مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

جدید سیرت نگاری میں سرسید کی خدمات پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد
مقامی و بیرونی اسکالرز نے ’خطبات احمدیہ‘ کے امتیازات واضح کئے اور اسے جدید سیرت نگاری کی خشت اوّل قرار دیا
علی گڑھ : 21 مارچ: سرسید اکیڈمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی جانب سے ’’سرسید، جدید سیرت نگاری کے پیش رو‘‘ موضوع پر یک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں مقامی اور بیرونی اسکالرز نے سرسید احمد خاں کی تصنیف ’الخطبات الاحمدیہ‘ کے امتیازات کو واضح کرتے ہوئے اسے اردو میں جدید سیرت نگاری کی خشت اوّل سے تعبیر سے کیا ۔اس موقع پر مقالات سرسید کی ساتویں جلد جو خطبات احمدیہ پر مشتمل ہے، کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کانفرنس کی صدارت کی ، جس میںسیرت اور اسلامی تاریخ کے ممتاز اسکالر پروفیسر کریگ کونسائیڈین، پروفیسر آف اسلامک اسٹڈیز، رائس یونیورسٹی، امریکہ، پروفیسر اختر الواسع، چیئرمین، خسرو فاؤنڈیشن ، ایران کی المصطفیٰ یونیورسٹی کے نمائندے پروفیسر رضا شاکری، این سی پی یو ایل، نئی دہلی کے ڈائریکٹر پروفیسر عقیل احمد ، پروفیسر اے آر قدوائی، اعزازی ڈائرکٹر ، کے اے نظامی سنٹر فار قرآنک اسٹڈیز، اے ایم یو، پروفیسر توقیر عالم، ڈین ، فیکلٹی آف تھیالوجی ، سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی اور ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے اظہار خیال کیا اور موضوع کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
ایران کے پروفیسر رضا شاکری نے افتتاحی کلمات میں کہاکہ تاریخ بشریات ، تاریخ تمدن ہند اور اصلاح معاشرہ میں سرسید کی خدمات مثالی ہیں۔ وہ زماں شناس دانشور اور سائنسی مزاج کے حامل بیباک انسان تھے ۔ پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ولیم میور کی کتاب کا جواب انھوں نے لندن جاکر تصنیف کیا ، جس کے لئے انھوں نے اپنا قیمتی اثاثہ فروخت کردیا۔ انھوں نے کہا ’’سرسید کے عملی کارنامے انھیں انقلابی شخصیات کی صف میں کھڑا کرتے ہیں ۔ سیرت نبوی پر سرسید کی خدمت انھیں ہمیشہ بلند مقام پر فائز رکھے گی‘‘۔ پروفیسر شاکری نے ایران میں سیرت نگاری کا ایک جائزہ بھی پیش کیا ۔
پروفیسر اختر الواسع نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا ’’سرسید نے اردو کی سب سے پہلی سیرت کی کتاب ’’خطبات احمدیہ‘‘ لکھی، جو اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات کے حوالے سے عالم اسلام کی پہلی باضابطہ معروضی تصنیف ہے۔ سرسید نے یہ کتاب لندن میں لکھی اور وہیں سے شائع کرائی۔ پروفیسر آرنلڈ کے بقول یہ کتاب اس اعتبار سے اولیت کا درجہ رکھتی ہے کہ اس نے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب عیسائیت کے گڑھ یعنی یورپ میں دیا تھا‘‘۔
انھوں نے کہاکہ اس کتاب میں 12خطبات ہیں اور اس کا اسلوب مناظرانہ نہیں بلکہ مصالحانہ ہے۔ اس میں اعتراضات کے جواب بھی مدلل دئے گئے ہیں ۔ پروفیسر اختر الواسع نے کہا ’’خطبات احمدیہ اگرچہ ولیم میور کے جواب میں لکھی گئی تاہم اس میں سرسید نے بہت سی نئی اور مفید معلومات جمع کردی ہیں جن سے بعد کے سیرت نگاروں نے بھی استفادہ کیا ہے‘‘۔ انھوں نے مزید کہاکہ سرسید کے اس جواب سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نعرہ بازی اور اشتعال انگیزی کے بجائے دلیلوں سے اپنا جواب دینا چاہئے۔
وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا’’ سرسید کی شخصیت وسیع الجہات تھی ۔ وہ ماہر تعلیم، قانون داں، ماہر آثار قدیمہ، صحافی اور مصلح قوم و ملت تھے۔ خطبات احمدیہ سے سیرت پر ان کی تحقیق اور جدید و قدیم مآخذ سے استفادے کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے ‘‘۔
پروفیسر منصور نے کہا کہ سرسید انڈومنٹ فنڈ سے سرسید اکیڈمی اور یونیورسٹی کے دیگر شعبہ جات کے لئے سرسید اور علی گڑھ تحریک پر اس طرح کے علمی پروگراموں کے انعقاد کی راہ آسا ن ہوگئی ہے۔ انھوں نے ایک منفرد موضوع پر کانفرنس کے انعقاد کے لئے سرسید اکیڈمی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے یہ بات دوہرائی کہ کسی بھی شخصیت اور اس کی خدمات کا تجزیہ اس کے عہد کے حوالے سے کرنا چاہئے تبھی ہم ان کی معنویت سمجھ سکتے ہیں اور موضوع سے انصاف کرسکتے ہیں ۔سرسید کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا چاہئے جو اپنے عہد کے انقلاب آفریں شخص تھے اور ان کے کارناموں کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔
مہمان خصوصی این سی پی یو ایل کے ڈائرکٹر پروفیسر عقیل احمد نے اپنے خطاب میں کہاکہ سرسید سبھی کے لئے باعث تحریک ہیں۔ انھوں نے جدید اردو نثر کی شروعات کی، اور جدید سیرت نگاری کی بنا ڈالی۔ خطبات احمدیہ کو جدیدتحقیق کا بھی نمونہ کہا جاتا ہے ۔انھوں نے مدلل اور منطقی انداز میں سیرت پر لکھا ہے ۔ پروفیسر عقیل نے این سی پی یو ایل کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہر ممکنہ تعاون کی پیشکش کی ۔
پروفیسر کریگ کونسائیڈین، پروفیسر آف اسلامک اسٹڈیز، رائس یونیورسٹی نے آن لائن خطاب میں کہاکہ پیغمبر اسلام ؐ نے مذہبی رواداری ، ہم آہنگی اور اخوت کی تعلیم دی اور اسے پوری زندگی اپنایا۔ انھوں نے میثاق مدینہ کا حوالہ دیتے ہوئے مدینہ میں دیگر قبائل و مذاہب کے لوگوں کے ساتھ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے معاملات کا ذکر کیا اور کہا کہ مغرب میں پیغمبر اسلام کو غلط طور سے پیش کیا گیا ہے یا انھیں غلط سمجھا گیا ہے ۔
پروفیسر کونسائیڈین نے اپنی انگریزی تصنیف ’’دی ہیومینیٹی آف محمد: اے کرشچیئن ویو‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ پیغمبر اسلام نسل پرستی کے سخت خلاف تھے ۔انھوں نے کہا ’’پیغمبر اسلام نے ’سول نیشن اسٹیٹ‘ کا تصور پیش کیا جہاں مختلف پس منظر ، مذاہب و عقائد پر عمل پیرا انسان ایک ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔
امریکی پروفیسر نے عیسائیوں کے ساتھ پیغمبر اسلام کے معاملات و روابط کے بارے میں بھی گفتگو کی ۔ انھوں نے کانفرنس کے موضوع کو سراہتے ہوئے سرسید اکیڈمی کا شکریہ ادا کیا۔
پروفیسر اے آر قدوائی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ خطبات احمدیہ کے ذریعہ سرسید نے اردو میں سیرت نگاری کا نیا معیار قائم کیا، جس کو بعد میں علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی وغیرہ نے اپنایا ۔انھوں نے کہا ’’سرسید نے لاطینی، عبرانی، عربی وغیرہ کے حوالہ جات استعمال کئے۔ انھوں نے قدیم و جدید مآخذ بشمول طبری، ابن ہشام، ابن اسحاق، مسعودی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز وغیرہ کے حوالے دئے جو جدید تحقیق کا انداز ہے‘‘ ۔
