Baseerat Online News Portal

رمضان المبارک میں گناہوں کی سنگینی بڑھ جاتی ہے

از: جنید احمد قاسمی
جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر
رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے ۔ ایک نیکی کا ثواب ستر گنا بڑھ کر ملتا ہے ۔ البتہ گناہ کی تعداد میں اضافہ تو نہیں ہوتا؛ لیکن سنگینی بڑھ جاتی ہے ۔ ”مَنْ تَقَرَّبَ فِیہِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ أَدَّی فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاہُ، وَمَنْ أَدَّی فَرِیضَةً فِیہِ کَانَ کَمَنْ أَدَّی سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاہُ“(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: ۳۳۳۶)
اس مہینہ میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے مہینوں کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور جو اس مہینہ میں فرض عبادت ادا کرے گا تو دوسرے مہینہ کے ستر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔
اس سلسلے کا اصول یہ ہے کہ : اوقات اور امکنہ کی تبدیلی سے ثواب میں اور گناہوں کی سنگینی میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ مثلاً مسجد حرام ، مسجد نبوی ، اور مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کا ثواب دیگر مسجدوں کے مقابلے میں بڑھ جاتا ہے ۔ اسی طرح جمعہ،حرمت والے مہینوں اور رمضان جیسے اوقات میں نیکی کے ثواب میں کئی گنا اضافہ ہو جاتاہے۔ یہ باتیں کتاب و سنت سے ثابت ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا رمضان المبارک، جمعہ وغیرہ میں انجام دیئے جانے والے گناہوں میں بھی نیکیوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے؟ بعض محققین نے حضرت ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیسے نیکیوں کی تعداد وحسن میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ہی گناہوں کی قباحت و تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے؛ لیکن دوسرے علماء کرام نے ان کے قول سے مراد تعداد میں اضافہ نہیں بلکہ سنگینی میں اضافہ لیا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام میں فرمایا ہے : مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجْزَى إِلا مِثْلَهَا وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ ) الأنعام / 160
جو شخص ایک نیکی لائے گا اسے اس کا ثواب دس گنا بڑھا کر دیا جائے گا ۔ اور جو گناہ لے کر آئے گا اسے اسی کے برابر عذاب ہوگا ۔
نوٹ : اس آیت کریمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نیکی کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے؛ لیکن گناہ کی سزا گناہ کے بقدرہی ملے گی ۔
دوسری آیت کریمہ ہے : ( وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ) الحج/25 . یعنی: جو شخص حرم میں حق سے پھرے گا اور واجب وفرض کو چھوڑنے کا یا حرام کام کرنے کا عزم و ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب دیں گے ۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے تعداد گناہ میں اضافے کی بات نہیں کی؛ بلکہ گناہ میں کیفیت کے اعتبار سے سنگینیت و سختی کو بتایا ۔
خلاصہ:
خلاصہ یہ کہ رمضان المبارک میں سب سے اہم اور بنیادی چیز گناہوں سے مکمل پرہیز کرنا ہے ، گناہوں کے ساتھ روزوں کی برکات اور رمضان کے انوار کا حقیقی لطف نہیں مل سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
وإذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفث ولا یصخب، فإن سابہ أحد أو قاتلہ فلیقل إنی أمرء صائم․(بخاری: ۱۹۰۴)
جب کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش اور گندی باتیں اور شوروشغب بالکل نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس سے الجھے اور غلط باتیں کرے پھر بھی روزہ دار اس سے کوئی سخت بات نہ کہے، بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ جناب! میرا روزہ ہے۔
اس ہدایت میں اشارہ ہے کہ روزہ کی خاص فضیلتیں اور برکتیں انہی کو حاصل ہوتی ہیں، جو گناہوں سے اور بری و ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔
اللہ کی نظر میں روزہ اور روزے دار کی اہمیت :
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے روزوں کی حفاظت کے لیے، سرکش شیاطین کو قید کردیتے ہیں، جہنم کے تمام دروازے بند کردیتے، یعنی شر کے تمام راستے بند کردیتے ہیں، جنت کے تمام دروازے کھول دیتے ہیں ۔ جب اللہ کی طرف سے ہمارے روزوں کی حفاظت کا اتنا اہتمام ہے تو اگر ہم خود اپنے روزوں کو غلط چیزوں سے محفوظ نہ رکھ سکیں تو یہ کتنی بے غیرتی کی بات ہوگی۔
رمضان المبارک کا حق ادا کرنے والا رسوا نہ ہو گا :
حضرت ام ھانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے: رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ میری اُمت ذلیل و رُسوا نہ ہوگی جب تک وہ ماہِ رَمضان کا حق ادا کرتی رہے گی۔ ‘‘ عرض کیا گیا : یَارَسُول اللہ ..رَمضان کے حق کو ضائع کرنے میں ان کا ذلیل و رسوا ہونا کیا ہے؟ فرمایا: ’’ اِس ماہ میں ان کا حرا م کاموں کا کرنا۔ ‘‘ پھر فرمایا: ’’ جس نے اِس ماہ میں زِنا کیا یا شراب پی تو اگلے رَمضان تک اللہ عَزَّوَجَلَّ اور جتنے آسمانی فرشتے ہیں سب اُس پر لعنت کرتے رہیں گے پس اگر یہ شخص اگلاماہ ِ رَمضان پانے سے پہلے ہی مرگیا تو اس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جو اسے جہنم کی آگ سے بچاسکے ۔ پس تم ماہِ رَمضان کے معاملے میں ڈرو کیونکہ جس طرح اِس ماہ میں اور مہینوں کے مقابلے میں نیکیاں بڑھا دی جا تی ہیں اِسی طرح گناہوں کا بھی مُعامَلہ ہے۔‘‘ لَمْ يَرْوِهِ عَنِ الأعْمَشِ إلّا ابْنُ أبِي طَيْبَةَ، ولا عَنْهُ إلّا ابْنُهُ، ولا يُرْوى عَنْ أُمِّ هانِئٍ إلّا بِهَذا الإسْنادِ تَفَرَّدَ بِهِ عَمّارُ بْنُ رَجاءٍ ( المُعجَم الصغیر ج١ ص:٢٤٨،باب العین، من اسمہ عبد الملک )
رمضان المبارک میں ہونے والے گناہ :
1- فلم بینی : غیر محرم عورتوں پر مشتمل فلم بینی کا شمار زنا کی اقسام میں سے ہوگا ۔ جس طرح قرآن مجید میں زنا سے روکا گیا ہے اسی طرح غیر محرموں کو دیکھنے سے بھی روکا گیاہے۔ اٹھارہویں پارے کی سورہ نور میں اس کی تفصیل موجود ہے ۔ اب موبائل کے کثرت کے ساتھ استعمال سے اس میں موجود بے شمار برائیاں انسان کے نزدیک وہ کراہت نہیں رکھتیں جس کا تصور پہلے تھا ۔ بہت سارے ایسے حضرات جن کی نمازیں نہیں چھوٹتیں، روزے نہیں چھوٹتے، جبہ و دستار والے ہیں، چلہ چار مہینہ بھی لگایا ہے انھیں بھی دیکھتا ہوں سیریل دیکھ رہے ہیں ۔ ہنسانے والی، جھوٹ پر مبنی ویڈیوز، عورتوں کے کردار پر مشتمل فلموں سے دل بہلا رہے ہیں ۔ اس طرح روزے کا کیا حشر ہوگا؟ جس طرح روزے کی حالت میں غیبت، چغل خوری سے روکا جاتا ہے اسی طرح فلم بینی سے بھی رکنا اور روکا جانا چاہیے ۔
2- نماز کی ادائیگی میں سستی :
رمضان المبارک میں نیک اعمال کی کثرت ہونی چاہیے؛ لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ نماز کے باب میں وہ دل چسپی نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی ۔ تراویح بیس کے بجائے آٹھ رکعات پڑھنا بھی اسی غفلت اور سستی کا نتیجہ ہے ۔
3- چندہ کی وصولیابی میں عدم احتیاط :
بعض حضرات اسی ماہ مبارک میں فرضی رسیدیں چھپوا کر زکوۃ و خیرات کی رقم وصول کرتے ہیں اور اپنے مصرف میں استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے سخت گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ البتہ جو لوگ حقیقت میں مدارس کے کام کے لیے نکلتے ہیں اور بہت ساری کلفتیں برداشت کرتے ہیں ۔ روزہ و نماز کا اہتمام کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے ان شاء اللہ، اللہ پاک کے یہاں بڑا اجر ہوگا ۔
مبارک باد ہے ان لوگوں کے لیے جو اس مہینے کو رزق حلال کی تلاش میں اور عبادتوں میں گزارتے ہیں ۔
کرنے کے چار کام :
اس مہینے میں روزہ، تراویح، کثرت کے ساتھ تلاوتِ قرآن کے علاوہ کرنے کے چار اہم کام ہیں :
1- کلمہ طیبہ کی کثرت
2- استغفار کی کثرت
3- جنت کی طلب
4- جہنم سے خلاصی کی دعاء اور کوشش
ہمارے اور ہمارے خویش و اقارب کے لیے بھی آپ حضرات دعا فرمادیں ۔ وباللہ التوفيق والسداد.

Comments are closed.