دارالعلوم ٹیڑھاگاچھ،پرانی صبح کی نئی کرن                                           ?ظفر امام

4/مارچ 2023؁ء ہفتہ کی صبح ایک جانے پہچانے نمبر سے میرے پاس فون آیا،یہ نمبر میرے خالہ زاد بھائی عزیزی حافظ ارسلان سلمہ کا تھا،میں نے کال کرنے کی غرض دریافت کی تو وہ جواب میں گویا ہوا کہ”پیر کو آپ خالی ہیں؟“ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ” ہم لوگوں نے پیر کو طلبہ کا سالانہ امتحان رکھا ہے،اور بطور ممتحن ہمارے حضرت ناظم صاحب کی نظرِ انتخاب آپ پر جاکرٹھہر گئی ہے،کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں؟“ میں نے کہا ”ٹھیک ہے اگر جانے کی کوئی سبیل نکل آئی تو میں ضرور جاؤں گا بلکہ میں اس کو اپنے لئے خوش بختی اور اقبال مندی سمجھوں گا“پھر اتوار کو ہمارے مدرسے میں سالانہ چھٹی ہوگئی اور میں پیر کی صبح عزیزی ارسلان سلمہ اور اس کے ناظم صاحب رفیقِ گرامی جناب قاری منتظر صاحب کی پرخلوص دعوت پر دارالعلوم ٹیڑھاگاچھ جاپہونچا۔
میرے پہونچنے میں ذرا تاخیر ہوگئی اور جب میں وہاں پہونچا تو اس وقت گھڑی نویں گھنٹے کا راگ الاپ رہی تھی،سو ناظم صاحب نے مجھ سے فرمایا”کیا خیال ہے اب ناشتے سے فراغت کے بعد ہی امتحان کی کارروائی شروع کی جائے؟“ میں نے کہا ” جیسی آپ کی مرضی “پھر ناظم صاحب نے پُرتکلف ناشتے سے میری ضیافتِ شکم کی اور اس کے بعد میں امتحان گاہ میں اپنے دل میں اس خیال کو باندھے داخل ہوا کہ”بطور نشأة ثانیہ محض چند مہینوں پہلے شروع ہونے والے ادارے میں بھلا تعلیم ہی کتنی مضبوط ہوگی؟“بس جا رہا ہوں اور ایک سرسری جائزہ لینے کے بعد چند ہی لمحوں میں الٹے پاؤں نکل آؤں گا۔
مگر جب امتحان ہال میں داخل ہوا اور یکے بعد دیگرے طلبہ کو اپنے سامنے بلا کر اُن سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا تو یقین مانئے کہ میرے خیالات محض ساحلِ دریا بنے ریت گھروندے ثابت ہوئے، جو دیکھتے ہی دیکھتے اُن کےجوابات کی موجوں میں بہہ کرتحلیل ہوگئے، اس سے پہلے بھی اس خاکسار کا کئی مدرسوں میں امتحان لینے کی غرض سے جانا ہوا تھا اور تقریبا ہر جگہ کی کارکردگی سے دل مسرتوں سے جھوم اٹھا تھا اور میں ہر جگہ کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے بنا نہیں رہ پایا تھا،مگر دارالعلوم ٹیڑھاگاچھ نے ایک الگ ہی چھاپ میرے دل پر چھوڑا،ایک منفرد شناخت میرے دماغ پر نقش کیا،یہاں کے نونہالوں کی خود اعتمادی،زیرکی،بیدار مغزی، حاضرجوابی اور زبان کی برجستگی نے دل کی تھاپ پر جی بھر کر شادیانے بجائے اور روح کی  بنجر زمین موسمِ بہار کی خوشنما کونپلوں سے لہلہا اٹھی۔
آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر بطور نشاة ثانیہ محض چند مہینے پہلے بے سروسامانی کے عالم میں شروع ہونے والے اس ادارے نے تعلیم میں جو کمال اور اوج حاصل کیا ہے وہ بہت ہی قابلِ رشک،لائق ستائش اور واجب مبارکباد ہے،ساتھ میں دوسروں کے لئے سبق آموز اور نصیحت انگیز بھی،ادارہ میں گرچہ تعلیمی نصاب کم ہے،مگر جتنا بھی ہے وہ نہایت شستہ اور شائستہ ہے،ابھی فقط حفظ اور ناظرہ تک کی ہی تعلیم ہے جس کے تقاضے پر ادارہ مکمل طریقے پر کھڑا اتر رہا ہے،مجھے ایسا احساس ہوا کہ ٹھوس ادائیگی،قواعد کی پختگی اور اجرائے قواعد کی مضبوطی پر ادارہ خوب سے خوب اپنی توجہات مرکوز کر رہا ہے اور حسنِ تجوید اور جودتِ مخارج کے سانچوں میں طلبہ کو کافی عرق ریزی اور جاں گسلی کے ساتھ ڈھالنے کی ایک کامیاب کوشش کی جا رہی ہے۔
درجۂ حفظ کے پانچ بچوں کا امتحان لیکر مجھے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ میں ایک بےیار و مددگار ادارے کی مسندِ امتحان پر بیٹھا ہوا ہوں، ایک ایسا ادارہ جو برسوں تک محرومِ عروج رہا،ایک لمبے زمانے تک جس کی شاخوں پر الو بولتے رہے،ایک طویل عرصے تک جو ہو حق کی صداؤں سے خالی رہا،نہ اس کا کوئی اپنا تھا نہ پرایا،سب ہی اس کے سایے سے یوں دامن سمیٹے چل رہے تھے جیسے یہ ادارہ نہ ہوکر کوئی خارزار درخت ہو،اگر کسی کو غرض تھی اس ادارے سے تو بس اتنی سی غرض تھی کہ ہماری سیاست کی روٹی اس کے توے پر پکتی رہے اور ہمیں اس سے خوب شکم سیری حاصل ہوتی رہے،اس کے علاوہ اور کوئی غرض نہ تھی۔
حفظ کے درجے میں کل پانچ طلبہ تھے،باری باری پانچوں طلبہ کا امتحان لیا گیا،مجموعی طور پر سب ہی نے بہتر سے بہتر جواب دئے اور میں ہر ایک کے جواب سے خوب محظوظ ہوا،مگر ان میں سے ایک چھوٹے سے بچے نے جس شاندار انداز اور پرکشش لب لہجے میں قرآنِ کریم کی آیتوں کو پڑھ کر سنایا اس سے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی صحرائی آبشار پتھروں سے ٹکڑا کر دلکش راگ چھیڑ رہا ہو، کوئی دریا جلترنگ بجاتا ہوا بہتا چلا جا رہا ہو،کوئی کوئل آم کی ڈالی پر بیٹھا نغمہ گا رہا ہو اور کوئی طنبورہ موسیقی کا سماں طاری کر رہا ہو۔
پھر جب ناظرہ کے بچوں نے آکر اپنی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا تو قسم بخدا میری آنکھوں کی سطح پر آنسوؤں کے نَمی  رقص کرنے لگی،آنسوؤں کی یہ نمی خوشی کی نمی تھی کہ ہمارے علاقے میں بھی اس انداز کی تعلیم شروع ہوگئی ہے جس سے پورا علاقہ ازل سے خالی تھا،مترنم آواز،دلکش لہجہ،نغمگیں سُر اور وجد آفریں تان مجھے تخیلات و تصورات کی ان وادیوں میں لے گئی جن کا ہر افق مسرتوں سے لبریز اور قوس و قزح کی رنگینیوں سے آراستہ تھا،ان کی سب سے تعجب انگیز خوبی مجھے یہ لگی کہ جب میں کوئی سا بھی قاعدہ ان کو پوچھنے لگتا تو ابھی میری جنبشِ لب ساکت بھی نہ ہونے پاتی کہ اُدھر سے جواب حاضر ہوجاتا،یہی حال تقریبا ہر بچے کا رہا۔