پروفیسر قدوائی نے کہا ’ـ’خطبات احمدیہ ایک علمی و تجزیاتی تصنیف ہے جس میں تقابل ادیان کا پہلو بھی شامل ہے ۔ اس میں یہودیت ، عیسائیت و اسلام کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے اور بین المذاہب ڈائیلاگ کی اہمیت واضح کی گئی ہے‘‘۔ انھوں نے سرسید اکیڈمی کی جانب سے ایک منفرد موضوع پر کانفرنس کے انعقاد کو سراہا۔
پروفیسر توقیر عالم نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرسید نے خطبات احمدیہ میں دلائل کی روشنی میں ولیم میور کے الزامات کا کافی و شافی جواب دیا ہے۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے سرسید حکمرانوں سے مرعوب نہیں ہوئے اور عواقب و انجام سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی دل کی آواز پر لبیک کیا ۔ سرسید کی یہ بلند ہمتی لائق رشک اور لائق فکر و عمل ہے ۔انھوں نے مزید کہاکہ سرسید نے اپنی تصنیف کے ذریعہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے شکوک و شبہات کا بھی مسکت جواب دے دیا ۔
اس سے قبل سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی نے مہمانوں اور حاضرین کا خیرمقدم کیا اور موضوع پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا ’’سرسید کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ انھوں نے قوم و ملت کو قرون وسطیٰ کے ذہنی حصار سے نکال کر جدید ذہنی دور میں داخل کیا۔ جدید تعلیم، مسلمانوں میں سائنسی فکر کا رواج، جدید سیاسی دور، جدید اردو ادب، جدید نثر ، جدید تنقید، جدید تفسیر، جدید علم کلام اور جدید سیرت نگاری سمیت متعدد میدانوں میں جدید منطقی انداز کا آغاز سرسید سے ہوا۔
خطبات احمدیہ میں جدید سیرت نگاری کے نکات بیان کرتے ہوئے پروفیسر نقوی نے کہا توضیح و تفصیل کے بجائے تحلیل و تجزیہ، تعریف و توصیف کے بجائے تحقیق، نقل روایات کے بجائے عقل و سائنس اور تاریخی تحقیق کے معیار کا لحاظ، روایت کے بجائے درایت اور مواد پر زور، اور جدید دور کے الزامات کا جواب جدید سیرت نگاری کی خصوصیات ہیں جس کا مثالی نمونہ خطبات احمدیہ ہے ۔ اس طرح سرسید جدید سیرت نگاری کے پیش رو ہیں۔
سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرسید اکیڈمی نے سرسید کی علمی خدمات ، ان کے رفقاء اور اکابرین علی گڑھ پر چالیس مونوگراف سمیت متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ کلیات سرسید کی کڑی میں مقالات سرسید شائع کی گئی ہے ، جس کی ساتویں جلد خطبات احمدیہ پر مشتمل ہے ۔انھوں نے کہاکہ سرسید اور علی گڑھ تحریک کے بنیادی مآخذ کو اکیڈمی شائع کررہی ہے ، جس میں وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کا بھرپور تعاون اور ان کی سرپرستی شامل ہے۔ اس کے لئے ہم وائس چانسلر کے مشکور ہیں۔ انھوں نے آخر میں شکریہ کے کلمات ادا کئے۔
نظامت کے فرائض ڈاکٹر سید حسین حیدر نے انجام دئے ۔کانفرنس میں اسکالرز و دانشوروں کی کثیر تعداد موجود رہی۔
٭٭٭٭٭٭
سنت ادبیات پر قومی سیمینار کا انعقاد
