ہوگئے در و دیوار سے مانوسیت ہونے لگی یہاں کے چھاؤں کی ٹھنڈک مشام جاں کو معطر کرنے لگی اس کی آغوش شفقت میں غنچہ دل کو ذوق تبسم نصیب ہونے لگا نسیم سحر کی اٹکھیلیوں کے اسیر ہوگئے اس کے ماتھے پر مسکراتی صبحیں ہر روز تہنیت و تبریک کی زمزمہ سرائی کرتی رہی اور یوں پہلوئے دل میں مقصد کی خلش لیے عالم تصور کی جولانیوں میں جامہ ہستی کی آرائش کےلیے بادیہ پیمائی کرتی رہی۔

"جامعہ اسلامیہ فیضان القرآن” (کٹھیلا) اپنی گوناگوں خصوصیات اور بحالئ تعلیمی معیار اور دو دہائیوں سے زائد پہ محیط اپنی بے پایاں خدمات اور اب تک ہزاروں تشنگان علوم نبوت کو اپنے سرچشمۂ فیض سے سیراب کرنے والا اور سرزمین مدھوبنی کا جھومر سمجھا جانے والا ایک مثالی ادارہ ہے جس نے جہالت کدہ میں باد مخالف کی پروا کیے بغیر علم و آگہی کی کافوری قندیلیں روشن کیا اور اس خرابۂ بےرنگ و بو کو اپنی گل شگفتگیوں سے رنگین کر دیا؛ یہ ہمارے لیے باعث عز و شرف اور سرمایۂ فخر و مباہات ہے کہ ہمارا شمارہ اس درسگاہ علم و ادب کی خوشہ چینیوں میں ہونے کو ہے جس کے درودیوار کی خوشبوؤں سے دل و جان کو عرصہ دراز تک معطر کرتے آرہے ہیں. اس چہار دیواری میں جتنے لمحات وقت، وقت ایام، ایام ہفتے؛ ہفتے مہینے اور مہینے سالہا سال کا روپ دھار کر وسیلۃ الظفر بنا وہ ہم جیسے دیدۂ کج اندیش اور خالی دامن طالبات علوم دینیہ کےلیے گنجہائے گراں مایہ سے کم نہیں؛ اور جس طرح اس کے جلو میں روح بےتاب کو نخیل علم سے آبیاری، تازہ اور شاداب رطب سے فیضیابی اور حلاوت ایمان سے لذت یابی کا سامان فراہم کیا گیا؛ اور دل مضطر کو سامان بہجت و انبساط، منغض طبیعتوں کو آب زلال، گمشدہ سفینوں کو ساحل ناپیدا کنار، ڈوبی نبضوں کو لحظۂ تروتازگی، ناخوشی کی کلفتوں کو مسودۂ نسیم سحر گاہی اور دل آشوب کی کاہشوں کو مخطوطۂ ارتکاز و مرکزیت نصیب ہوا اسے جملوں میں بیاں نہیں کیا جاسکتا۔

کیا نسبت اس کی قامت دلکش سے سرو کو

خیالات شاخ در شاخ ہوتے جارہے ہیں غور و فکر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے احساس جدائی تھپکیاں دے رہا ہے اور غم فرقت لوریاں سنا رہی ہے، وقت رخصت آن چکا ہے اور کوچ کے نقارے بجائے جا چکے ہیں شدت جدائی روزگار مسلسل بن کر تھکا رہی ہے نقش پا کی شوخیاں لد جانے کو ہے طبیعت میں مقاومت کا جذبہ نہیں، تحیر و توحش کی وادئ پرپیچ اور تردد و تذبذب کی اینٹھ بار خاطر ہے؛ عرض و نیاز کے پیہم سلسلے، دل فریب صبحیں، سہانی شامیں، چاندنی راتوں کے خمیر، معاصرانہ چشمک، حلقۂ یاراں، درد مشترک اور آتش کدۂ خیالات سب روٹھ جانے کو ہے۔

کتنا مشکل ہوا آج جینا مرا

اجنبی بن کے دیوار و در رہ گئے

درودیوار سے انسان کا رشتہ کس قدر گنجلک اور مبہم ہے؛ سمجھ نہیں آتی کہ اینٹیں اور گارے یادوں سے جڑتے ہیں یا وہاں بسنے والے لوگوں سے وابستہ یادوں کی وجہ سے درودیوار اپنی طرف کھینچتے ہیں؟ احاطۂ جامعہ سے بوقت رخصت یہی کیفیت دل مضطر کا ہو رہا ہے۔

یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں

کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

اس احاطہ کے گوشے گوشے سے محبت و عقیدت ہے اور یہاں کے ذرے ذرے سے ایسا ذہنی اور قلبی سکون پایا ہے کہ دنیا و مافیہا کی تمام تر آرائش و آسائش اور لذائذ بھول بیٹھے ہیں، یہاں کے در و دیوار آب و ہوا اور فضاؤں میں قدرت نے ایک عجیب سی مسحور کن خوشبو اور دل آویز کشش ودیعت کر رکھی ہے، اس چہار دیواری کی عظمت و اہمیت سال بھر کی تعلیمی سرگرمیاں دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں دل لگیاں تکرار و مذاکرہ اور مطالعہ اور زمانۂ امتحان میں شب زندہ داریاں یہ سب کے سب اب قصۂ ماضی ہونے کو ہے۔

خرد ڈھونڈتی رہ گئی وجہ غم

مزا غم کا درد آشنا لے گیا

وقت رخصت ہے اس بیچ احباب کا تذکرہ ناگزیر ہے اور انہیں تہنیت نامہ نہ پیش کیا جائے تو لکھنے کا مقصد فوت ہو جائے گی اور مرتکب ناسپاسی کا احساس بھی جینے نہ دے گی اس لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہم اپنی تمام ہم جولیوں ہم نشینوں ہم خیالوں اور ہم رکاب و ہم بزم ساتھیوں کو ہر گام ساتھ رہنے اور ساتھ نبھانے ، معاون و مددگار بننے ، خوشی و غمی میں شریک ہونے اور ہر آن دوش بدوش رہنے پر بہ صمیم قلب ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں اور صرف اتنا کہتے ہیں کہ ” تمہاری محبت اور رفاقت حد بیاں سے ماوریٰ ہے ”

تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے

تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا

سچ تو یہ ہے کہ تم بن نشاط صبح کی دل فریبیاں ڈسنے کو دوڑ رہی ہیں ، نقش پا کی شوخیاں بےرنگ ہو رہی ہیں ، تختہ ہائے گل و گلاب کا لطف ماند پڑنے لگا ہے ، بادلوں کی سرمئی چادریں بےبسی و بےکسی پر ماتم کناں ہیں ، لالہ و گل میں نگاہ ‌غیر سہنے کی بوتا نہیں ہے ، مسکراہٹیں یہیں کہیں شاخوں میں جذب ہو چکی ہے ، قہقہے سرو و شمشاد کی قدآوری پر طعن کر رہے ہیں ، جس طرح پہلو سے دل اجڑ جائے تو کسک رہ جاتی ہے اسی طرح حلقۂ یاراں کے اجڑنے سے نالۂ دل حسرتوں کی چنگاریاں چھوڑ گئے ہیں اور دلوں میں ہموم و غموم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں چہرے پر بےحروف نوحے کندہ ہیں اور اسےآفت ناگہانی اور نہایت خوشگوار طبیعت کے رخ کے امتزاجی کیفیت یعنی ” نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ” سمجھ کر اور نہ چاہتے ہوئے بھی خود ایک دوسرے کو رخصت کرنے کے واسطے قدم رنجہ فرما ہونا پڑ رہا ہے ۔

وقت رخصت تری آنکھوں کا وہ جھک سا جانا

اک مسافر کے لیے زاد سفر ہے اے دوست

یہ رفاقت سال چند سالوں کا ہی سہی ؛ لیکن طلاطم خیز طوفان کے مانند دلوں میں یادوں کا ایک سمندر چھوڑے جارہی ہے۔

آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا

جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا

مزید کیا ‌لکھوں آنکھیں نم ہیں ، دل فسردہ ہے ، چہرے فق پڑے ہیں اور طیب خاطر کا سامان مہیا نہیں ہو پارہا ہے؛ دعا گو ہوں کہ جہاں بھی رہو خوش رہو سلامت رہو شاد و آباد رہو ہنستی مسکراتی رہو! رب کریم نصیب اچھا کرے، تمام تر جائز خواہشات پوری فرمائے جہاں بھر کی کامیابیاں کامرانیاں مقدر کرے دونوں جہاں میں سرخرو کرے اور کاروان علم و ادب میں ہمیشہ شامل رکھے! (آمین).

 

2023ء

1444ھ

Comments are closed.