دارالعلوم ٹیڑھاگاچھ کی بنیاد 90 کی دہائی میں آج سے تقریبا تیس سال پہلے اساطینِ قوم اور عمائدینِ ملت کے ہاتھوں سے رکھی گئی،پھر جب تک اس کی زمامِ نظامت حضرت اقدس مفتی رفیق عالم صاحب مفتاحی بیساٹولی کے ہاتھوں میں رہی تب تک یہ ادارہ خوب پھلتا اور پھولتا رہا،ایک زمانے میں اس کا خوب تعلیمی شہرہ تھا،کئی بار یہاں اجلاس دستاربندی بھی منعقد ہوا اور درجنوں حفاظ اس کی آغوش میں پرورش پاکر اپنے سروں پر قرآنی سہرا سجا کر نکلے،پھر کچھ عرصے کے بعد جیسے اس کے عروج کو کسی کی نظر لگ گئی،یہ نظر اتنی کاری تھی کہ یکلخت وہ عروج مائل بہ زوال ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ادارے کا سب کچھ ختم ہوگیا،اس کا پُررونق ماحول یوں بجھ گیا جیسے اس کی وادی سے کبھی کسی شمع کی گزر ہی نہ ہوئی ہو،حضرت مفتی صاحب پر طعن و تشنیع کے تیر برسائے گئے،آپ کی باوقار ذات کو خوب مجروح کیا گیا،سربازار آپ کی دستارِ عزت خاک آلود کی گئی،آپ پر الزامات و اتہمامات کی اتنی بارش کی گئی کہ آپ دل برداشتہ ہو کر ادارے کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوگئے،اپنی انا میں چور لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ قدرتی پاؤں چلنے سے معذور اس شخص نے اپنی بےکسی اور کس مپرسی کے باوجود ایک ادارے کو کس انداز میں چلنے بلکہ دوڑنے کا ڈھنگ سکھایا اور کس طرح سے اس کو اوجِ ثریا تک پہونچایا،مگر جب کھلے آنکھوں اس شخص کے خوابوں کی تعبیریں دیکھنے کا وقت آیا تو لوگوں نے پھر سےان کی آنکھوں کو موند دیا۔
میں یہ سب لکھ کر حضرت مفتی صاحب کے حق میں صفائی دینے کی کوشش نہیں کر رہا اور نہ ہی ان کی حمایت میں آسمان و زمین کے قلابے ملانے کی سعی کر رہا ہوں کہ نہ ان سے میری کوئی زیادہ راہ و رسم ہے اور نہ ہی میں ان کا کوئی قریبی یا بعیدی رشتہ دار ہوں،بس میں یہ سب لکھ کر سماج کی آنکھوں سے انا اور خودی کی پٹیوں کو کھولنے کی کوششِ ناکام کر رہا ہوں کہ اگر تھوڑی دیر کے لئے مان بھی لیا جائے کہ مفتی رفیق صاحب کی کوئی غلطی تھی بھی تو اس کی اصلاح کا یہ طریقہ بالکل بھی زیبا نہیں تھا کہ سرعام ان کی دستارِ عزت کو اس حد تک اچھالا جاتا کہ وہ کیچڑ میں جا کر لتھڑ جائے،بلکہ ادارے کے مفاد کو سامنے رکھ کر اور اپنی دنیوی اغراض سے بےپروا ہوکر اس طرح سے اس کا حل نکالنا چاہیے تھا کہ ادارے کے محو پرواز پروں پر کوئی خراش بھی نہ آتا اور مفتی صاحب کا معاملہ بھی نرمل ہوجاتا۔
مجھے یہ لکھنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ ایک چھوٹے سے قلمکار ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فریضہ بھی بنتا ہے کہ سماج کے سامنے ایک ایسا آئینہ پیش کروں جس میں سماج اپنے کردار اور اپنے چہروں کے عکس کو ہر زاویے سے دیکھے کہ آج ٹیڑھاگاچھ کا علاقہ اپنی تمام تر زرخیزیوں کے باوجود اتنا پس ماندہ بس صرف اس وجہ سے ہے کہ یہاں کے لوگوں نے اپنے مقامی علماء اور مذہبی پیشواؤں کو نہ کبھی اپنی آنکھوں پر بٹھایا اور نہ ہی ان کے تئیں کبھی اپنے دلوں میں عزت و وقعت کا کوئی مینار نصب کیا، بلکہ جہاں تک ہوا ان کی ہتکِ عزت سے بھی گریز نہ کیا،چاہے اپنے عمل ہی سے کیوں نہ ہو،میں چونکہ خود ٹیڑھاگاچھ کا پروردہ ہوں اور اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں،اس لئے دلِ مجبور سے یہ سب لکھنے پر مجبور ہوں۔