علی گڑھ، 21 مارچ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جدید ہندوستانی زبانوں کے شعبہ میں مراٹھی سیکشن ، پنجابی سیکشن اور اتر پردیش پنجابی اکیڈمی، لکھنؤ کے اشتراک سے ’’سنت ادبیات کی قدر، سماجی شعور اور معنویت ‘‘کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیاگیا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی، چانسلر، ہماچل پردیش سنٹرل یونیورسٹی، دھرم شالہ، پدم شری پروفیسر ہرموہندر سنگھ بیدی نے کہا کہ، ”سنت ادبیات مختلف ہندوستانی افکار کا منفرد مجموعہ ہے۔ ماضی کے ہندوستان میں جہالت و ناخواندگی کے دور میں صوفی سنتوں نے خود شناسی پر زور دیا۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا، ” ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد تفریق کو مٹاکر اور اتحاد پیدا کرکے قائم کی جاسکتی ہے۔صوفی سنتوں نے ذات پات اور ادنیٰ و اعلیٰ کی بنیاد پر تفریق کی مخالفت کی ہے۔
مہمان اعزازی پروفیسر ستیش باروے (سابق سربراہ، مراٹھی شعبہ، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، چھترپتی سمبھاجی نگر) نے کہا، ”آج عالمگیریت اور مسابقت کے دور میں انسان انسان سے دور ہوتا جا رہا ہے اور اخلاقی اقدار سے انحراف کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانوں کو صحیح تعلیم دینے کے لیے اخلاقی اقدار اور بیداری پیدا کرنا ضروری ہے۔
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ معروف شاعر پروفیسر موہن جیت سنگھ نے کہا کہ سنت ساہتیہ کے افکار و خیالات آج کے سائنسی دور کے ساتھ ساتھ عصری تناظر میں بہت کارآمد ہیں۔ آج معاشرے میں بہت سے مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ معاشرے میں عدم استحکام، بے یقینی اور عدم تحفظ کا راج ہے، ایسی حالت میں سنتوں کے افکار ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں۔
پروفیسر اویناش اوالگاؤنکر (سابق سربراہ، مراٹھی شعبہ، ساوتری بائی پھولے یونیورسٹی، پونے) نے کہا کہ سنت ادبیات کی سات سو سال پرانی روایت ہے اور اس کے خیالات جدید دور میں بھی لازوال اور موزوں ہیں۔ وہ معاشرے کو ایک نیا نقطہ نظر اور نئی فکر دیتے ہیں، اور معاشرے کو مہذب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسٹر اروند نارائن مشرا (رابطہ عامہ افسر، اتر پردیش پنجابی اکیڈمی، حکومت اتر پردیش) نے کہا ’’سنتوں کی لازوال باتیں نہ صرف قرون وسطی میں موزوں تھیں، بلکہ یہ ہندوستانی ثقافت کے ہر دور کے لیے اہم رہیں گی۔ سنتوں کی شاعری ان عقیدت مندوں کے سادہ دل احساس کی صرف ایک مثال ہے جو سب کی بھلائی چاہتے ہیں‘‘۔
پروفیسر عارف نذیر (ڈین فیکلٹی آف آرٹس) نے کہا کہ سماجی حالات سے تخلیق ہونے والا ادب سماجی حالات کو بدل دیتا ہے۔ ادب نے معاشرے کو متاثر کیا اور اسے تبدیل کیا ہے ۔ سنت ادبیات کی سماجی تبدیلی کی طاقت صرف ایک وقت تک محدود نہیں ہے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ممتاز پنجابی ادیب اور دہلی یونیورسٹی کے پنجابی شعبہ کے سابق سربراہ پروفیسر منجیت سنگھ نے کہا کہ سنتوں کی تحریک کو صرف مذہبی نقطہ نظر سے دیکھنا ناانصافی ہو گی کیونکہ اس کے علمبرداروں کا بنیادی مقصد سماجی برائیوں کا خاتمہ تھا ۔ ایک نیا ضابطہ اخلاق تمام انسانوں کی سیکولر اور روحانی زندگی کے لیے مفید ہے۔
