Baseerat Online News Portal

مولانا محمد یوسف قاضی کی وفات ملت اسلامیہ کا ناقابل تلافی نقصان : قاری ممتاز جامعی

 

جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور کے سرپرست اعلیٰ مولانا محمد یوسف قاضی صاحب، خوبصاحب مسجد سیدپورہ سورت گجرات کے انتقال پر ملال پر تعزیتی بیان

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سمستی پور (پریس ریلیز)
ابتدائے آفرینش ہی سے یہ چلا آرہاہے کہ اس جہان فانی سے کوچ کر کے عالم بقا کی طرف ہر شخص کو جانا ہے خواہ کتنے ہی مضبوط قلعے میں کیوں نہ ہوں، اسی آیت کی یاد دلاتے ہوئے ملک الموت نے خادم القرآن والحدیث، مظاہر علوم سہارنپور کی شوریٰ کے رکن، کئی مدارس کے سرپرست، کتنے ہی مکاتب و مساجد کے نگراں اور سینکڑوں حفاظ وعلماء ومفتیان کے ہر دلعزیز استاذ حضرت مولانا محمد یوسف قاضی صاحب، سابق امام و خطیب خوبصاحب مسجد سیدپورہ سورت و خلیفہ و مجاز حضرت مولانا مفتی محمد مظفر حسین صاحب سہارنپوری کو انکے مالک حقیقی سے ملا دیا۔(إنا لله وإنا إليه راجعون)
حضرت والا کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے کیونکہ جو دین اسلام کا پیغام دنیا میں عام کرتا ہے، اللہ ایسے کارکن کی محبت لوگوں کے دلوں میں عام کر دیتا ہے، حضرت والا جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور کے محرک اول ہیں کہ جن کی وجہ سے جامعہ ہذا وجود پذیر ہوا اور ہر ممکن تعاون سے اراکین جامعہ کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔
اس ناگہانی موقع پر حضرت مولانا ابو قمر صاحب قاسمی، صدر الامداد ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ نے فرمایا کہ حضرت والا مختلف جہات کے مالک تھے، علوم و معارف کے شہسوار اور رجال ساز تھے جو آج لاکھوں محبین اور معتقدین کو سوگوار چھوڑ کر دارفانی کو الوداع کہتے ہوئے جوار رحمت خداوندی میں ہمیشہ کیلئے منتقل ہوگئے ⁦⁦⁦;)⁩تغمدہ اللہ برحمتہ واسکنہ فسیح جناتہ ⁦:-(⁩ہم الامداد ایجوکیشنل کے تمام ممبران بشمول صدر و سکریٹری اس سانحہ ارتحال پر نہایت رنج وغم محسوس کررہے ہیں ۔
جامعہ ہٰذا کے ناظم و بانی قاری ممتاز احمد صاحب جامعی جنرل سکریٹری الامداد ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ نے سابقہ زندگی کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ جب میں سورت میں حضرت والا کی نظامت میں پڑھا رہا تھا تو کچھ سال گزرنے کے بعد حضرت نے ہی مجھے اس بات کی فکر دلائی کہ میں اپنے علاقے کے لئے کچھ کروں ،لوگوں کو دینی تعلیم کی خوشبو سے سیراب کروں اور یہ ادارہ بھی ان ہی کی مرہون منت ہے، اسلئےحقیقی معنوں میں آج ہم یتیم ہو گئےہیں کیونکہ جامعہ ہذا جن کی دعائے نیم شبی کا نتیجہ ہے آج وہ ہمارے بیچ نہیں رہے، اور یہ بھی فرمایا کہ حضرت ؒ کو اللہ پاک نے خاص فہم وفراست عطا فرمایا تھا جس سے اپنے ارد گرد نظر رکھ کر دینی مزاج اسلامی شعار کو عام لوگوں کی زندگی میں اتارنے کی کوشش کرتے تھے اور لوگوں کے لئے اپنانا آسان ہوجاتا تھا اپنے شاگرد و ماتحت سے دینی دعوتی کام لینا، انکے مسائل کو سمجھ کر مشورہ دیکر کام کرانا اور عمدہ کارکردگی پر ہمت افزائ کرنے کا خاص ملکہ تھا، ساتھ ہی حضرت کی صلبی و روحانی اولاد سے تعزیت مسنونہ بھی پیش فرمایا۔
نائب ناظم جامعہ ماسٹر محمدامتیاز صاحب نے حضرت کی رحلت پرافسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ جب میرے بھائ قاری ممتاز احمد صاحب جامعی نے گاؤں میں مکتب شروع کی تو مجھے حیرت ہوئی اس بنجر پسماندہ علاقہ میں وسائل کہاں سے آئیں گے جو یہ اپنے دینی دعوتی کام کو استحکام دے پائیں گے، پھر معلوم ہوا کہ سورت شہر کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا یوسف قاضی صاحب ؒ نے علاقے میں کام کرنے کا حکم دیا ہے پھر حضرت والا کی سرپرستی میں قاری صاحب نے مختلف حالات وآزمائش سے نبرد آزما ہوکر جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور علاقے کی تعلیم و تربیت کے لئے قائم فرمایا اور ادھر چند ماہ سے میرے دل میں یہ اشتیاق پیدا ہو رہا تھا کہ حضرت کے خدمت میں حاضر ہو کر دعا حاصل کروں لیکن افسوس میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی، دعا ہے کہ رب کریم اپنا خاص قرب عطا فرمائے حضرت کے تمام سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے۔
جامعہ ہذا کے صدر مدرس مولانا محبوب عالم قاسمی نے فرمایا کہ حضرت علمی دنیا کے لئے ایک قندیل تھے جو پوری دنیا کو روشن کرنے میں مشغول تھے، بطور خاص سورت شہر ان کی خدمات سے معمور ہے، حضرت سے ایک ملاقات کا موقع ملا حضرت ناظم صاحب کی رفاقت میں ملا، اس وقت حضرت نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا کہ مجھے بھی ابتدائی مرحلہ میں مواقع ملے، خاندان والوں نے لندن و افریقہ میں رہ کر معاشی حالت بہتر بنانے کو کہا لیکن میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اشاعت دین کو ترجیح دی تو اللہ نے اتنا نوازا کہ لفظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔

جہاں تک حضرت کی رحلت کا سوال ہے تو وہ قابل رشک بھی ہےاور لائق رنج وغم بھی۔ قابل رشک تو اس لئے کہ اللہ کو جتنا کام حضرت سے لینا تھا لے لیا اور حضرت نے موت کی تیاری بھی کر لی تھی نیز حضرت کے پاس اولاد صالح بھی ہے جو دعائے مغفرت کریں گی،صدقۂ جاریہ کے طور پر کئی مدارس و مکاتب بھی ہیں، رہی بات رنج وغم کی تو بہت سے ادارے اپنے مشفق سرپرست سے محروم ہو گئے، کتنے ہی نو نہالوں کے سر سے سایۂ عاطفت اٹھ گیا، ایسے ہی بہت سارے روحانی اولاد ہیں جن کا تعلق حضرت سے تھا نیز صلبی اولاد بھی ہیں جو آج اپنے محبوب مربی سے محروم ہو گئے۔
اسلئے ہم اراکین جامعہ حضرت والا کی رحلت پر حضرت کی صلبی اولاد وروحانی اولاد اور تمام محبین و معتقدین و متوسلین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور حضرت کو اعلی علیین میں مقام کریم نصیب فرمائے. آمین

Comments are closed.