باوجودیکہ ٹیڑھاگاچھ کی زمین نہایت ہی زرخیز ہے،یہاں کے لوگ قدرتی طور پر کافی شریف النفس اور مہمان نواز واقع ہوئے ہیں، دوسرے علاقے یہاں کی داد و دہش سے خوب سیراب ہو رہے ہیں مگرٹیڑھاگاچھ کی زمین خود اپنے لئے اُوسر،بنجر اور بےکاشت بنی ہوئی ہے،اتنا بڑا،زرخیز،شاندار اور لہلہاتا علاقہ ہونے کے باوجود اس ترقی پذیر دور میں بھی یہ علاقہ آج سے پچاس ساٹھ سال پیچھے چل رہا ہے،وہی تاریکی جو پچھلے چالیس پچاس سال پہلے یہاں پھیلی ہوئی تھی وہی تاریکی آج بھی پسری ہوئی ہے،نہ یہاں کوئی ایسا ڈھنگ کا ادارہ ہے کہ بجا طور پر اہلِ علاقہ کو اس پر ناز ہو اور نہ ہی یہاں کوئی ایسی تنظیم ہے کہ جس کے چشمۂ فیض سے یہاں کے غرباء و فقراء سیراب ہوسکیں، یہاں کا ہر گوشہ ترقی سے خالی اور ہر شعبہ عروج سے محروم و حرماں نصیب ہے۔
بہرحال مفتی رفیق صاحب کے نکلنے کے بعد دارالعلوم ٹیڑھاگاچھ کے صحن میں یکلخت جو اندھیرا پھیلا تو پھر وہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا،اس بیچ یہاں بےشمار انقلابات و تغیرات رونما ہوئے،بہت سے طالع آزما اس کی زلفِ پریشاں کو سنوارنے کی غرض سے آگے آئے مگر سب کے حوصلے یہاں کی ہنگامہ آرائیوں اور سیاسی گلیاروں میں گم ہوگئے،خود اس ناچیز کو بھی یہاں مدعو کیا گیا مگر اپنی کم ہمتی،بزدلی اور مدرسے کا ویران زدہ اور خوفناک ماحول دیکھ کر ایک ہفتہ سے زیادہ ٹک نہ سکا اور ایک شام جو گھر آیا تو پھر اُدھر لوٹنے کی صبح آج تک طلوع ہی نہ ہوئی۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس کی تاریکی کے پھیلنے کا عمل بڑی تیزگامی کے ساتھ جاری تھا کہ کچھ ہوش مندوں کی بےپناہ تگ و دو اور بےلوث جانفشانیوں کے بعد بقیة السلف حضرت مولانا انوار عالم صاحب مدظلہ العالی ناظم عمومی دارالعلوم بہادرگنج کی زیرسرپرستی ادارہ کے پرانے معاملات اور حساب و کتاب کو بالکل کالعدم قرار دے کر از سر نو باضابطہ طور پر ادارہ کے نظام کو مرتب کیا گیا ہے جس کو چلانے کے لئے بطور ناظم جناب قاری منتظر عالم صاحب مشاہرہ کو منتخب کیا گیا ہے،جب سے قاری صاحب کے ہاتھوں زمام نظامت آئی ہے تب ہی سے ادارہ میں باغ و بہار کا وہی پُرکیف اور پُرجمال منظر عود کر آیا ہے جو آج سے برسوں پہلے یہاں ہوا کرتا تھا،ادارہ کے در و دیوار پر وہی رونق،وہی چہل پہل اور وہی خوشحالی پھر سےنظر آنے لگی ہے،آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دارالعلوم ٹیڑھاگاچھ کا حالیہ منظر ایک