صدر شعبہ پروفیسر ایم اے زرگر نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا جبکہ پروگرام کی نظامت سیمینار کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر ایچ پٹھان نے کی۔ سیمینار کوآرڈینیٹر پروفیسر کرانتی پال نے شکریہ کی تجویز پیش کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر ایچ پٹھان کی دو کتابوں کا بھی اجراء عمل میں آیا۔
سیمینار کے دوران اے ایم یو اور دیگر یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز نے 63 تحقیقی مقالے پیش کیے ۔ موسیقی کے سابق استاد، جانی فوسٹر نے اے ایم یو ترانہ کو مراٹھی، پنجابی، کشمیری، ہندی، ملیالم اور بنگالی زبانوں میں پیش کیا۔
٭٭٭٭٭٭
’ورلڈ اورل ہیلتھ ڈے‘ کا اہتمام
علی گڑھ، 21 مارچ: جی 20 کی صدارت سے متعلق پروگرام اور ’’ورلڈ اورل ہیلتھ ڈے‘‘ کی سالانہ تقریبات کے تسلسل میں ڈاکٹر ضیاء الدین احمد ڈینٹل کالج، اے ایم یو میں اساتذہ اور ریزیڈنٹس نے منھ اور دانتوں کی صحت کے سلسلہ میں بیداری پیدا کرنے اور کمزور طبقات تک دانتوں اور منھ کی صحت کا پیغام پہنچانے کا حلف لیا ۔
پروگرام ”اپنے منہ پر فخر کرو” کا آغاز پروفیسر نیہا اگروال کی تعارفی تقریر سے ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ منھ کی صحت کے لیے 20 نمبر کو خاص سمجھا جاتا ہے۔ صحت مند عمر افراد کے 20 قدرتی دانت ہونے چاہئیں، اسی طرح صحت مند بچوں کے پاس بھی 20 دانت ہونے چاہئیں۔
پیڈوڈونٹکس اور پبلک ہیلتھ ڈینٹسٹری شعبہ جات نے مشترکہ طور سے ایک خصوصی پروگرام کا اہتمام کیا جس کا افتتاح ڈینٹل کالج کے پرنسپل پروفیسر آر کے تیواری نے کیا۔
دوسری طرف علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر منھ کی صحت سے متعلق ایک بیداری کیمپ کا انعقاد کیا گیا، جس کی نگرانی پروفیسر ایس کے مشرا اور پروفیسر وویک کمار شرما نے کی۔ اس موقع پر عام لوگوں کو دانتوں کی صفائی کی اہمیت کے بارے میں بتایا گیا۔اس کے علاوہ انڈین سوسائٹی آف پیریوڈونٹولوجی کی جانب سے بیداری پوسٹر و بینرز آویزاں کئے گئے ۔
اس کے ساتھ ہی کالج کے رسیپشن پر اساتذہ کی ٹیم نے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا۔ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے انٹرن نے ”نکڑ ناٹک” پیش کیا جس میں انہوں نے تمباکو کے استعمال کے مضر اثرات بیان کئے۔ اس موقع پر حاضرین کے سوالوں کے جواب بھی دئے گئے اور انھیں منھ کی صحت کے سلسلہ میں کارآمد معلومات فراہم کی گئیں ۔
٭٭٭٭٭٭
کینسر بلاک او پی ڈی کا افتتاح
علی گڑھ 21 مارچ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج و اسپتال میں تقریباً ایک کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر شدہ کینسر بلاک او پی ڈی کا افتتاح کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ نیا او پی ڈی بلاک، کینسر کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو منظم کرنے اور انہیں دیکھ بھال کی بہتر سہولیات فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
اس موقع پر پروفیسر وینا مہیشوری (ڈین، فیکلٹی آف میڈیسن)، پروفیسر راکیش بھارگو (پرنسپل اور سی ایم ایس، جے این میڈیکل کالج) اور پروفیسر حارث ایم خان (میڈیکل سپرنٹنڈنٹ) موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ نئی سہولت سے کینسر کی جلد تشخیص اور علاج میں مدد ملے گی۔
