ایک مکتب ایسا بھی!

🖋️ از: شمس الدین سراجی قاسمی!
گذشتہ کل قاضی شہر مدھوبنی حضرت الاستاذ قاضی امداد اللہ صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے قصبہ بھوارہ جانا ہوا ، وہاں پہنچ کر ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے کو ملا، میں کیا دیکھتا ہوں کہ اسٹیج پر سولہ (١٦) ننھے منھے جان تشریف فرما ہیں، جو قدو قامت اور جسم و جثہ کے اعتبار سے انتہائی کمزور اور فضیلت و مرتبت کے اعتبار سے انتہائی اعلیٰ ہیں، ان کے جسم پر سفید لباس اور سر پر تاج رکھا ہوا تھا، دلوں میں قرآن اور ہونٹوں پہ مسکراہٹیں سجی ہوئی تھیں ، اور مسکراہٹیں ہو بھی کیوں نہ کہ ان خوش نصیبوں نے انتہائی قلیل مدت میں قرآن مجید کے حفظ کا سفر مکمل کر لیا تھا، کوئی آٹھ مہینے میں، تو کوئی دس ، بارہ مہینوں میں ، اور وہ بھی کم عمری میں: ان میں کوئی آٹھ سال کا تھا تو کوئی دس سال کا ۔
یہ عمر تو بچوں کے کھیلنے ، کودنے کی ہوتی ہے ، لیکن قابل مبارکباد باد ہیں "معہد الحبیب دکھنواری محلہ گواپوکھر بھوارہ مدھوبنی” کے استاذ محترم *”حضرت قاری بدر الدین صاحب فلاحی”* کہ جنہوں نے کافی عرق ریزی اور جانفشانی کے ساتھ بچوں کے مستقبل کی تابناکی کے لئے مسلسل جد و جہد کی، اور تین سال کی قلیل مدت میں ١٦ ننھے منھے بچوں کو، ایک چھوٹی کوٹھری میں حافظ قرآن بنا کر سروں پر تاج بخش دیا، انہوں نے اس مبارک کام کا آغاز لاک ڈاؤن کے سال شروع کیا تھا ، "حضرت قاری صاحب” رشتے میں حضرت الاستاذ قاضی محمد امداداللّٰہ صاحب قاسمی دامت برکاتہم کے بڑے مامو جناب ماسٹر محمد مرتضی صاحب کے داماد ہیں، انہوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے
یہ کوئی آسان کام نہیں تھا ، کتنی جد و جہد کرنی پڑتی ہے اور کس قدر کوشاں رہنا پڑتا ہے یہ تو مکتب میں پڑھانے والے ہی صحیح طور پر جان سکتے ہیں۔ آپ اس کام کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہی وہ پہلا شعبہ ہوتا ہے جہاں ننہے منہے بچوں کی ، کچی عمر میں ، بدعات و خرافات اور مشرکانہ عقائد و نظریات کے خلاف تربیت ہوتی ہے ، کتاب و سنت کی شاہراہ سے تمام باطل خیالات اور مشرکانہ عقائد و نظریات اور غیر اسلامی رجحانات کے خس و خاشاک کو دور کرنے کی پہلی مہم یہیں سے شروع کی جاتی ہے۔ دین و دنیا سے بے خبر، ناسمجھ، ننھے منہے بچوں کو مشرکانہ عقائد و خیالات اور غیر اسلامی رسم و رواج کی چھاپ سے دور رکھ کر، سنت و شریعت کی روشنی میں پروان چڑھانا اور اسلامی سانچے میں ڈھال کر سن شعور تک پہنچانا، یہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا، نکتہ آغاز سے نکتہ کمال تک پہنچانے میں ہمیشہ اس کا ایک خاص کردار رہتا ہے۔