پرانی صبح کی نئی کرن ہے جو ٹیڑھاگاچھ کے افق پر بڑی تب و تاب کے ساتھ نمودار ہوئی ہے،اس لئے خدارا اس ننھی سی کرن کو ضوفشاں بنائیے،کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی سردمہریاں یونہی برقرار رہیں اور ادھر وہ کرن صبح کے ستارے کی طرح بےنور ہوجائے کہ صبح کا ستارہ بہت مختصر وقت کے لئے افق سماء پر جلوہ گر ہوتا ہے اور بہت جلد اس کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔
دارالعلوم ٹیڑھاگاچھ کی اس رونق کا سہرا جناب قاری منتظر عالم صاحب کے سر سجتا ہے کہ انہی کی شبانہ روز کی محنتوں کی یہ رونق رہین احسان ہے،ادارے میں ٣٥/ طلبہ زیر تعلیم ہیں،جناب قاری صاحب ان سب کو خود سے پڑھاتے،طوطے کی طرح رٹواتے ہیں اور پھر پوری تندہی کے ساتھ مدرسہ کے جملہ امور کو سر انجام بھی دیتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ دارالعلوم ٹیڑھا گاچھ،ٹیڑھاگاچھ والوں کی آبرو،عزت، فخر،ناز اور غرور ہے،یہ ادارہ ٹیڑھاگاچھ کا دل ہے،یہ دل اسی وقت اپنا کام کرےگا جب آپ اپنی توجہات کی برسات اس دل پر نچھاور کریں گے،اس ادارے کو پروان چڑھانا اور اس کو اوج کمال تک پہونچانا ٹیڑھاگاچھ کے ایک ایک فرد کی عظیم ذمہ داری ہے،اگر ٹیڑھاگاچھ والوں نے اس ادارے کے لئے کچھ بھی نہ کیا تو پھر ٹیڑھاگاچھ کا نام فسانہ بن کر رہ جائےگا،حقیقت کے اوراق میں اس کا تذکرہ تک نہ ہوگا۔
کوئی بھی ادارہ خلقی اور طبعی طور پر بڑا بن کر وجود میں نہیں آتا،بلکہ لوگوں کی توجہات و عنایات اس کو بڑا بناتی اور اس کے پایے کو رفعت و بلندی عطا کرتی ہیں،الحمدللہ جناب قاری منتظر صاحب کے اندر خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے،ان کی فکر ادارہ کی ترقی اور سربلندی کے لئے ہمیشہ محو فکر رہتی ہے،اب ان کو بس ضرورت ہے آپ کی توجہات،نوازشات اور عنایات کی،اگر آپ کی توجہات کا عکس ان پر نچھاور ہوتا رہا تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ چند سالوں میں یہ ادارہ مرکزی اور معیاری ادارہ بن جائےگا،ایک ایسی مرکزیت اور مرجعیت اس کی خاک میں گندھ جائےگی کہ دور دراز کے طلبہ اس کی طرف حصول تعلیم کی غرض سے اپنا رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
الغرض دارالعلوم ٹیڑھاگاچھ کے بچوں کا امتحان لیکر میں اس معنی کر بےپناہ مسرور ہوا کہ ہمارے بنجر علاقے کو بھی کوئی شخص لائقِ  کاشت بنانے کی کوششوں میں لگا ہے،پھر جب میں وہاں سے نکلا تو کافی وقت میرے میرے دماغ پر سرور و خمار کی وہی کیفیت طاری رہی اور میرے لبوں پر علامہ اقبالؒ کا یہ شعر آکر مچلتا رہا کہ

؎ نہیں ہے نا امید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نَم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ظفر امام کھجورباڑی
دارالعلوم بہادرگنج
12/مارچ 2023؁ء

Comments are closed.