پروفیسر محمد اکرم (چیئرمین، شعبہ ریڈیو تھیریپی) نے کہا کہ نئے کینسر او پی ڈی بلاک کو مریضوں کو بہترسہولیات فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں کینسر کی مختلف اقسام کے مریضوں کے لئے متعدد کمرے ہیں ۔
افتتاحی تقریب میں اساتذہ، ریزیڈنٹ ڈاکٹرز اور عملہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو کے استاد نے کلیدی خطبہ پیش کیا
علی گڑھ 21 مارچ: ڈاکٹر عامر ریاض، شعبہ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے آر این ٹی پی جی کالج، کپاسن، چتور گڑھ کے زیر اہتمام ”عصری دنیا میں گاندھیائی افکار کی معنویت” موضوع پر منعقدہ سیمینار میں کلیدی خطبہ دیا۔
ڈاکٹر عامر نے گاندھیائی افکار کے بنیادی عناصر پر گفتگو کی جو سچائی اور عدم تشدد، ستیہ گرہ، سروودیہ اور ٹرسٹی شپ کے تصور سے تشکیل پاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں جب لوگ مادی فوائد کی طرف زیادہ مائل ہیں، اہنسا اور ٹرسٹی شپ کا گاندھیائی فلسفہ بہت موزوں ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہنسا کے تصور میں ایک مثبت نقطہ نظر اور سبھی کے لیے محبت کا جذبہ پنہاں ہے۔
٭٭٭٭٭٭
روڈ سیفٹی آگہی پر لیکچر
علی گڑھ 21 مارچ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈاکٹر ضیاء الدین احمد ڈینٹل کالج نے نیشنل سروس اسکیم (این ایس ایس) کے تعاون سے جی 20چوٹی کانفرنس کے بینر تلے روڈ سیفٹی بیداری پر مسٹر فرید الدین، ریجنل ٹرانسپورٹ آفیسر، علی گڑھ کے لیکچر کا اہتمام کیا ۔
مسٹر فرید الدین نے روڈ سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات پر تبادلہ خیال کیا اور سبھی پر زور دیا کہ وہ اپنی سلامتی اور حفاظت کے لیے وقتاً فوقتاً طے کیے جانے والے روڈ سیفٹی قواعد و ضوابط پر عمل کریں۔ انہوں نے سڑک حادثات کو روکنے میں مدد کے لیے حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے آن لائن پلیٹ فارمز کا ذکر کیا۔
ڈاکٹر ارشد حسین، پروگرام کوآرڈینیٹر، این ایس ایس نے سڑک حادثات سے بچاؤ کے لئے سبھی کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی۔
٭٭٭٭٭٭
وی ایم ہال نے انٹر ہال ہاکی ٹورنامنٹ جیتا
علی گڑھ، 21 مارچ: وی ایم ہال کی ٹیم نے ہاکی کلب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیر اہتمام منعقدہ انٹر ہال ہاکی ٹورنامنٹ 2023 کے فائنل میں ایم ایم ہال کی ٹیم کو شکست دے کر خطاب پر قبضہ کیا ۔وی ایم ہال کی ٹیم نے پنالٹی شوٹ آؤٹ میں 4-2سے کامیابی حاصل کی۔
پروفیسر محمد وسیم علی (پراکٹر)، پروفیسر ایس امجد علی رضوی (سکریٹری، یونیورسٹی گیمز کمیٹی)، پروفیسر جی ایس ہاشمی (صدر، ہاکی کلب)، سابق کپتان محمد شہدا علی، محمد خان، پروفیسر طارق مرتضیٰ (پرووسٹ، وی ایم ہال)، ،مسٹر انیس الرحمان (ڈپٹی ڈائریکٹر، فزیکل ایجوکیشن اینڈ اسپورٹس) اور مسٹر ارشد محمود (اسسٹنٹ ڈائریکٹر، فزیکل ایجوکیشن اینڈا سپورٹس) نے انعامات تقسیم کئے۔
مسٹر اختاب خاں (کپتان، ہاکی کلب اور آرگنائزنگ سکریٹری) نے مہمانوں کا استقبال کیا جبکہ پروگرام کی نظامت مسٹر شمس نے بخوبی کی۔
٭٭٭٭٭٭

Comments are closed.