اگر اس شعبہ کی ذمہ داری موصوف قاری صاحب جیسے مؤقر اساتذہ کرام قبول کرلیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہماری سرزمینوں سے جہالت دور ہوجائے ۔ لیکن آج کل تو کئی مدارس و مکاتب کا یہ حال ہے کہ دسیوں سال سے قائم ہیں لیکن ایک بھی حافظ قرآن ان کے یہاں سے نہیں نکلتے ، یہ مکتب ان مدارس و مکاتب کے لئے قابل عبرت ہے۔
اس موقع سے ان خوش نصیب والدین کا تذکرہ بھی ضروری ہے؛ کہ جن کی تربیت نے ان بچوں کو یہ موقع میسر فرمایا ، بچوں کی تربیت کی ذمّہ داری تعلیمی ادارے سے زیادہ ماں باپ کے ذمّے ہوتی؛ کیونکہ بچے تعلیمی ادارے میں کم اور گھر میں زیادہ رہتے ہیں؛ اگر اسے وہاں تربیت نہ دی گئی اور برے ماحول میں چھوڑ دیا گیا تو پھر اس کا مستقبل کبھی تابناک نہیں ہوسکتا ، وہ اسی ماحول میں بہہ کر رہ جائے گا ، یقیناً اس مبارک سفر میں ان کے والدین کا بھی ایک خاص کردار رہا ہے، میں انہیں مبارکبادی پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی ذمے داری کو سمجھا اور بخوبی نبھایا۔
واضح رہے کہ یہاں ان سب چیزوں سے بڑھ کر ایک چیز اور ہے جس کا تذکرہ یہاں ضروری ہے ، اور وہ ہے "سابق قاضی شہر مدھوبنی حضرت الاستاذ قاضی حبیب اللہ صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ” کی جان فشانی کا تذکرہ ۔ میرا خیال ہے کہ اس تذکرے کے بغیر مضمون ادھورا ہے لہذا ملاحظہ فرمائیں:
#حضرت_قاضی_صاحبؒ کی طرف منسوب یہ مکتب ( معہد الحبیب دکھنواری محلہ گواپوکھر بھوارہ مدھوبنی) آج جو مقبول ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ، در اصل وہ حضرت قاضی صاحبؒ کی محنت اور جان فشانی کا ثمرہ ہے ، کیونکہ بھوارہ کی وہ سرزمین حضرت قاضی صاحبؒ کی جہد مسلسل کی وجہ سے ہی علمی سرزمین ہے ، ورنہ ایک زمانہ تھا کہ وہاں چہار جانب جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکی ہی ہوا کرتی تھی ، لیکن حضرت قاضی صاحبؒ نے اس کی آبیاری کی اور ایک علمی سرزمین بنا دیا ، چنانچہ علماء جانتے ہیں کہ حضرت قاضی صاحبؒ کی ذہنی کمال اور فکری عمق اپنی مثال آپ تھی، آپ نے ہر دم رشد و ہدایت، دعوت و عزیمت اور مذہبی اصلاح و انقلاب کو اپنا شعار بنایا، انہی خوبیوں نے آپ کو ہر دل عزیز بنا دیا تھا، آپ نے اپنی پوری زندگی اسی سرزمین کی آبیاری کے لئے صرف کردی، اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ہمیشہ اس کی ترقی کے لئے کوشاں رہتے، فتنہ و فساد جو اس وقت اپنی شباب پر تھا اس کے خاتمے کے لئے آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو پیش پیش رکھا، مشکلات کنہیں بیش نہیں آتیں؟ آپ نے پھر بھی میدان نہیں چھوڑا؛ بلکہ وقت اور حالات کے مطابق ہمیشہ ضروری اقدامات کرتے رہے، جس کا ثمرہ آج کھلی آنکھوں دیکھا جا سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان حفاظ کرام کو دونوں جہاں کی سعادت نصیب فرمائے اور ان کو استاذ اور والدین کے لئے ذریعے نجات بنائے، اور حضرت قاضی صاحبؒ کو اپنی شایانِ شان اجر عطا فرمائے اور درجات بلند فرمائے آمین ۔